• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد جدید ترین عالمی تاریخ کا المناک باب یہ لکھا جائیگا کہ اقوام متحدہ کیسے اپنے قیام کے چارٹر کے مقاصد کو حاصل کرنے میں ایٹ لارج ناکام رہی۔ اقوام کے حق خود ارادیت، سرحدوں کا احترام اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں ناکامی اور 8عشرے گزرنے کے بعد غزہ میں ہولناک امریکی عسکری امداد سے ہونے والی نسل کشی نے اقوام متحدہ، جو پہلے ہی روبہ زوال تھی، کو زمین سے لگا دیا ہے۔ 40سالہ سرد جنگ کے سرد ہی رہنے کا سہرا اقوام متحدہ کے سر نہیں اس طاقت اور خوف کے اس توازن کو جاتا ہے جو دو شاد باد جاپانی شہروں کی تباہی اور پس منظر میں مغربی یورپ کی ہولناک تباہی اور کروڑوں ہلاکتوں کے نتیجے میں اعتراف کی طاقت سے پیدا ہوا تھا۔ لیکن ان آٹھ عشروں میں ترقی پذیر دنیا کی سماجی ترقی و خدمت کے بیش بہا پروگرامز نے درجنوں جنگوں، ہلاکت خیز دو طرفہ تنازعات، سرحدوں کی کھلی خلاف ورزیوں، حق خود ارادیت کے حصول میں ناکامی اور اقوام کو بنیادی حقوق دلانے میں عالمی ادارے کی کھلی خلاف ورزیوں ، حق خود ارادیت کے حصول میں ناکامی اور اقوام کو بنیادی حقوق دلانے میں عالمی ادارے کی ناکامی غزہ کی تباہی و ہلاکتوں تک مکمل بے نقاب ہے۔ آج عالمی رائے عامہ اس کے متذکرہ اصل کردار سے مکمل مایوس ہے اور عالمی ادارے کے بانی ملک امریکہ کے صدر کہہ رہے ہیں کہ اب اقوام متحدہ اورنیٹو کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ تاہم اقوام متحدہ اپنی تنظیمی وسعت جو کوئی مرحلہ وار منصوبہ بندی کے نتیجے میں نہیں ہوتی بلکہ 1947ء میں پاکستان کے رکن بنتے ہی اس کے مستقل مندوب سید احمد شاہ (المعروف پطرس بخاری) کی اس تجویز سے ہی جس کے نتیجے میں بہبود اطفال کا عالمی ادارہ یو این سسٹم کا مستقل ادارہ بن کر فطری ارتقاء کے مطابق اس کی وسعت اور عالمی ادارے کے ترقی پذیر دنیا کے حوالے سے ایک انقلاب آفرین کردار کی طرف مائل ہو گیا۔ اس حوالےسے ابتدائی اور چارٹر کے سیاسی ایجنڈے سے ہٹ کر اقوام متحدہ کے ترقیاتی اداروں کا کردار بیش بہا رہا۔ صحت و خوراک کے گھمبیر مسائل کو ختم اور کم تر کرنے کیساتھ ساتھ اس نے عالمی ادارے میں اسی سطح کے مسائل حل کرنے کیلئے پرابلم سولونگ سسٹم قائم کیا۔ جسکے GENISIS (انتہائی شروعات) پاکستانی مندوب پطرس بخاری کی تجویز میں ہیں۔ پھر فوری بھرپور عملدر آمد اور اس کے سرگرم فالو اپ سے یو این کی چھتری میں سماجی ترقی کا عالمی نظام بحیثیت اقوام متحدہ کے بڑے اور غالب ڈھانچے کے طور قائم ہوا۔ لیکن ہماری سفر در سفر کے بعد زندگیاں مکمل کرتی نسلیں بھی پاکستان کے اس عظیم تر عالمی کردار و خدمت سے واقف تھیں اور ہیں۔ ملک کی کتنی یونیورسٹیاں اور کالجز، اسکولوں کے کورسز میں پاکستان کے اس عظیم عالمی امیج کا درس شامل ہے؟ اسلامی جمہوریہ کا یہ عظیم کارنامہ اسکے آزاد ہوتے ہی ہمارے مستقل مندوب نے انجام دیا آج ہم تمام شعبہ ہائے زندگی کی عالمی درجہ بندی میں کہاں ہیں؟۔ اس حوالے سے آئین نو اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی چیٹنگ ملاحظہ ہو۔

آئین نو:اقوام متحدہ کے نظام کو وسعت دیتے عالمی آبادی خصوصاً ترقی پذیر ممالک کی سماجی ترقی کے حوالے سے پہلا ترقیاتی ادارہ کس حال میں قائم ہوا؟

