کرن نعمان
مَیں ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ میرا تعلق ایک ادبی، مذہبی گھرانے سے ہے۔ یہ بات سب کے لیے حیرانی کا باعث ہوگی کہ ادبی، مذہبی سے میری کیا مُراد ہے، تو بات دراصل یہ ہے کہ میرے دادا فیض اللہ صدیقی شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد کے خطیب تھے۔ مذہب اُن کی گفتار ہی سے نہیں، عمل و کردار سے بھی جھلکتا تھا۔
مَیں نے ہر کسی کے منہ سے اُن سے متعلق یہی سنا کہ ’’اُنہوں نے کبھی غلط کو صحیح نہیں کہا۔ ہمیشہ سچ کی پاس داری کی اور زمانے کے رسوم و رواج کے آگے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے۔ زندگی بَھر رشوت دی، نہ لی۔ شربت کے ایک گلاس پر بیٹیوں کا نکاح کیا۔ کسی بیٹی کو نہ جہیز دیا اور نہ کسی بہو کا لیا۔‘‘ ویسے ہمارا گھرانہ ہمیشہ سفید پوش ہی رہا، جب کہ میرے دادا کا ایک ادبی رُوپ بھی تھا۔
مذہبی کُتب کےساتھ ساتھ اُن کی الماری ادبی کتابوں سے بھی بَھری رہتی۔ غالب اور اقبال کے علاوہ مجھے اُن کے ادبی خزانے سے شاہ حسین، سلطان باہو، میاں محمّد بخش اور بلھے شاہ جیسے اَن مول ہیرے موتی بھی ملے۔ یوں کہیے، ادب سے گہرا لگاؤ مجھے اُن ہی سے وَرثےمیں ملا تھا۔ میرے دادا صوفیانہ شاعری کے دل دادہ تھے اور میری رُوح کو بھی یہ کلام سُکون بخشتے، مگر بنیادی طور پر مُجھے نثر سے زیادہ انسیت تھی۔
بڑے بڑے ادیبوں کو پڑھنا اور یہ جاننا کہ آخر کس سوچ نے اُنھیں بڑا بنایا، مجھے اچھا لگتا تھا۔ اُردو کے اَن گنت شاہ کار نثرپارے میں گھول کر پی چُکا تھا، لیکن مَیں جتنا پڑھتا جاتا، پیاس کی شدّت اتنی ہی بڑھتی جاتی۔ اسی لیے مَیں نے خاندان بھر کی مخالفت مول لیتے ہوئے سائنس کے مضامین کی طرف جانے کی بجائے آرٹس کے میدان میں قدم جمانےکو ترجیح دی اور اب بفضلِ تعالیٰ، ایم۔اے، اُردو کے طالبِ علم کی حیثیت سے جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوچُکا تھا۔ اِسے میری خوش بختی ہی کہیے کہ جب میری پارٹ ون کی کلاسز شروع ہوئیں، تب ہی سے ہمیں ہفتے میں دو لیکچرز پروفیسر رحیم مسرور صاحب دینے لگے۔
پروفیسر رحیم مسرور صرف ایک استاد ہی نہیں، ایک جانے مانے ادیب اور شاعر بھی تھے۔ پچھلے پچیس برس سے وہ اردو ادب کی ترویج کے لیے کوشاں تھے اور اب ساٹھ سال کی عُمر میں بھی ادبی سرگرمیوں میں خاصے فعال رہتے تھے۔ یوں تو اُن کی شاعری بھی پُراثر تھی، مگر نثر نگاری میں تو گویا اُنھیں ملکہ حاصل تھا۔ عہدِ حاضر میں کم کم ہی اُن کے پائے کے افسانہ نگار ہوں گے۔ میرےدل میں پروفیسر رحیم مسرور کا بُت بہت بلند استھان پر تھا۔
