مَیں نے اِدھر اُدھر سے سُن رکھا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے زیرِانتظام مختلف مُلکوں میں جاری امن قائم کرنے والے مِشنز (peace Keeping Missions) میں پاکستان کے پولیس افسر بھی شامل ہوتے ہیں، جنہیں مشاہرہ بہت زیادہ ملتا ہے، چناں چہ ایک بار اقوامِ متحدہ کے ایک امن مشن سے متعلق پتاچلا، تومَیں نےبھی درخواست دے ڈالی۔ سب سے بڑی کشش وہاں کی تن خواہ تھی، جو پاکستانی تن خواہ سے کئی گُنا زیادہ بنتی ہے۔
ایک آدھ انٹرویو (اب تو کئی قسم کے ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں) کے بعد افریقا کے ایک غیرمعروف ملک موزمبیق کے یو این مشن کے لیے میرا سلیکشن ہوگیا۔ مَیں اُن دنوں فرنٹیئر کانسٹیبلری میں ڈسٹرکٹ آفیسر، شبقدر تھا۔ دو اےڈی اوصاحبان، احسان صادق اور مرزا شکیل بھی شبقدر ہی میں تھے۔ چند ہفتے پہلے ہمارے والد صاحب اللہ کے حضور پیش ہوگئے تھے۔
اُن کی وفات کے کچھ عرصہ بعد مَیں والدہ صاحبہ کو بھی شبقدر لے آیا تھا۔ یو این میں سلیکشن ہوئی، تو والدہ صاحبہ بہت پریشان ہوئیں۔ دونوں اے ڈی اوصاحبان نے بھی بڑی دل گرفتگی کے عالم میں رخصت کیا۔ تیاری کے سلسلے میں، مَیں باجی جبیں کے گھر اسلام آباد چلا گیا تھا، جنہوں نے زار و قطار روتے ہوئے مجھے افریقا کے مُلک موزمبیق جانے کے لیے الوداع کہا۔
موزمبیق جانے والوں میں اسلام آباد سے تو ہم دو تین پولیس افسر ہی تھے، مگر کراچی سے اے ایس پیز کا ایک پورا بَیچ (سترہواں کامن) افریقا جانے والے وفد (contingent) میں شامل تھا۔ افریقا سے متعلق ہم سب کا تاثر یہی تھا کہ پس ماندہ سا خطّہ ہے، وہاں نہ بجلی ہوگی، نہ پانی، صرف مچھروں کی بہتات ہوگی۔ کراچی سے اُڑ کر ہم ابوظبی کے ہوائی اڈے پر اُترے، جہاں سے جہاز تبدیل کرنا تھا، وہیں لاؤنج میں بیٹھےمَیں نے دیکھا کہ پاکستانی پولیس افسروں نے ایک شخص کو گھیرے میں لیا ہوا ہے، پاس جا کراُن سے پوچھا کہ ’’یہاں بھی کوئی اشتہاری ملزم مل گیا یا کسی سے منشیات برآمد ہوئی ہے؟‘‘
ایک دو نوجوان افسر بولے۔ ’’نہیں، یہ ملزم نہیں، یہ صاحب موزمبیق جارہے ہیں۔‘‘ پولیس افسران میں گِھرا ہوا مسافر بولا کہ’’لگ تو ایسا ہی رہا ہے کہ مَیں کوئی ملزم ہوں اور میری تفتیش ہو رہی ہے۔‘‘ واقعی اُس پرسوالوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ مَیں نے بھی جاتے ہی سوال داغ دیا کہ ’’موزمبیق میں بجلی ہے، باتھ رومز میں پانی آتا ہے؟‘‘ ’’زیرِ تفتیش مسافر‘‘ بولا۔ ’’حضور! پچھلے آدھے گھنٹے سے یہی بتا رہا ہوں کہ بجلی، پانی سب کچھ ہے، بہت اچھے ہوٹلز اور اسٹورز ہیں، ضروریات کی سب چیزیں میسّر ہیں۔‘‘ جواب سُن کرکچھ تسلی ہوئی۔
