• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیادہ تر لوگ یہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید اردو اور پنجابی کے مزاحیہ شاعر ہیں، بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی سنجیدہ شاعری بھی کسی طور پر کم نہیں۔ حال ہی میں انکی سنجیدہ شاعری ’’کلیات ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘‘ کے نام سے سامنے آئی ہے۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کتاب کے بیک ٹائٹل پر چند مشہور شخصیات کی آرا شامل ہیں۔ معروف شاعر اور استاد ڈاکٹر خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ ’’بنیادی طور پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک سنجیدہ شاعر ہیں۔ انہوں نے شاعری کا آغاز اسی حیثیت سے کیا لیکن حالات کے مدوجزر نے انہیں ایک ماسک پہنا دیا، جس پر دائمی مسکراہٹ بنی ہوئی تھی تاہم اپنی خلوتوں میں جب وہ اس ماسک کو اتار کر آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو انکا چہرہ کب کے رکے ہوئے آنسوؤں سے تر ہوتا ہے۔ یہ کلیات جو آپ کے ہاتھ میں ہے اور جس کا وفور اسی امر کی دلیل ہے کہ زندگی کے سفر میں ڈاکٹر صاحب کی سنجیدہ گوئی کبھی موقوف نہیں ہوئی، انہی آنسوؤں کا آئینہ دار ہے۔ اس کلیات کی غزلیں، نظمیں اور قطعات انہی کیفیات کے عکاس ہیں‘‘۔

معروف سینئر صحافی اور خطیب صحافت، مجیب الرحمٰن شامی رقم طراز ہیں کہ ’’سنجیدہ شاعر کے طور پر انکا قد کتنے میٹر بلکہ کلومیٹر ہے، یہ تو محققین و ناقدین ہی بتا سکتے ہیں، میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ انکا ہاتھ اہل دل کی نبض پر رہتا ہے۔ انکے دل سے بات نکل کر فوراً پڑھنے اور سننے والوں کے دل تک پہنچتی ہے اور واہ واہ سے فضا گونجنے لگتی ہے۔ عہد حاضر کے بڑے بڑے شعراء کی صف میں وہ بڑے ہی نہیں بہت بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو کلیات کی ورق گردانی کیجئے۔ دل تھام کر بیٹھ جائیے اور اعلان کر دیجئے : زندہ جاوید شاعر کی زندہ جاوید شاعری‘‘۔

جیو پر حالات حاضرہ کے سلسلے میں شاندار پروگرام کرنیوالے صحافی و کالم نگار حامد میر لکھتے ہیں کہ ’’زیر نظر کتاب‘‘ کلیات ڈاکٹر انعام الحق جاوید" شاعر کی ’’ساتویں سمت‘‘ کے بعد آٹھویں سمت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ آپ نے سمندر میں جزیرے دیکھے ہونگے لیکن اس خوبصورت شاعری کے طفیل آپ کو ’’جزیرے میں سمندر‘‘ کا نظارہ ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ ’’زندگی کے صحرا میں‘‘ اس سنجیدہ شاعری کے ’’دیوان خاص‘‘ میں آپ کو ہمارے ڈاکٹر صاحب کا ایک نیا روپ دکھائی دیگا اور آپ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے اس انداز بیان پر ’واہ واہ‘ کر اٹھیں گے‘‘۔

کالم نگار، اینکر جاوید چوہدری اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ ’’اپنے عصر کے دکھوں اور المیوں کی بصیرت آمیز آگاہی اور اظہار محبت کے بے انت وسیلے ہوں، محنت کشوں کے استحصال کیخلاف سرخ الفاظ ہوں یا دور حاضر میں لا یعنیت کے قبول عام کے قطعے میں صورت گری ہو، انعام الحق جاوید ادراک و بصیرت قلم و قرطاس کی معاونت سے آگاہی کی شمعیں روشن کرتے چلے جاتے ہیں‘‘۔

تہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’تخلیقی عمل کی پر اسراریت ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے ہاں زندگی گزارنے کے طریقے سے ہم آہنگ ہو گئی ہے۔ وہ جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ہر لفظ کو کاغذ پہ اتارا نہیں جاتا‘‘ تو دراصل تخلیقی عمل کے ایک پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ انکے ہاں مجلسی تہذیب کے ایک خاص رخ کا سراغ بھی ملتا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک ایسے فنکار کے مقام پر فائز ہیں جو سچے حروف کی تلاش میں ہے۔ اسکے نزدیک تضادات اور عداوتوں کی تحلیل بھی لفظ ہی سے ممکن ہے۔ حسن سلوک کا عموم اور آنکھوں میں نور محبت کی جستجو اسے ’’کار مفید‘‘ کی راہ دکھاتی ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے کہ شام از زندگی خویش کہ کاری کردم‘‘۔

کتاب کے بیک ٹائٹل پر مجھ خاکسار کا تبصرہ بھی شامل ہے، میں نے کیا لکھنا ہوتا ہے، بس یہی لکھ سکا کہ ’’ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا انداز خوبصورت اور جارحانہ رہا ہے، وہ بطور کمپیئر بھی گفتگو میں شاعری کا تڑکا لگانا نہیں بھولتے، اردو اور پنجابی زبان جہاں جہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا تذکرہ موجود ہے۔ انکی غزلوں کے بہت سے اشعار ایسے ہیں، جو یادگار ہیں۔ مثلاً: یہ شعر دیکھیےہر لفظ کاغذ پہ اتارا نہیں جاتا؍ہر نام سر عام پکارا نہیں جاتا‘‘۔

جب کبھی عطاء الحق قاسمی اسلام آباد آئیں تو خوبصورت محفل جمتی ہے، اس محفل میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید جیسا انسان سرگرم نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید صرف خوبصورت انسان ہی نہیں بلکہ خوبصورت لب و لہجے کے شاندار سنجیدہ شاعر ہیں۔ آخر میں ان کے دو اشعار پیش خدمت ہیں کہ

پگڑی اتار دے گا تری، تیرے سر سمیت

کر دے گا وہ تباہ تجھے، تیرے گھر سمیت

ہے اب بھی وقت خود کو بچانے کی فکر کر

ورنہ وہ کاٹ دے گا تجھے بال و پر سمیت

تازہ ترین