اُن کے دس کے دس افسانوی مجموعے میری چھوٹی سی ذاتی لائبریری میں موجود تھے۔ اِس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُنھیں اپنے سامنے پانا اور اُن سے براہِ راست علم حاصل کرنا میرے لیے کتنی بڑی سعادت کی بات تھی۔ اُن کی ہر تحریر ادب کا اعلیٰ فن پارہ تھی۔ نہایت مدلّل، افسانوی پُرکاری کی تمثیل۔ جب وہ روسٹرم پر آکر بولنا شروع کرتے، تو مجھے دنیا کی کوئی اور آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ اُنہیں اگر اُردو ادب کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ ادب کی ہر صنف پر اُنہیں عبور حاصل تھا۔ نیز، اُن کی شخصیت اور کردارمہذّب اور شان دار تھے۔
میری دلی خواہش تھی کہ مَیں ذاتی حیثیت میں اُن سے افسانہ نگاری سیکھ سکوں اور پھر… ایک دن مجھے اُن سے بات کرنے کا موقع مل ہی گیا۔ وہ نپے تلے قدم اُٹھاتے لابی سے گزر رہے تھے، تب ہی مَیں ایک قدم کے فاصلے سے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ سلام، دُعا اور اُن سے متعلق اپنی پسندیدگی سے آگاہ کر کے مَیں نے اُن سے افسانہ نگاری سکھانے کی درخواست کی۔ وہ میری طرف دیکھ کر بہت شفقت سےمسکرائے۔ ’’افسانہ نگاری ایک تخلیقی عمل ہے بیٹا! یہ ایک خداداد صلاحیت ہے۔
اِس ضمن میں اصلاح تو کی جاسکتی ہے، مگر اصل چیز آپ کا اپنا شوق اور جذبہ ہے۔ آپ مجھے کچھ لکھ کر دکھائیے، دیکھتے ہیں کہ آپ کتنے پانی میں ہیں اور کتنی گہرائی تک جا سکتے ہیں۔“ اُن کی اس بات سے مجھے لگا کہ میرے اندر رُکے ہوئے ایک سیلاب کو جیسے رستہ مل گیا ہے۔ الفاظ میرے وجود کو ایک ریلے کی طرح بہا لے جانے لگے۔ میں نے ایک ایک لفظ کو سو سو بار سوچ کر، لڑکھڑاتے قلم سے قرطاس پر اُتارا۔ مجھے ڈر تھا کہ میری پہلی تحریر ہی رَد کردی جائے گی، مگر جب اُنھوں نے مُسکرا کر میرے کاندھے پر تھپکی دی اور کہا کہ ’’آپ میں صلاحیت ہے۔ آپ بہت آگے جا سکتے ہیں۔‘‘ تو میرا دل بلیوں اُچھلنے لگا۔
مجھے ایسا لگا کہ جیسے جینے کا مقصد مل گیا ہو۔ میں نے خُود سے عہد باندھا کہ ’’اب مَیں معاشرتی بے اعتدالیوں، طبقاتی نظام کی تقسیم، تعلیم کی کمی، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور سماج کے ہر ظالمانہ پہلو کو اپنے افسانوں میں آشکار کرکے جہاد بالقلم کروں گا۔‘‘ اب مجھے اُن دو دنوں کا بہت بے چینی سے انتظار رہتا تھا، جب پروفیسر رحیم مسرور آتے تھے۔ مَیں، یونی ورسٹی کی تمام تر علمی وادبی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصّہ لینے لگا تھا اور پروفیسر رحیم میری رہنمائی میں پیش پیش رہتے۔ بہت جلد مَیں یونی ورسٹی میں ایک اُبھرتے ہوئے نثر نگار کےطور پرجانا جانے لگا۔
میری تحاریر یونی ورسٹی کے مجلّے سے نکل کر دیگر رسائل و اخبارات کی بھی زینت بننے لگیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک بڑے ادبی حلقے میں میری پہچان بن چُکی تھی، لیکن ایک چیز میری طبیعت پر بہت بوجھ بننے لگی تھی کہ جب بھی کوئی لکھاری کسی بولڈ موضوع پر قلم اُٹھاتا، دیگر ادبی تخلیقات کے مقابلے میں اُسے زیادہ داد اور پذیرائی ملتی۔