موزمبیق میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مگر سترہویں صدی میں جب پرتگال نے اُس پر قبضہ کیا تومسلمانوں سے مذہبی آزادی چھین لی گئی، مسجدیں ختم کرکے گِرجے بنا لیے گئے، مسلمانوں پر اسلامی نام رکھنے اور نماز پڑھنے کی بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ 1964ء میں انہیں آزادی ملی، مگر کچھ ہی عرصے بعد یہ مُلک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ کئی سالوں بعد اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں وہاں کسی حد تک امن قائم ہوااور اب نئے انتخابات ہونے جارہے تھے، لہٰذا امن وامان کے قیام ہی کے لیے کچھ مُلکوں سے فوجی دستے اور پولیس افسران منگوا کر وہاں تعینات کیے جارہے تھے۔
ابوظبی سے ہم ایک طویل پرواز کے بعد جنوبی افریقا کے شہر، جوہانسبرگ کے ہوائی اڈّے پر اُترے۔ جنوبی افریقا کو بڑی سخت اور طویل جدوّجہد کے بعد حال ہی میں آزادی ملی تھی، اس لیے ہم نے اُترتے ہی اُن کے پرعزم لیڈر نیلسن منڈیلا اور وہاں کے بہادر عوام کو سلیوٹ کیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا پیغام بھیجا۔ کچھ دیر بعد ہمیں پرانی جی ٹی ایس بس کی طرز کے ایک پھٹیچر سے جہاز میں سوار کروا دیا گیا۔
معلوم ہوا کہ یہ موزمبیق ائیرلائن کا جہاز ہے، جہاز اورعملے کی خستہ حالی، مُلک کی بدحالی کا صاف پتا دے رہی تھی۔ جوہانسبرگ سے 45 منٹ کی پرواز کے بعد ہم موزمبیق کے دارلحکومت، پاموتو کے ہوائی اڈے پر اُترگئے۔ جہاں یواین او کےاہل کارہمیں ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے۔ اُنہوں نے ہمیں بسز میں بٹھا کرایک مناسب سے ہوٹل پہنچا دیا۔
دوسرے روز صبح پاکستانی پولیس افسران اپنی یونی فارم میں ایک پانچ منزلہ عمارت میں قائم یواین او کے ہیڈکوارٹر پہنچے، جہاں ہمارے کئی ٹیسٹ ہوئے اور ہم سےکئی فارمز بھروائے گئے۔ وہیں ہمیں اقوامِ متحدہ کی ہلکے نیلے رنگ کی ٹوپیاں دی گئیں، جو ہمارے یونی فارم کا مستقل حصّہ بن گئیں۔
یواین ہیڈکوارٹر میں مصری نژاد پولیس کمشنر سے بھی ملاقات ہوئی اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی بہن روبینہ خان (جویو این او کے اِسی مشن میں تعیّنات تھیں) سے بھی اُن کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ ماپوتو میں دو تین روز تک تو خشک خوراک سے کام چلتا رہا، مگر خوش خوراک پولیس اہل کار، آخر کب تک خشک خوراک برداشت کرتے۔ سو، کچھ تجربہ کار’’پلس افسر‘‘ کسی دیسی ہوٹل کی تلاش میں یوں نکل پڑے، جیسے کسی بھاری ہیڈ منی والے اشتہاری کو پکڑنے جارہے ہوں۔
دوسرے روز شام کو سرچ پارٹی نے واپس آکر ’’پالیا،پالیا‘‘ کا نعرہ لگادیا۔ سب لوگ اُن کے گردجمع ہوگئے اور سرچ پارٹی کے لیڈر(صوبہ سندھ کے ایک ڈی ایس پی) کے حق میں ’’عباسی تیرے جاں نثار، بےشمار بےشمار‘‘ کےنعرے لگنے شروع ہوگئے۔ نعروں کے شور ہی میں ڈی ایس پی عباسی نے تاج محل ہوٹل کا محلِ وقوع بتایا اور تندوری روٹی، دال ملنے کی خوش خبری سنائی۔ یوں کھانے کا مسئلہ حل ہوگیا کہ اُس کے بعد لنچ اور ڈنراُسی ہوٹل سےہونے لگا۔
ماپوتو کے مقامی لونڈوں لپاڑوں کو جب معلوم ہوا کہ یواین میں نوکری کرنے والوں کے پاس کافی ڈالرز ہوتے ہیں، تو انہوں نے بھی اپنا حصّہ وصولنے کو کمریں کس کے کچھ گروپ ترتیب دے دیئے، جنہوں نےیواین مشن میں کام کرنے والے لوگوں سے پیسے لُوٹنا شروع کردیئے۔ ہر روزکوئی نہ کوئی افسر لُٹ کر آتا اور اپنی کتھا سُناتا۔
