کُھلے، نیلے آسمان پر بادل کی ٹکڑیوں کے بِیچ شرماتے، لجاتے ہلال کی جھلک دیکھنا رمضان کی آخری گھڑیوں میں شوق کا امتحان بن جاتا ہے۔ صدیوں سے قمری مہینےکا آغاز جھلملاتے، رُوپہلے چاند کی نصف دائرے کی باریک لکیر سے ہوتا ہے، لیکن وہ چاند جو کبھی انتیسویں روزے کو دکھائی دیتا ہے اور کبھی اگلے دن آنے کا وعدہ کرتا ہے، دُنیا بَھر میں پھیلے مومنین کی مسرّتوں کا سامان ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کے تیس یا انتیس دن اللہ کے فرماں بردار بندے ابتدائے سحر سے آفتاب ڈھلنے تک بُھوک و پیاس برداشت کرنے کے علاوہ اپنی دیگر نفسانی خواہشات بھی کنٹرول کرتے ہیں۔
گرمی ہو یا سردی، دن طویل ہوں یا مختصر، ہمہ وقت ربّ کی رضا کا احساس غالب رہتا ہے۔ ایمان بالغیب کا اعادہ ہوتا ہے۔ اللہ سمیع و بصیر ہے اور وہ ہمیں خلوت وجلوت میں دیکھتا ہے، اِس یقین کی عملی تربیت بھی روزے کی صُورت ہوتی ہے۔ دِن بَھر کی بُھوک و پیاس کے بعد رات کے وقت اللہ کے محبوب بندے اور بندیاں نیند کی لذّت ترک کرکے قیام اللیل کرتے ہیں اور قرآنِ پاک کی تلاوت و سماعت میں شب گزارتے ہیں۔ بلاشبہ، جنہیں یہ بابرکت لمحات نصیب ہوئے ہیں، وہ بڑے خوش قسمت ہیں کہ ربّ کی اطاعت اُن کے لیے آسان ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بہت قدردان ہے اور خصوصاً اپنے اطاعت گُزار بندوں کے لیے اُس نےجنّت میں بیش بہا نعمتیں رکھی ہیں، لیکن اس دُنیاوی زندگی میں بھی وہ اپنے بندوں کو کوئی سختی و تکلیف برداشت کرنے کے بعد ذہنی وقلبی راحت سے نوازتا ہے، تو یہ عیدالفطر بھی اللہ تعالیٰ کے انعام ہی کی ایک صُورت ہے، کیوں کہ ایک مہینے کی سخت پابندیوں کے بعد اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کی بندگی کا اظہار خوشی کی صُورت میں کیا جائے۔ سو، عید کا باریک جھلملاتا ہوا چاند ربّ کی رضا ہی کی نوید لے کر آتا ہے اور پھر چہارسُو مسرّتوں، شادمانیوں کی چاندنی بکھیرتا چلا جاتا ہے۔
اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں کو’’عیدین‘‘خوشی اور شُکر کے بھرپور جذبات کےساتھ منانےکا حُکم دیا ہے۔ اچّھا اور عُمدہ لباس پہننا، خُوش بُو لگانا اور بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جانا عید کی سُنّتیں ہیں۔ ایک مسلمان معاشرے میں عید مسلمانوں کے تُزک و احتشام کی آئینہ دار ہونی چاہیے اور مسلمانوں کی معاشی خُوش حالی، معاشرتی خُوب صُورتی کا عکس عیدالفطر کی نمازِدوگانہ کی شکل میں نظرآنا چاہیے۔ رمضان المبارک اور عیدالفطر ایک دوسرے سے مشروط ہیں۔
یہ اسلام کی درخشاں روایات ہیں، جو نسل دَرنسل منتقل ہوتی آرہی ہیں، لہٰذا اپنے اہلِ خانہ، خاندان، عزیز و اقارب اور کُل امتِ مسلمہ کے ساتھ مل کرعید کے تہوار کو خُوب جوش و خروش سے منانا ہم سب کا مذہبی فریضہ ہے۔ عیدالفطر سال میں ایک ہی مرتبہ آتی ہے، تو خصوصاً خواتین کو بھی اِسے بساط بھر مناسب انداز سے منانے کا اہتمام ضرور ہی کرنا چاہیے اور اِس ضمن میں ایک بھرپور کوشش اخراجات میں میانہ روی اور قناعت اختیار کر کے کی جا سکتی ہے۔ یوں بھی اس ہوش ربا منہگائی میں احسن انداز سے عید کی تیاری بس اِسی طور ممکن ہے۔
