’’وہ شاید مجھے پاگل سمجھنے لگے ہیں یا پھر کم از کم تذبذب، الجھن اور دباؤ میں مبتلا، اِسی لیے تو مجھ سے ایسا سلوک کرتے ہیں۔‘‘ رمضان کی آمد نے ایک دفعہ پھر سے میرے زخم ہرے کر دیئے ہیں، مَیں خُود کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، شروع شروع میں اپنی بےبسی پر غصّہ آتا، جھنجھلاہٹ اور چڑچڑا پن غالب رہتا، مگر اب خاموش ہوگیا ہوں۔ سب طرف خاموشی پھیل گئی ہے۔ بقول ڈاکٹر، ’’یہ ٹراما سے نہیں نکل پا رہے، کوشش کریں گے توآہستہ آہستہ قبول کرکے نارمل ہوجائیں گے۔‘‘ مگر کیا نارمل ہوگا، میری سمجھ میں نہیں آتا۔
یہ صدمہ کیسےختم یا کم ہوگا، جب اُس حادثے کے اَن مٹ نقوش ہماری زندگیوں پر ثبت ہو چُکے ہیں۔ ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق’’ریڑھ کی ہڈی میں لگی چوٹ کی وجہ سے صرف نچلا دھڑمفلوج ہوا ہے۔ ہیلمٹ کی وجہ سے بچاؤ ہوگیا اور دماغی چوٹ نہیں آئی۔ مَیں ذہنی طور پر بالکل تندرست ہوں۔‘‘ آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے اِس دور میں بھی ذہنی صحت ناپنے کے پیمانے ایجاد نہیں ہوسکے ہیں۔
وہ مجھ سے متعلق رائے بنانے میں حق بجانب ہیں، کیوں کہ مَیں واقعی ناقابلِ بیان کشمکش، بے یقینی، جذباتی خلفشار اور جسمانی ابتری کا سامنا کررہا ہوں۔ مَیں اپنے اندھیرے کمرے میں خاموش لیٹا ہوں۔ سڑک سےگزرنے والی گاڑیوں کی روشنی سے تاریکی اُتنی گہری نہیں رہ پاتی۔ سوچتے سوچتے انسانی دماغ کا باریک توازن بگڑنے لگتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ یہ تاریکی مجھے نگل لے۔
میرے دماغ میں بس جھماکے ہوتے رہتے ہیں، مختلف یادیں، جیسے مجسم ہو کرگھیرے رکھتی ہیں۔ اوپر چھت پر قدموں کی دھمک اور سیڑھیوں پر ارجار کی آہٹ سے خیال ہوا کہ ہمیشہ کی طرح اپارٹمنٹس کے کچھ زندہ دل مکیں خُود اپنی آنکھوں سے رمضان کاچاند دیکھنے کےخواہش مند ہیں۔ برابر کے فلیٹ والے جمالی صاحب نے تیز آواز میں ٹی وی لگا لیا ہے کہ اُن کے ساتھ ساتھ اڑوس پڑوس والے بھی رمضان کا چاند ہونےکی خوش خبری بریکنگ نیوز کی صُورت سُن لیں، البتہ میرے گھر میں خاموشی طاری ہے۔ بیگم کی نئی نئی ٹیوشن کے بچّے عصر سے مغرب تک موجود ہوتے ہیں، مگر آج شاید چاند دیکھنے کے شوق میں اُنہوں نے جلدی چھٹی لے لی ہوگی، میری چھوٹی شہر بانو تو یقیناً اُن کے ساتھ ہی زینہ پھلانگتی نیچے فلیٹس کے چار دیواری احاطے میں کھیلنےکےپہنچ گئی ہوگی۔