ایک شام جب مَیں اور اے ایس پی اظہر کھوکھر (جو بعد میں بطور ایڈیشنل آئی جی ریٹائر ہوئے) کھانے کے لیے جارہے تھے، تو تین چار مقامی نوجوانوں نے ہمارا پیچھا شروع کردیا اور جب وہ عین ہمارے عقب میں پہنچ کرہم پرہاتھ ڈالنے ہی والے تھے، تو مَیں نے اُنہیں پنجابی زبان میں للکارا۔ ’’کھلوجاؤ تواڈی…‘‘ ساتھ ہی جیب میں ہاتھ ڈالا، جیسے پسٹل نکال رہا ہوں، تو میرے اِس غیرمتوقّع ردِعمل پروہ گھبراکربھاگ کھڑے ہوئے۔
ایک ہفتے بعد پاکستانی دستے کے افسران کو مختلف علاقوں میں تعیّنات کردیا گیا۔ مجھے شمالی علاقے کے شہر نمپولا بھیجا گیا۔ سفر کے لیے یواین او کے سی130- جہاز استعمال ہوتے تھے، جن پر سفر بالکل آرام دہ نہیں ہوتا تھا۔ نمپولا میں جس ہوٹل میں مجھے ٹھہرایا گیا، ایک اور پاکستانی اے ایس پی بھی وہیں ٹھہرا۔ مَیں دوسرے روز حسبِ عادت سہ پہر کوسیر کے لیے نکلا، تو کیا دیکھتا ہوں، ہرطرف سیاہ فام ہی سیاہ فام۔ زندگی میں پہلی باراُن کے دیس آنے کا موقع ملا تھا، مَیں نے محسوس کیا کہ موزمبیق کے باشندے زیادہ ترغریب، شریف اور مطیع ہیں۔
مَیں نے بازار ہی سے ایک کالے رنگ کا مضبوط ڈنڈا (اسٹک) خریدا اور لمبی واک پر نکل گیا، اب اسٹک لےکر واک پر نکلنا میرا معمول بن گیا، اِس سے یہ ہوا کہ مَیں نے بازار اور آس پاس کا علاقہ اچھی طرح دیکھ لیا۔ چوتھے روز مجھے فکرلاحق ہوئی، تو مَیں نے پاکستانی اے ایس پی (جو اُسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا، مگر پہلے دن کے بعد نظرنہ آیا) کا کمرا معلوم کرکے اُس کا پتا کیا، تو وہ کمرے ہی میں دُبکا بیٹھا تھا۔ مَیں نے کہا۔ ’’سارا دن کیا کرتے رہتے ہو، باہر نکلو اور گھومو پھرو۔‘‘کہنے لگا۔ ’’سر! سیاہ فاموں کے دیس میں احتیاط ہی کرنی چاہیے۔‘‘
خیر، میں اُسے سیر پر ساتھ لے گیا، تو اس کی جھجھک کچھ کم ہوئی۔ اُس نے اپنا نام طارق مسعود یٰسین بتایا۔ نمپولا میں یو این او کے آفس گئے، تو معلوم ہوا کہ یہ ان کے شمالی ریجن کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہاں ریجنل کمانڈراسپین سے تعلق رکھنے والا ایک ڈی ایس پی رینک کا افسر تھا۔ مَیں جب اُس سے ملا، تو اُس نے میرے رینکس دیکھ کر مجھے ’’سر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور یہ بھی کہا کہ ’’مَیں کیپٹن ہوں، آپ لیفٹننٹ کرنل رینک کے افسر ہیں، مَیں آپ کو کیسے ہدایات دے سکتا ہوں۔
آپ کا جیسے دل چاہے، اُسی طرح وقت گزاریں۔‘‘ کچھ دنوں بعد کچھ اور پاکستانی پولیس افسر بھی نمپولا پہنچ گئےاور ہم ایک قدرے بہتر اور اچھی لوکیشن والے ہوٹل میں شفٹ ہوگئے۔ اُس ہوٹل میں کمرے کاکرایہ (1994ءکی بات ہے) دس ڈالرز یومیہ تھا۔ کھانے کے لیے ہمیں ایک دوسرے ریستوران جانا پڑتا تھا، جہاں مناسب قیمت پر مچھلی اور بریڈ مل جاتی تھی۔مَیں اپنےساتھ پاکستان سے کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ لے کر گیا تھا، لہٰذا صبح ناشتا کر کے کتابوں کا مطالعہ شروع کردیتا۔