دیکھا جائے تو عید کا اصل مقصد و مفہوم دل سے خوشی منانا اور اپنی مسرّتوں میں اپنوں، پرایوں سب کو شریک کرنا ہے اور خوشیاں روپے پیسے سے نہیں، اچّھے رویّوں، اخلاقیات سے ملتی، دوسروں کو دینے، بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔ سو، آپ بھی عید کے پُرمسرّت موقعے پر اپنے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب میں خُوب محبتیں تقسیم کریں۔ ایک ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنے، کھانے پینے کا اہتمام کریں تاکہ عید، واقعتاً عید بن جائے۔
یاد رہے، عیدِ سعید کی خوشیوں میں جہاں غریبوں، حاجت مندوں کو شامل کرنے پر اجر و ثواب کی نوید دی گئی ہے، وہیں مسرتوں میں ڈُوب کر اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونے کی ترغیب بھی دی گئی ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’کس قدر بد نصیب ہیں وہ لوگ، جو رمضان المبارک کی عظمت و تقدّس کا احترم نہیں کرتے۔
اس ماہ کے انتہائی قیمتی لمحات غفلت و معاصی میں گزارتے ہیں، لیکن اس کے باوجود عید کی خوشیاں بڑی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔‘‘ عیدالفطر نہ صرف روزوں کی تکمیل کی خوشی کا موقع ہے، بلکہ قلبی، ذہنی و روحانی تجدید اور معاشرتی ہم آہنگی کا بھی ذریعہ ہے۔
اس کےتقاضےصرف خوشیاں منانے تک محدود نہیں بلکہ اس کے گہرے معانی و مقاصد ہیں، جو ہمیں معاشرتی طور پرایک بہتر انسان بننے کی تحریک دیتے ہیں۔ ربِ کریم کے شُکرانے کے ساتھ یہ دن اس بات کا بھی اعادہ کرتا ہےکہ ہم نے رمضان المبارک میں جو کچھ حاصل کیا، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل ہی سے ممکن ہوا۔ پھر چوں کہ یہ دن معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو خُوب فروغ دینے کا موقع ہے، تو روزِ عید ہمیں اپنے رشتے داروں، دوستوں، پڑوسیوں سے بطورِ خاص میل ملاقات کرنی چاہیے۔
سب روٹھوں کو منا لینا، نادانوں کے معاملے میں درگزر سے کام لینا چاہیے اور اُن کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹنی چاہیئں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم سب (کُل امتِ مسلمہ) ایک ہیں۔ ایک جسدِ خاکی کی مانند، تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بہت محبّت و احترام ہی سے پیش آنا ہے اور یومِ عیدالفطر چوں کہ معافی، درگزر کا پیغام لے کر آتا ہے، تو ہمیں اُن تمام لوگوں کو لازماً معاف کر دینا چاہیے کہ جن سے ہمیں ماضی میں کوئی تکلیف پہنچی ہو۔
اپنے دِلوں کو نفرت و کدورت سے پاک کرتے ہوئے، عیدِ سعید سے ایک نئی شروعات کرنی چاہیے، تاکہ ماہِ رمضان کی عبادتوں، ریاضتوں کے سبب اللہ پاک کی رضامندی کا جو پروانہ ہاتھ آیا ہے، وہ اگلے پورے سال بلکہ بقیہ زندگی کے لیے سند رہے۔