مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
نانی جان کے گھر میں قدم رکھتے ہی لان میں لگے پودے اور ٹھنڈی ہوا، دل کو سُرور بخشنے لگتے، وہ گھر ہمارے لیے ایک جہان تھا، جہاں نانا، نانی، ماموں، ممانی کے دَم سے ہمہ وقت رونق رہتی۔ پھریکے بعد دیگرے نانا، نانی کے بعد ماموں کے انتقال کے ایک سال بعد ہی ممانی جان کا دنیا سے رخصت ہوجانا دل کو بے انتہا افسردہ کرگیا۔ دنیا میں جہاں کچھ لوگ کسی آزمائش کی طرح ہوتے ہیں، وہیں کچھ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی مانند بھی ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں ، حتیٰ کہ اُن کے گھر سے بھی ایک اُنسیت سی ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنی نانی کا گھر بھی اپنا ہی لگتا تھا۔
ممانی جان، امِّ منصور سے ہمارا رشتہ سگی ماں جیسا تھا، وہ بھی ہم سے ایسی محبت کرتیں، جیسے ہم اُن کی سگی اولاد ہوں۔ میری پیدائش کے چند دنوں بعد جب اُن کے یہاں بھی ایک پیاری سی بیٹی پیدا ہوئی، تو ماموں جان اپنی بیٹی کے لیے لندن سے دو خُوب صُورت فراک لے کر آئے، جن میں سے ایک ممانی جان نے میری امّی کو میرے لیے دے دیا۔ ان کا دل بہت وسیع تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے گھر میں دولت کی ریل پیل رکھی۔
وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی دولت میں سے پورے خاندان کا حصّہ مختص رکھتیں اور مال و دولت سے محبّت کے بجائے لوگوں سے محبّت رکھتیں۔ خاندان میں کسی کو معاشی طور پر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، تو ممانی اور میری بڑی خالہ مل کر اُن کا مسئلہ حل کردیتیں۔ غرض یہ کہ میرے نانا، سیّد شہزاد علی کے گھر کا ہر فردچاہت و محبّت، انسانی ہم دردی کے جذبات سے لب ریز تھا۔
نانی کے گھر کے سبھی افراد یہ چاہتے کہ جوآسائشیں اُن کے بچّوں کو حاصل ہیں، وہ خاندان کے دوسرے بچّوں کو بھی میسّر آئیں۔ ممانی کو مہمانوں کو انواع و اقسام کے لذیذ،بہترین کھانے کھلانا بہت پسند تھا۔ ہرکسی سے پیار سے ملتیں، میرے بچّوں سے بھی ملتیں، تو اُن کا ہاتھ ضرور چُومتیں۔ شاید اُن کی دی ہوئی بے انتہا محبّت ہی تھی کہ اُن کے بچّے بھی ہمیں اپنے سگے بہن، بھائیوں کی طرح ہی محسوس ہوتے ہیں۔
ممانی جان کی یہ خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہمیں کبھی کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتیں، اکثر ہم گھر سے کھا پی کر جاتے اور کھانا کھانے کا موڈ نہ بھی ہوتا تو برگر، پیزا وغیرہ منگوادیتیں۔ اس نفسانفسی کے دَور میں ایسی محبّت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
بلاشبہ، یہ دنیا فانی ہے اور سب کو ایک روز لوٹ کر اپنے ربّ کے پاس ضرور جانا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں انہوں نے پے در پے بیماریوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ مستقل ڈائیلیسز، بینائی اور ایک پائوں سے محرومی کے باوجود کہا کرتیں کہ ’’انسان کو کبھی بھی موت کی دُعا نہیں مانگنی چاہیے۔‘‘ اتنی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ کبھی مایوس نہ ہوئیں۔ بیماری کی حالت میں بھی خاندان بھر کی خبر رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ انہیں اپنی رحمتِ خاص عطافرمائے اور حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کروائے، آمین۔(فرح مصباح)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کاربرائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭میری کہانی (نورجہاں) ٭خالو کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ (ضیاء الحسن، مظفر گڑھ) ٭احساسِ سودو زیاں (روزینہ خورشید، کراچی)٭ آدھی رات کا راز+مَیں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا+بیت المال سے امداد (ظہیر انجم تبسّم ، جی پی او، خوشاب)٭ میری کہانی، میری زبانی (رفعت سلطانہ) ٭پرندے کی قبر (انجینئر محمد فاروق جان، اسلام آباد)٭بنتِ حوّا (محمد جاوید اقبال، وحدت کالونی، لاہور)٭جب طاقتیں مرضی کے تابع ہوگئیں (محمد جاوید افضل علوی، کالج روڈ، لاہور)٭پاک فوج نے بچالیا (جاوید محسن ملک، اسلام آباد)٭ میری کہانی (ف۔ن)٭دس سال پرانی بات(مغیث الحسن بدایونی ہاشمی، ناگن چورنگی، کراچی)٭جاں نثار (ثروت اقبال،کراچی)