قارئین !فلسطین میں جاری انسانیت کش اقدامات اور ڈھٹائی کے ساتھ عالمی قوت ہونے کے دعویدار امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں سے ان کے گھر بار چھین لینے کی سازش اور دھمکیاں انسانیت کے خلاف سنگین جرم سے کم نہیں۔او آئی سی نے بجا طور پر ٹرمپ کے اس خونیں، استعماری اور سازشی منصوبے کو مسترد کردیا ہے، جو اس قابل بھی نہیں تھا کہ اس پر غور بھی کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی منصوبہ اپنے ہی ظلم و جبر کے بوجھ تلے ٹوٹتی، تباہ ہوتی اسرائیلی حکومت اور ریاست کو بچانے اور عالمی فوجداری عدالت کو مطلوب دہشتگرد نیتن یاہو کی جانب سے غزہ میں انسانی المیے کومزید سنگین بنانے کی کوششوں سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے۔ جنگ بندی اور معاہدوں کے باوجود اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے ۔20لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بھوک اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھنے کی وحشیانہ کارروائیاں تسلسل سے جاری ہیں۔ دوسری جانب 9500سے زائد فلسطینی قیدی اب بھی 23مختلف اسرائیلی جیلوں میں اذیت ناک صورتحال سے دو چار ہیں، جس میں بنیادی حقوق سے محرومی ،ملاقاتوں پر پابندی اور مسلسل نفسیاتی و جسمانی تشدد شامل ہیں۔ ان میں تقریبا 5000بیمار ہیں جنہیں بنیادی طبی سہولیات تک فراہم نہیں کی جاتیں، 21خواتین،365 سے زائد بچے اور 726ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا 20سال سے زیادہ عرصہ قید میں گزارا ہے۔ مزید 3405سے زائد فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام یامقدمے کے رکھا ہوا ہے ۔اس سب کے باوجود فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ حقیقی طور پر امریکہ کی جانب سے گریٹر اسرائیل کے قیام کی بڑی سازش کا اولین قدم ہے ۔جسے مسترد کرکے او آئی سی نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی کو ایک متحرک پلیٹ فارم میں تبدیل کیا جائے تاکہ وہ امت مسلمہ کی مضبوط آواز بن کر سامنے آسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم امہ ایک بار متحد ہو کر میدان میں آجائے تو نصف سے زیادہ مسائل ازخود تحلیل ہو جائیں گے۔ اگر اب بھی متحد نہ ہوئے اور اپنے اختلافات اور مفادات سے اوپر اٹھ کر مشترکہ مفادات اور مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کی حکمت عملی اختیار نہ کی تو امریکہ کی قیادت میں عالم کفر ایک ایک کرکے سب کو نشان عبرت بناڈالے گا۔ اگر غزہ سے انخلا تسلیم کرلیا گیا تو پھر کوئی عرب ریاست بچے گی نہ دار الحکومت ،سب کی بقا اس میں ہے کہ یک مشت ہوکر سیاسی ،سفارتی اور عملی میدان میں مزاحمت کی جائے ۔او آئی سی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ مسترد کرتے ہوئے، عرب لیگ کا غزہ بحالی کا منصوبہ منظور کرلیا ہے اور عالمی برادری سے حمایت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب لیگ نے یہ منصوبہ قاہرہ میں ہونے والے اجلاس میں پیش کیا تھا۔ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو بے گھر کئے بغیر 53ارب ڈالر کی لاگت سے فلسطین اتھارٹی کے ذریعے غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی، حماس بھی اس منصوبے کی حمایت کر چکی ہے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ اس کی حمایت کر چکے ہیں۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے او آئی سی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی سرخ لکیر ہے، فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی نسلی تعصب اور جنگی جرم قرار دیا جائے۔ او آئی سی وزرا ئے خارجہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ ایک حقیقت پسندانہ راستہ متعین کرتا ہے اور اگر اس پر عمل در آمد ہوتا ہے تو غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے تباہ کن حالات زندگی میں تیزی سے اور پائیدار بہتری ہو گی۔
دوسری جانب بھارت خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کیلئے اپنی فوج اور ہتھیاروں بالخصوص میزائل ٹیکنالوجی کو وسعت دینے میں مصروف ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کے حوالے سے اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی نظام انتہائی مشکوک ہے۔ عدالت میں بھارتی ایئر فورس کے اعتراف، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اور عالمی اداروں کی تحقیقات کی روشنی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھات بھاری ہتھیاروں کو سنبھالنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے، اس کا ہتھیاروں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قابل اعتماد نہیں ہے۔ بھارت کے براہموس میزائل کے پاکستان میں آگرنے کے 3سال مکمل ہونے کے موقع پر اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ حادثہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑے بڑے ہتھیار رکھنے والے بھارت کے پاس ان ہتھیاروں کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ،یہ واقعہ ہندوستانی افواج اور بالخصوص ان کی ٹیکنالوجی پر سوالیہ نشان ہے۔ براہموس میزائل کو پاکستا ن ایئر ڈیفنس سسٹم نے اسی وقت دیکھ لیا تھا جب وہ اپنے مقام سے فائر ہوا اور پھر پاکستان کے علاقے میاں چنوں میں آگرا۔3برس قبل اگر پاکستان غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ نہ کرتا تو بھارت کی یہ سنگین غلطی خطے اور پوری دنیا کو ایٹمی جنگ میں دھکیل سکتی تھی ۔براہموس میزائل کاپاکستان میں گرنا اقوام متحدہ کے آرٹیکل 4(2)کی صریحاََ خلاف ورزی ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کی جانب سے واقعے کی مشترکہ تحقیقات کے مطالبے پر بھارت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ بھارت ایک جوہری ملک ہے اور اس طرح کی غیر ذمہ داری خطے میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک جانب بھارت علاقے کی تھانے داری کیلئے امریکہ کے تلوے چاٹ رہا ہے تو دوسری جانب پوری دنیا جانتی ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی اور افرادی صلاحیت اس قابل نہیں کہ ان حساس ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کو سنبھال سکے۔ اگر عالمی برادری نے نوٹس نہ لیا تو خدانخواستہ بھارت کی کسی حماقت کے نتیجے میں صرف پڑوسی ممالک ہی خطرے میں نہیں پڑیں گے، پورے خطے بلکہ پوری دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