برادراسلامی ملک سعودی عرب ہر اچھے برے وقت میں ہمیشہ سےپاکستان کے ساتھ کھڑا چلاآرہا ہے،خصوصاً حالیہ برسوں میں اس نے ڈالر کے بحران سے دوچار پاکستان کو کئی مواقع پر قرضوں کی ری شیڈولنگ سے لے کر دیگر شعبوں میں غیرمتزلزل تعاون فراہم کیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے اپنےسعودی عرب کے چارروزہ دورے میں،جمعرات کے روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر،نائب وزیراعظم اسحاق ڈاراور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے،جس میں دفاع اور دیگر امور پر نہایت مثبت بات چیت ہوئی۔اس موقع پر سعودی عرب کی طرف سے ایک ارب20کروڑ ڈالر کا آسان ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کا اعلان ہوا۔دونوں رہنمائوں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں مشترکہ منصوبوں میں ہونے والی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔وزیراعظم شہباز شریف اور ولی عہد محمد بن سلمان نے اس موقع پر دوطرفہ شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس دورے میںوزیراعظم شہباز شریف نے سعودی سرمایہ کاروں کو توانائی، انفرااسٹرکچر، زراعت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سہولیات فرہم کرنے کا عزم دہراتے ہوئے انھیں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت مواقع حاصل کرنے کی دعوت دی۔دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان ہونے والی بات چیت میں سعودی وزیرسرمایہ کاری خالدالفالح اوروہاں کی جوائنٹ ٹاسک فورس برائے اقتصادی امور کے سربراہ محمد التویجری نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی۔شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت میں عالمی صورتحال بھی زیرغور آئی،جس میں پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کے شاندار کردار کی تعریف کی گئی۔فریقین نے علاقائی سلامتی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے مشترکہ دفاعی تعاون مضبوط تربنانے پر اتفاق کیا۔یہاں یہ واضح رہےکہ فلسطین اور کشمیر سے لے کر ہر بین الاقوامی اور علاقائی مسئلے پر سعودی عرب اور پاکستان ہم زباں چلے آئے ہیں ۔اس وقت پاکستان کو لاحق سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس میں افغان طالبان حکومت کی طرف سے ابھی تک مثبت اور عملی تعاون نہیں ملا۔اس معاملے میںسعودی عرب ، چین،متحدہ عرب امارات،ایران اور ترکیہ سمیت دیگر ممالک اخلاقی دبائو ڈال کر افغان حکومت کو کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کرنےپر مجبور کرسکتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشت گرد حملے سے پوری دنیا آگاہ ہے اور اس کی مذمت بھی ہوئی ۔عالمی برادری کویہ ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان پر مسلط کیے جانے والے یہ حالات آج کے دور کے نہیں،بلکہ جب نیٹو کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں صف آراتھی تو اس میں سب سے اہم کردار پاکستان ہی کا تھا۔لیکن اس کے بدلے میں اس کی 80ہزار قیمتی انسانی جانیں دہشت گردی کی نذر ہوئیںاور اربوں روپے کا مالی نقصان اٹھانا پڑا جس کی 20سال بعد بھی تلافی نہ ہوسکی۔دنیا ہر شعبے میں ترقی کررہی ہےاور پاکستان کو اپنی ساری توانائیاں دہشت گردی سے نمٹنے پر صرف کرنا پڑرہی ہیں۔یہ پیغام پوری دنیا تک پہنچنا چاہئے کہ اگرچہ نیٹو فوج اپنا مشن مکمل کرکے افغان سرزمین سے چلی گئی ہے لیکن وہاں چھوڑے گئے ہتھیارپاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں میں استعمال ہورہے ہیں ۔پاکستان اور دیگرغیر ملکی وفود کےدرمیان ہونے والے تبادلے اس بات کے متقاضی ہیں کہ دنیا کو دہشت گردی میں افغانستان اور بھارت کے منفی کردار سے آگاہ کیا جائےجو دراصل مسئلہ کشمیر سے نظر یںہٹانے کیلئے ادا کیا جارہا ہے۔