لوگ معاشرتی برائیوں کے حوالے سے کس قدر پریشان ہیں، اس کا اندازہ مجھے پچھلے دو چار کالموں سے ہوا۔ سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے والے ت ع اسدی کہتے ہیں’’آپ نے کالم میں تضاد کی بات کی ہے، میں اس کی وجوہات پر بات کروں گا، میں بنیادی طور پر سوشل سائنسز کے شعبہ اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور میرے نزدیک معاشرے کی نبض بالکل واضح ہے، ہمارا عمومی رویہ آپ کو تضاد لگتا ہے۔یہاںمافیاز بالخصوص لینڈ مافیا ہمارے معاشرتی اور مذہبی رویئے کی بہترین عکاسی کرتا ہے،اس مافیا کے لوگ زمینوں پر قبضے کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناتے ہیں اور پھر ان میں وسیع و عریض شاندار مساجد بھی تعمیر کرتے ہیں، ہم بحیثیت مسلمان اللہ کو مانتے ہیں اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جان دینے کو تیار ہوتے ہیں مگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر عمل نہیں کرتے، ہم لاکھوں خرچ کر کے حج پر جاتے ہیں لیکن واپسی پر سود کا کاروبار کرتے ہیں، ہم زیادتی انسانوں سے کرتے ہیں اور پھر عبادات کر کے معافی اللہ سے مانگتے ہیں، ہم ایک طرف بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے، یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں اور دوسری طرف نماز پانچ وقت ادا کرتے ہیں۔ ہمیں گلگت سے گوادر تک خالص دودھ نہیں ملتا لیکن ربیع الاول اور محرم میں سبیلوں کا رش ختم نہیں ہوتا۔ سو جو ہم چیریٹی کرتے ہیں یہ بالکل اسی طرز کی ہے جیسے لینڈ مافیاکرتا ہے۔ ہمارے معاشرتی روئیے ایسے ہیں کہ ہم لوگوں سے ناجائز مال ہڑپ کرتے ہیں اور پھر نمازیں، خیرات اور صدقات ادا کرتے ہیں۔ ہم رمضان المبارک میں 5 روپے کی چیز پانچ سو کی بیچتے ہیں اور دوسری طرف تراویح میں رش ختم نہیں ہوتا کیونکہ بنیادی طور پر ہم منافق معاشرہ ہیں‘‘۔
یحییٰ عبد اللہ لکھتے ہیں کہ’’سٹی ٹریفک پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے وارڈنز’’کماؤ پتر‘‘ہیں۔ ٹریفک کا خیال کئے بغیر وہ چالان میں مصروف رہتے ہیں، جب ہدف پورا ہوجاتا ہے تو آرام کے لئے چلے جاتے ہیں۔ ایک بار کسٹم ہاؤس میں میری ایک آدمی سے ملاقات ہوئی، اس نے بتایا کہ کسٹم ہاؤس میں سب سے زیادہ کرپٹ عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ میرے پاس ایک کیس تھا، سی ایس پی کسٹم آفیسر 4بجے دفتر آئی، ایک گھنٹہ گزارا، اس کے انسپکٹر نے کھلے عام تقریباً 10 لاکھ کیش اکٹھا پیش کیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ 9بجے کیوں نہیں آتی، اس نے کہا کہ وہ بچوں کوا سکول چھوڑتی ہے،ا سکول سے واپسی پر بچوں کے ساتھ لنچ کرتی ہے پھر شام 4 بجے آتی ہے۔ اگر نقد رقم ایک ملین سے کم جمع ہو تو اگلے دن صبح سویرے آ جائے گی‘‘۔
لکھاری طاہر جاوید کا تبصرہ ہے ’’آپ نے سچ لکھا، بدقسمتی ہماری کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، اندھیر نگری چوپٹ راج ، عوام چوروں ، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں۔ کاش کہ ہم بحیثیت مجموعی اپنی اخلاقی اقدار کو سمجھیں ، اپنے مذہب اور معاشرے کی لاج رکھیں۔ بہت معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، اب کسی بڑے انقلاب کا انتظار کریں‘‘۔
معروف شاعرہ درشہوار تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ’’میں سو فیصد متفق ہوں، بلاشبہ ہمارے معاشرے میں یہی ہو رہا ہے، لوگ اچھائی برائی، حلال حرام کا فرق دانستہ بھولتے جا رہے ہیں، صورتحال کی عکاسی کے لئے ایک شعر
اور کچھ بھی نہیں بس دل کی تسلی کے لئے
لوگ رشوت کو بھی نذرانہ بنا دیتے ہیں
نثر نگار انیلہ جمشید خاکوانی کالم سے متعلق لکھتی ہیں کہ’’لوگ چیریٹی کے نام پہ خدا کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اپنی بلیک منی وائٹ کرتے ہیں حکمران ٹھیک ہوتے تو عوام خود بخود سدھر جاتے، مچھلی سر سے گلنا شروع ہوتی ہے، ہمارا پورا سسٹم گلا سڑا ہے، معاشرہ بدبودار ہو چکا ہے‘‘۔
یہ تبصرے آپ کی خدمت میں اس لئے پیش کئےہیں کہ آپ کو اندازہ ہو سکے، آپ کے معاشرے کے لوگ نظام کی خرابیوں کا ادراک رکھتے ہیں، ان کی دلی خواہش ہے کہ یہ معاشرہ سنور جائے، معاشرے میں سے جھوٹ اور منافقت ختم ہو جائے۔ تضادات کی کہانیاں پڑھ کر معروف سیاستدان شاعر، اسلم گورداسپوری کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
ہر اک دن آئینے میں اک نیا اسلم میں ہوتا ہوں
میں جس کو دیکھتا ہوں وہ میرا چہرہ نہیں ہوتا