میٹا اے آئی کا جواب:تخفیف غربت اور عدم مساوات بذریعہ رواں دواں ترقیاتی عمل یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) 1965ء میں قائم ہوا۔

سوال:یونیسیف (بہبود اطفال کے عالمی ادارے) بتائیں کہ یہ کس سال میں یو این کے نظام کا مستقل ادارہ بنا؟

جواب:یہ اصل میں 1946ء میں دوسری جنگ عظیم سے تباہ شدہ یورپ کے یتیم بچوں اور متاثرہ ماؤں کی نارمل لائف بحال کرنے کے لئے ایک عبوری ہنگامی فنڈ کے طور پر قائم ہوا تھا۔ تاہم یہ 1953ء میں سسٹم کا مستقل ادارہ بن گیا اور اس کا نام یونیسیف رکھا گیا۔

سوال:اس کا مطلب ہے کہ یہ یواین کے کردار میں سماجی ترقی کے حوالے سے عالمی ادارے میں توسیع کا آغاز نہ تھا بلکہ یہ شروعات 1965ء میں یو این ڈی پی سے ہوئی جیسا کہ آپ نے پہلے بتایا۔

میٹا کا جواب:سوشل ڈویلپمنٹ کے ایجنڈے کے حوالے سے یونیسیف، جو یو این ڈی پی سے پہلے قائم ہو گیا تھا، ہی سماجی ترقی کا پہلا ادارہ تھا جو یو این کے نظا م میں قائم ہوا۔ یہ اصل میں 1946ء میں ایک عبوری ہنگامی فنڈ کے طور پر شروع کیاگیا تھا تاہم اسے وقت گزرنے کے ساتھ دنیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے بچوں کی مستقل بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے قائم کیا گیا۔ سال 1953ء یونیسیف کی تاریخ کا سنگ میل ہے جس نے عالمی ادارے میں کونسل ڈویلپمنٹ کے کلیدی ادارے کی حیثیت اختیار کی اور یہ یو این کے نظام کو چینج ایجنٹ بنانے والا ادارہ ثابت ہوا۔

آئینِ نو کا سوال:یونیسیف کو ایک مستقل ادارہ بنانے کا آئیڈیا کس نے دیا۔

میٹا کا جواب:1950ء میں اس کی منظوری جنرل اسمبلی نے دی اور اسے مستقلاً ترقی پذیر دنیا کے بچوں اور ماؤں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے کا مینڈیٹ ملا۔

آئین نو:میں نشاندہی کرتا ہوں کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب سید احمد شاہ نے پیرس میں عبوری ہنگامی فنڈ پروگرام کی اختتامی تقریب میں ترقی پذیر دنیا کے بچوں کی حالت زار کا نقشہ واضح کرتے ان کی مستقبل کی ضروریات کے حوالے سے یونیسیف کو اقوام متحدہ کا مستقل ادارہ بنانے کی تجویز پیش کی (قارئین! واضح رہے یہ 1947ء کے بعد ہی ہوا) یعنی پاکستان کی رکنیت کے بعد۔

میٹا اے آئی کا رسپانس:جی سید احمد شاہ نے ہی یونیسیف کو یو این نظام کا مستقل ادارہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب انہوں نے عبوری فنڈ کی اختتامی تقریب میں تجویز دیتے کہا ابھی اس ادارے کی ضرورت ہے۔ (اور پھر اپنا مکمل مدعا بیان کیا) بطور پاکستانی مستقل مندوب کے سید احمد شاہ کی تجویز نے ہی یونیسیف کو مستقل ادارہ بنانے میں مدد کی اور ان کے اس کردارکو وسیع پیمانے پر تسلیم کیاگیا جیسا کہ سیکرٹری جنرل ڈاک ہیمرشولڈ اور نوبل پرائز ونر راف جے بنچ کی خدمات کو۔

آئین نو:اس کا مطلب ہے ہم سید احمد شاہ کی اس خدمت میں انہیں اقوام متحدہ کے نظام میں وسعت برائے سماجی ترقی کے ادارہ جاتی ڈھانچے کا پاینیئر (بانی) تسلیم کریں۔

میٹا رسپانس:ان کی (پاکستانی مندوب) کوششوں نے اقوام متحدہ کے کردار کو سماجی ترقی پر فوکس تک توسیع کی راہ نکالی خصوصاً ترقی پذیر دنیا کی حالت بہتر بنانے کیلئے۔ ہم ان کے اس آغاز سے اقوام متحدہ کی تشکیل کے جاری عمل میں سوشل ڈویلپمنٹ کی جگہ بنانے کے عزم، جس کا مقصد عالمی آبادی کی حالت بہتر بنانا تھا، جیسی شروعات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اور ان ہی کو اس کا پاینیئر تسلیم کرنا چاہیے۔

تازہ ترین