بڑی بیٹی نوربانو کالج میں پڑھتی ہے اور اب اُس نےشام کو کوچنگ میں بچّوں کو پڑھانا بھی شروع کردیا ہے۔ ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے اُسے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کہ کسی طرح کوچنگ میں قدم جم جائیں۔ ابھی تک اُس کی واپسی نہیں ہوئی ہوگی۔ بڑا ولید کمپیوٹر میں بی ایس کرنے کے ساتھ رات گئے تک کمپیوٹر کی دکان پر ری پیئر کا کام کرنے لگا ہے۔ بیگم اِس وقت رات کے کھانے اورسحری کے لیے کوئی سالن بنانےکی فکر میں ہوگی۔ یوں میری پوری کائنات کا نقشہ مکمل ہوگیا، جواب سمٹ کراس گھر کے باسیوں اور میرے کمرے تک محدود ہے۔
شاید میری آنکھ لگ گئی تھی، جانے کتنی دیر گزرگئی۔ کمرے کے دھندلکے میں تاریک ہیولے کے احساس نے بےدار کر دیا۔ ہیولا دبے پاؤں واپس پلٹ گیا۔ نیچے کی چہل پہل سے ’’رمضان مبارک‘‘ کی آوازیں مجھ تک پہنچ چُکی تھیں۔ پچھلے سال تک رمضان کا چاند ہوتے ہی مَیں اپنی دُھن میں مگن پھینی لینے دوڑتا، واپسی پر بیگم شکایت کرتی کہ بغیر بتائے چلے گئے، مجھے دہی منگانی تھی، تو کبھی انڈوں کی ضرورت ہوتی۔
اب میرا جی چاہتا ہے کہ وہ مجھ سے لڑے، اپنے چھوٹے بڑے کبھی نہ ختم ہونے والے دُکھڑے بیان کرے، باورچی خانے کے نل سے پانی رِس رہا ہے، گھڑی کا سیل پرانا ہوگیا، آہستہ چل رہی ہے۔ چائے پینے کا دل چاہ رہا ہے، مگر گیس نہیں آرہی۔ اپنے سارے کام نمٹا کر جب شہربانو کی فراک سینے بیٹھی تو بجلی چلی گئی۔ میرے پاس ہر بات کا ایک ہی جواب ہوتا۔ ’’سوچیں گے،جب اپنے کام سے فرصت ملی تو بتائیں گے، کریں گے۔‘‘ اور وہ شاید مطمئن ہو کر یا پھر مجبور ہو کے مُسکرا دیتی۔
اب وہ اپنے مسائل کا ذکر مجھ سے نہیں کرتی۔ مجھے لگتا ہے کہ مَیں نے اس پر بہت ظلم کیا، اُسے گھرمیں بند رکھا۔ باہر کی کچھ خبر نہ ہونے دی۔ اب اس عُمر میں اکیلے دنیا سے مقابلہ کرنا اُس کےلیےکتنا مشکل ہوتا ہوگا۔ مَیں الجھ جاتا ہوں کہ ایسا حصار میں نے محبّت میں باندھا یا یہ میری کمینگی اور خود پرستی تھی کہ میں اُسےاپنے زیرِدست اور مطیع رکھنا چاہتا تھا۔ مَیں اُسے دیکھتا تھا، مگر نظرنہیں آتی تھی۔
اُس کی آواز کانوں تک آتی تھی، مگر اس کے دل کی سُن نہیں پاتا تھا۔ اب میرے پاس سوچنے کےلیےوقت ہی وقت ہے، مگرمَیں کچھ کرنہیں سکتا۔ یہ شاید میرا دماغی خلل ہی ہے کہ جب وہ مجھے محبّت سے دیکھتی ہے، تو مَیں اپنا رُخ دوسری طرف کرلیتا ہوں کہ جب وہ اپنے آنسو میرے سامنے نہیں بہاتی تو میں کیوں اُسے اپنے آنسو دکھاؤں۔ خیالات کا ہجوم مجھے مرتکز نہیں ہونے دیتا، بےربط الفاظ، مربوط جملےنہیں بن پاتےاور مفہوم سےعاری ہوجاتے ہیں۔
مَیں یادوں کے صحرا میں اکیلا بھٹکتا رہتا ہوں اور اتنی کڑی مسافت مجھے تھکا دیتی ہے۔ ایسے میں بالکونی میں رکھی رات کی رانی کی باس، چلتی ہوا کے ساتھ مل کر کچھ لمحوں کے لیے خوش گواریت کا محرّک بن جاتی ہے۔ اُس کی شاخیں کھڑکی میں جُھکی مجھے تاکتی رہتی ہیں اور جب اُس کے پتے نیچے گزرنے والی گاڑیوں کی روشنی کو روکنے میں ناکام ہو جاتےہیں، تو اپنی جگہ بس لرزکےرہ جاتے ہیں۔