دوپہر کو دوسرے کولیگز کے ساتھ لنچ کے لیے جاتا، واپس آکر قیلولہ کرتا، شام کو لمبی واک اوررات کوڈنر کے بعد پھر کسی کتاب کا مطالعہ۔ اور اس ساری ’’محنت و مشقّت‘‘ کا مجھے 105 ڈالر یومیہ معاوضہ ملتا، جو میری پاکستان کی سرکاری تن خواہ سے کئی گنا زیادہ تھا۔ مہینے کے بعد جب فنانس برانچ سے 3150 ڈالر تن خواہ ملتی، تو ہم سب ضرب، تقسیم کرکے رقم کو روپوں میں تبدیل کرنا شروع کردیتے اور یہی سوچ کر نہال ہوتے رہتے کہ ہماری ماہانہ تن خواہ ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے۔
کچھ سینئر افراد سے سُن رکھا تھا کہ یواین او کی بیورو کریسی نااہل ترین بیورو کریسی سمجھی جاتی ہے اور چند ہفتوں ہی میں یہ بات ثابت ہوگئی۔ چوں کہ یہ تمام ممبر ممالک کی مشترکہ تنظیم ہے، اس لیے مختلف خطّوں اور علاقوں کی نمائندگی تو ہوتی ہے، مگر اس کے ملازمین میں اتحاد، یک جہتی اور یک رُخی بالکل ناپید ہے۔ گورے اور یورپین افسر نسلی تفاخر کا شکار ہوتے ہیں اوراپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں، جب کہ فیصلہ سازی بھی اکثر اُنہی کے پاس ہوتی ہے۔
ترقّی پذیر، غریب، ایشیائی اور افریقی ممالک کے لوگ اپنے اپنے گروپ بنالیتے ہیں اور اپنے آپ کو انہی گروپس تک محدود رکھتے اور بس گوروں کے خلاف cribbing کرتے رہتے ہیں۔ یواین او کی سرکاری زبان چوں کہ انگریزی ہے اور اِس زبان سے دنیا کے اکثر ممالک کے لوگ اتنے مانوس نہیں، جتنے انگریزوں کےغلام رہنے والے کالونی ممالک کے لوگ ہیں، اس لیے پاکستانی افسروں کو انگریزی زبان پر عبور کی وجہ سے دوسروں پر برتری حاصل رہتی، جب کہ بہت سے یورپین ممالک کے گورے بھی انگریزی نہ جاننے کے سبب رپورٹس لکھوانے کے لیے پاکستانی اور بھارتی افسران ہی کے محتاج ہوتے۔ پاکستانی پولیس افسروں کا مقابلہ صرف بھارت کے آئی پی ایس افسر ہی کرسکتے تھے، باقی ممالک سے پاکستانی پولیس افسر ہر لحاظ سے بہتر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مشن کی اختتامی ریٹنگ میں پاکستانی پولیس افسروں کوپہلے یا دوسرے نمبر پر قرار دیا جاتا۔
مَیں جب ایک ہی روٹین سےتنگ آگیا، تو مجھے موزمبیق کا اندرون دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ایک روز ایک آسٹریلین افسر نےمجھے دعوت دی کہ ’’مَیں کل ایک دُور دراز دیہاتی علاقے میں پوسٹ قائم کرنے جارہا ہوں، اگر میرے ساتھ جانا چاہتے ہو، تو چلو۔‘‘ مَیں نے بخوشی ہاں کر دی اور دوسرے روز مَیں اور رابرٹ، یو این او کی گاڑی میں دیہی علاقے کی جانب چل پڑے۔ دیہی علاقے کی بڑی بُری حالت تھی۔
کچی بستیاں،جہاں بجلی اور بنیادی سہولتیں ناپید تھیں، سڑک بھی تنگ اور ٹوٹی پھوٹی سی۔ کوئی سو میل کےسفرکے بعد رابرٹ نے گاڑی سڑک کے کنارے ایک ریستوران پر روکی، جہاں سےاُس نے شراب کی کین اور مَیں نے گنّے بیچنے والوں سے چند گنّے خریدے۔ ہم دونوں اپنے اپنے ڈرنکس سے لُطف اندوز ہونے لگے۔ وہاں سے فریش ہوکر رابرٹ نے پھر اسٹیئرنگ سنبھال لیا اور مَیں اُس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