مَیں معاشرے کے کئی سنگین پہلوؤں پر قلم اُٹھا چُکا تھا، مگر میرا قلم کبھی جنس کی طرف مائل نہیں ہوا، شاید میرے اندر کہیں گہرائی میں فیض اللہ صدیقی بہ نفسِ نفیس موجود تھے۔ مَیں بولڈ موضوعات پرلکھنا تو دُور، اُن پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن مجھے محسوس ہورہا تھا کہ دھیرے دھیرے میرے اندر کاغبار بڑھتا جا رہا ہے۔
اور پھر…ایک دن جب مَیں پروفیسر صاحب کے آفس اُن سے ملاقات کے لیے گیا، تو وہ سارا غبار اُن کےسامنے بہہ نکلا۔ وہ چپ چاپ مجھے سنتے رہے۔ پھر اپنی موٹے عدسوں والی عینک اتار کر صاف کرنے لگے۔ ’’دیکھیے بیٹا! انسان اپنی محرومیوں، ناکامیوں پر دو طرح کے ردِعمل دیتا ہے۔ یا تو دین کی آڑ لے لیتا ہے یا پھر اینگری مین بن جاتا ہے۔
خُوب چیختاچلاتا، گلے شکوے کرتا ہے۔ اپنی محرومیوں اور ناآسودگیوں کا کتھارسس اپنی تحریروں میں کرتا ہے۔ حالاں کہ اُسے ایسا کرنا نہیں چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دوسری راہ بہت مشکل ہے۔ بہت پُرخطر اور جرات کی متقاضی…‘‘ آگے بھی وہ بہت کچھ کہہ رہے تھے، پر شاید میرا دل ہلکا ہوچُکا تھا، اِس لیے میں کچھ سمجھ پا رہا تھا، کچھ نہیں۔
اُن ہی دنوں ایک بڑے ادبی فورم کی جانب سے نثر نگاروں کو کچھ افسانوی مجموعوں پر تبصروں کے لیے مدعو کیا گیا۔ تبصرہ نگاروں میں پروفیسر رحیم مسرور بھی موجود تھے۔ جن نثرپاروں پر تبصرے کیے جانے تھے، اُن میں نذیر احمد خان کا افسانوی مجموعہ بھی شامل تھا، جس کی ہر تحریر رومانی اور جنسی موضوعات ہی پر مشتمل تھی۔
مجھے اِس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ اب جو ہمارے معاشرے کی صورتِ حال ہے، اُس میں بہت سے ایسے مسائل ہیں، جن کے بیان کے لیے جنس کا سہارا لینا ہی پڑجاتا ہے، لیکن مَیں خُود الفاظ میں بھی خواتین کی بےحُرمتی، بے توقیری کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جب کہ نذیر احمد کی ہر تحریر ہی ایسی لغویات کا مجموعہ تھی۔ مَیں خُوش تھا کہ آج اِس فورم پر نذیر احمد خان اور اُن جیسے ہرمصنّف کو بڑا کرارا جواب ملے گا۔
آج پروفیسر رحیم مسرور اُنھیں تمیز و تہذیب کا بھرپور درس دیں گے۔ مگر… یہ میرے کان کیا سُن رہے تھے۔ ’’سچ تو یہ ہے کہ نذیر احمد خان کے افسانے علم و آگہی، شعور و ادراک کی یک جائی کی ایک نہایت عُمدہ تیکنیکی مثال ہیں۔ یہ دورِ حاضر کی آواز، نسلِ نو کے دیرینہ، پیچیدہ مسائل کا احاطہ کرتے وہ افسانے ہیں…‘‘ تالیوں کی گونج میں تبصرہ زوروشور سے جاری تھا۔ مگر میرے حواس جیسے مختل ہو چُکے تھے۔ اور…میرے دل کے اونچے استھان پر دھرا پروفیسر صاحب کا بُت زمین بوس ہو کر پاش پاش ہوگیا۔