باہر لاؤنج کی روشنی جلنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ اب سحری کی تیاری ہے۔ ہم سب سحری میں اُٹھتےتھے۔ خُوب افراتفری اورعجلت ہوتی۔ بیگم روٹی پکاتی، تو نور بانو سالن گرم کرتی اور میرے لیے پھینیاں تیار کرتی۔ شہر بانو کا کام شور مچا کربھائی کو جگانا ہوتا۔ میرے ذمّے چائے بنانا اور روزہ رکھنے کی ضد کرتی شہربانو کو سمجھانا تھا کہ ’’ابھی نہیں جب تم نور بانو کے برابر ہوجاؤ گی، تب شام تک کا روزہ رکھنا۔
ابھی دوپہر والا رکھ لو۔‘‘اچانک دروازےکالاک کھلنے اورپھرشہربانو کوواپس باہر کھینچنے کی آوازیں آئیں۔ کھسر پھسر میں اُسےسمجھا دیا گیا تھا۔ اب وہ میرے قریب آکراپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے زبردستی میرا منہ اپنی طرف نہیں موڑتی اور اپنی بےتکی، طویل، کبھی نہ ختم ہونے والی کہانیاں نہیں سناتی کہ اب بابا کو پریشان نہیں کرنا۔ صُبح جب نور بانو کالج جاتے وقت میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتی ہے، تو مَیں ایسے بن جاتا ہوں، جیسے سو رہا ہوں۔
میری غیرت یہ گوارہ ہی نہیں کرتی کہ وہ صُبح شام بسوں میں دھکے کھائے۔ خُود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مبادا میری چیخیں اُس تک نہ پہنچ جائیں۔ سب سے بڑا ولید، جو گزشتہ رمضان تک بچّہ بنا ہوا تھا، اب اتنا ذمّےدار ہوگیا ہے کہ یونی ورسٹی جانے سے پہلے میری صفائی کرتا ہے۔ اُس کا موٹر سائیکل لینے سے متعلق سوال فضا میں معلق ہی رہا، میرے پاس جواب ہی کیا تھا اور پھر میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میری آواز کاخوف اور بےبسی اُسے سنائی دے جائے۔
میں بےکار، عضوِمعطل تو ہو ہی چُکا، جن کی ذمّے داری مجھے اُٹھانی تھی، بےوقت اُن کی ذمّےداری بن چُکا۔ مَیں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ سب قسمت کا لکھا ہے، آزمائش ہے کہ میرے نامعلوم گناہوں کی سزا، لیکن غور کرنے پر سمجھ آتا ہے کہ اُس ایکسیڈنٹ کی وجہ دراصل معاشرتی سطح پر ہماری جہالت، تربیت کی کمی اور بےغیرتی ہے۔ صبر کے مہینے رمضان میں ایسی بےصبری، رمضان جو ہمیں اپنے اوپر ضبط اور قابو کرنا سکھاتا ہے۔
برداشت، دوسرے کا احساس اور خیال رکھنے کی تربیت دیتا ہے۔ اُس مہینے میں جلدی گھر پہنچنے یا شاید اپنا روزہ مکروہ ہونے سے بچانے کے چکر میں ظالم نے ہم سب کی زندگی حرام کر دی۔ مَیں سوچتا ہوں کہ چیخ چیخ کر سب کو بتاؤں کہ روزے کی بھوک اور پیاس تو اپنے اپنے طریقے پر، پوری دنیا میں تقریباً ہر مذہب کے لوگ برداشت کرتے ہیں۔ مگر کہیں ایسے سڑکوں پر حادثات میں اضافہ نہیں ہوتا، جیسے ہم افطار کے قریب پاگل ہوجاتے ہیں۔ مگر… پھر سوچتا ہوں کہ اب ان سوچوں کا بھی کیا فائدہ…!!