وہاں سے مزید سو ڈیڑھ سو کلو میٹر طے کرنے کے بعد ہم کچّے راستے پراُتر گئے اور اُس نےگاڑی انسانی قد سےاونچی جھاڑیوں کے اندر ڈال دی۔ راستے میں ایک نالے سے تو ہم آسانی سے گزر گئے مگر دوسرے پر پھنس گئے اور دھکّا لگانے کی ضرورت آپڑی۔ کچھ دیر بعد اچانک اُس اونچی لمبی کُوندر میں سے چار پانچ ہٹّے کٹّے حبشی برآمد ہوئے، جنہیں دیکھ کر قدرے تشویش ہوئی۔ ہم ہر قسم کے رابطوں سے کوسوں دُور ایک ویران جگہ پر صرف دو غیرمُلکی افراد تھے، جب کہ دوسری طرف چار پانچ تنومند سیاہ فام۔ ایک لمحےکو سوچا کہ ابھی یہ ’’جھینگا لالا‘‘ کے نعرےلگاتےہم پرحملہ آورہوجائیں گے۔
ذہن میں کئی کہانیاں بھی آئیں کہ کس طرح کئی نیگرو قبائل انسانوں کوکاٹ کر، ٹکڑے کر کے بھون بھان کے کھاجاتے ہیں یا اغوا کر کے لے جاتے ہیں۔ ہر دو صُورتوں کا تصوّر بڑا ہی بھیانک تھا، مگر پھر دونوں میں سے بہتر آپشن سے متعلق سوچا کہ اگر یہ ہمیں ہلاک کرکے کھانے کی بجائے اغوا کرکے تاوان مانگتے ہیں، تو پھر کیا ہوگا، گھر والوں پر کیا گزرے گی؟ پاکستان سے موزمبیق آکر ہمیں اغواکاروں سے چھڑوانے کی جدوجہد میں گھروالے تو خوار ہوجائیں گے۔
مَیں انہی خیالوں میں گم تھاکہ رابرٹ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کیا۔ حواس بحال کرکے ہم دونوں نے اپنی ظاہری خود اعتمادی قائم رکھی اور اُنہیں گاڑی کو دھکا لگانے کے لیے کہا۔ انہوں نے ہدایت پرعمل کرتے ہوئے گاڑی نکال دی، جس پر ہم نے اُنہیں مقامی کرنسی میں انعام دیا، جو 15/20 روپے ہی بنتا تھا، مگر غربت کے مارے لوگ اُس پر بھی بہت خُوش ہوئے۔ کچھ دیربعد ہم منزلِ مقصود پر پہنچ گئے، جہاں یو این کے دو افسر موجود تھے۔ دُور دراز کی پوسٹس پر تیسری دنیا کے افسروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ رابرٹ نے اُنہیں کچھ مزید سامان پہنچایا۔
پوسٹ پر موجود افسروں نے چائے یا ٹھنڈے کی بھی آفرتک نہ کی، جس پر رابرٹ کو کوئی تعجب نہ ہوا، لیکن مجھے بہت عجیب بلکہ معیوب سا لگا،مگر بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ یو این مشن میں امریکی کلچر حاوی ہے، اس لیے یہاں مہمان یا مہمان نوازی کا کوئی تصوّر نہیں۔ آنے والے مہمانوں کی چائے یا ٹھنڈے سے تواضع صرف ایشیائی بلکہ جنوب ایشیائی ممالک ہی کا کلچر ہے۔
بنگلا دیش کے زیادہ تر پولیس افسران ہم سے بڑے تپاک سے ملتے تھے۔ اُن میں ایسے بھی تھے، جو مکتی باہنی میں کام کرتے رہے تھے اور بنگلا دیش بننے کے بعد اُنہیں پولیس میں ؒ براہِ راست ڈی ایس پی کے عہدے پر بھرتی کر لیا گیا تھا۔ جس طرح پاکستانی فوج بوسنیا میں تعینات کی گئی تھی، اُسی طرح موزمبیق میں بنگلا دیش کےفوجی دستے تعینات کیے گئے تھے۔
ایک باراُن کی یونٹ کےکرنل سے ملاقات ہوئی، تو وہ اس قدر خوش ہوا کہ اُس نے بآوازِ بلند دوسرے افسران کو بھی بلوایا اور بےپناہ مسّرت سے کہا کہ ’’اِن سے ملیں، یہ پاکستان سے آئے ہیں۔‘‘ اُس وقت اُن کے جذبات و احساسات ایسے تھے، جیسے ایک طویل عرصے بعد بچھڑے بھائی ملے ہوں۔ (جاری ہے)