• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا اب یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ نہیں عمران خان کے جلسے کی ڈائس پر جو بینر آویزاں تھا اس پر فیض کا یہ تاريخی مصرعہ تحریر تھا’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ اور طاہرالقادری کینیڈا سے بیٹھ کر منتخب حکومتیں گرا کر انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ لگا غدر پارٹی کے انقلابیوں کی روحیں ضرور شرمسار ہوئی ہوں گی۔ یاد آئے جنہوں نے ایک سو ایک برس قبل اسی کینیڈا سے کرانتی یا انقلاب شروع کیا تھا۔ میں نے اپنے بچپن اور جوانی میں جو انقلابی دیکھے تھے وہ کچھ اور طرح کے تھے۔ یہ رومانویت کے کیا بھرپور دن تھے۔
بقول میرے ایک دوست کے سیونٹی موٹر سائیکل،مہنگی سگریٹ کے آدھی ڈبی اور انقلاب۔ نہ آدھی ڈبی پوری خریدی نہ انقلاب کبھی آیا۔ میں نے انقلابیوں کے شاہی قلعے اور کلی کیمپ کوئٹہ جیسے معلوم اور نامعلوم مقامات کے ٹارچر سیلوں میں تشدد سے ہلاک ہونے کے کئی قصے سن اور پڑھ رکھے تھے۔ دنیا بھر کے انقلابات اور انقلابیوں کے بھی۔ کئی سچ مچ کے انقلابیوں کو قریب سے جانتا تھا۔ کئی انقلابی بہت جلدی میں ہوا کرتے تھے۔ بالکل ایسے کہ شاید انقلاب بند ریلوے پھاٹک پر آن پہنچا تھا بس اس کے لئے چنگی بجانے کی دیر تھی۔ کئی نسلیں کئی گھر اس انقلاب کی آس میں برباد یا قربان ہوگئے۔ سرخ سویرے، سبز انقلاب۔ کوئی کہتا ایشیا سرخ ہے کوئی کہتا ایشیا سبز ہے کسی منچـلے نے کہا نہ سرخ ہے نہ سبز ہے ایشیا کو قبض ہے۔انقلابی شاعری کی بات ہی کیا۔ فیض سے لیکر فہمیدہ ریاض تک۔ شیخ ایازسے لیکر گل خان نصیر تک، حبیب جالب سے لیکر حمزہ شنواری تک انقلابی کلام تخلیق کرتے گئے یعنی انقلاب ایک ایسی لیلیٰ تھی جس کی چاہت میں کئی مجنوں صحرانوردی کو نکلے اور کئی تاریک راہوں میں مارے گئے۔ انقلاب غریب گھروں کے انقلابیوں کیلئے ایک بڑا اسم اعظم تھا۔ جس پر لوگ قتل گاہوں سے چن کر اپنے علم بلند کئے سرخرو ہوکر نکلا کرتے تھے۔ جیسے حبیب جالب نے کہا تھا’’میں آئوں نہ آئوں میری بیٹی آنے والا سویرا ہے تیرا‘‘۔
کئی بڑے گھروں کے لوگوں نے اس کے نام پر تیاگ لیا ہوا تھا لیکن جوش صاحب جیسے شاعر انقلاب بھی تھے جنہوں نے کہا :
میں تیرے زانو پر سر رکھ کر ابھی سوتا ہوں
انقلاب آئے تو مجھ کو بھی جگانا ساقی
گویاکہ انقلاب کوئی سمہ سٹہ کا اسٹیشن تھا جس پر ٹرین نے رکنا ہی رکنا تھا۔ ابھی کئی انقلابیوں نے این جی اوز کے بڑے کوٹھے نہیں پائے تھے۔
کسی نے انقلاب فرانس پڑھا ہوا تھا تو کسی نے اسلامی انقلاب کا تعویز گھول کرپیا ہوا تھا۔ انقلاب ایک جادو تھا۔ بس انقلاب کو آنے تو دو۔ ماں کی آنکھیں بن جائیں گی۔ بھائی کو نوکری مل جائے گی۔ بچوں کے اسکول کی فیس بھی بھر جائے گی ۔ بیمار باپ کا علاج ہو جائےگا۔ٹاٹ کے پردے والی جھگی دو سو تیرہ کورنگی پکا گھر بن جائے گی۔ بہن کی شادی ہوجائے۔اپنی شادی تو انقلاب کے ساتھ ہے۔خواہشوں کے سب فقیر سرخ سبزگھوڑوں پر سوار محلات میں آکر آباد ہو جائيں گے۔ اسی انقلاب کے مارے مزدور تحریک کے کارکنوں کو محمود چیمبرز حیدرآباد کی آخری منزل کی چھت سے پولیس کے ہاتھوں گرتے ہوئے دیکھا۔ لانڈھی کورنگی کی ملوں میں مزدوروں کو تیل کی جلتی کڑاہیوں میں بھی پھینکا گیا۔ کون کہتا ہےکہ یہاں کنسنٹریشن کیمپ نہیں تھے۔ انقلاب اور انقلابیوں کا زیادہ تر مطلب بائيں بازو کے لوگ ہوا کرتے تھے اور یہ غلط بھی نہیں تھا۔ انیس سو پچیس کی دہائی کی انقلابیوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر انقلاب لانے کی سازش تیار کی یا کم از کم ان پر یہ الزام راولپنڈی سازش کیس کی صورت میں سامنے آیا۔’’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘‘ جیسے لازوال مصرعے انقلابی مصروں کے ساتھ ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ کی نذر ہوگئے یعنی فیض صاحب کی مجھ سے پہلی سی محبت جیسی لازوال نظم بھی آخر میں پارٹی لائن بن گئی۔
پھر آگے کیا ہوا؟ بقول بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی
’’مارشل لا ملک کا دستور ہوا
سب زبانیں بند ہوں اعلان ہوا
آدمی انسان سے حیوان ہوا‘‘
انیس سو اٹھاون آیا اور اب نام نہاد فیلڈ مارشل (یہ اور بات ہے کہ لوگوں نے فیلڈ مارشل کس انسانی عضو کو کہنا شروع کیا جس کی شروعات ہاری رہنما کامریڈ میر محمد تالپور نے کی) ایوب خان کے’’اکتوبر انقلاب‘‘ کے سبق پڑھائے جانے لگے یعنی فوجی بغاوتیں انقلاب کہلائیں۔ اسی زمانے میں حبیب جالب نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’دستور‘‘ لکھی۔ کسے خبر تھی کہ یہ نظم شہباز شریف جلسوں میں پڑھا کریں گے! ایوب خان کے’’سبز انقلاب‘‘ کے سبز باغ نواب کالاباغ کے تلے شروع ہوئے۔ اے وطن تری لیلائوں کی خیر، یعنی چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے اور یہ رسم آج تک چلتی آئی ہے۔ بس پھر فیض کو یہ بھی کہنا پڑا کہ’’میں جہاں بھی گیا اے ارض وطن تیرے تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لئے‘‘ اور یہ تذلیل وطن اب تک جاری ہے۔ وطن عزیز کے چھیاسٹھ برسوں میں سے کم و بیش چالیس برس مارشل لاکی نذر ہوگئے۔ اب لوگوں کو یہ سبق پڑھائے جانے لگے کہ جمہوریت پاکستان جیسے ملکوں کی آب ہوا میں موزوں نہیں۔ کبھی کہا گیا کہ اسلام میں جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب مشرقی مغربی سرحدوں پر دو انقلاب آگئے۔ ایران کا اسلامی انقلاب اور افغانستان کا فوجی بغاوت کے ذریعے لایا ہوا کمیونسٹ انقلاب۔ اب یہ نعرے بھی امپورٹ ہو کر پاکستان کی سڑکوں پرسنے جانے لگے: ’’خدایا خدایا تا انقلاب مہدی خمینی را نگہباں‘‘۔ ملک میں ضیاءالحق جیسے ایشیا کی تاریخ کے ماڈل ڈکٹیٹر نے شب خون مارا اور ایک بار پھر ہوا ’’عزیز ہموطنو! السلام علیکم‘‘ بالکل بقول شخصے مارشل لا کیلئے ایک فارمولا فلم چلنے لگی یعنی وہی ایک جیپ دو ٹرک ، ایک سو گیارہ بریگيڈ براستہ شاہراہ دستور (کہ یہ شاہراہ شاہرع نہیں)۔ ریڈیو، ٹی وی اسیٹشنوں پر، پارلیمان پر قبضہ۔ وزیراعظم ہائوس کی دیواریں پھلانگنا اور پھر ہوجانا ‘‘عزیز ہموطنو! السلام علیکم‘‘۔ یحییٰ خان نے صرف عوام کی جمہوری امنگ اور عوامی منشا کچلنے کو ملک گنوا دیا لیکن دونوں ملکوں کے جنرل کاکول کی تربت یافتہ تھے جو اپنے ہی وزرائے اعظم کو موت کے گھاٹ اترواتے رہے۔ کبھی ترکی کے ماڈل کی بات ہوتی رہی تو کبھی ڈھاکہ ماڈل کی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہ بھی بائيں بازو کے لوگ یا کل کے انقلابی تھے جو ’’ پھر ہم ہی قتل ہو آئيں یارو چلو کے مصداق محض انتخابات کی تاریخ کے اعلان کیلئے یا صرف پمفلٹ چھاپنے بانٹنے، اخبار نکالے یا لکھنے یا تقریر کرنے پر، مطالبہ بحالی جمہوریت پر، بھٹو کے چہلم پر اکٹھے ہونے پر، پہلی برسی پر، کوڑوں، پھانسیوں اور قید بامشقت، قلعوں کے عقوبت خانوں کی طرف مارچ کرتے رہے تھے۔ کل کے طالب علم رہنما اور میرے عزيز دوست محمد خان سولنگی، شیر محمد منگریو، امداد چانڈیو ہزاروں ملک بھر کے سیاسی کارکنوں، سندھی اور بلوچ قوم پرستوں میں محض ایک مثال ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام آباد کے کتاب گھر میں کتابوں کے اندر جاکر پمفلٹ چھپاکر رکھ آنے پر جسے پہلے اوورکوٹ کیس اور پھر لیبیا سازش کیس کہا گیا میں کامران رضوی کئی برس شاہی قلعے میں رہے۔
لیکن یہ بھی جمہوریت کا حسن یا المیہ ہے کہ اس کے لئے قربانیاں کوئی دیتا ہے اور اس کا پھل کوئی اور کھاتا ہے۔ سندھی میں کہتے ہیں بندریا جھیلے لاٹھیاں اور کمائی کھائے فقیر۔ کیونکہ جمہوریت انتقام نہیں لیتی بلکہ بہترین انقلاب کا نام جمہوریت ہے،کہ انقلاب اب برچھی سے نہیں پرچی سے آیا کرتے ہیں پھر اس میں آصف علی زرداری منتخب ہو کر آئے یا پھولن دیوی۔ یہ بھی جمہوریت ہے کہ جس میں کامریڈ منظور جیسے لوگ بھی منتخب ہو کر آتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے تھر کے بھیل بھی۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ پڑوسی ملک بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس لئے کہلاتی ہے کہ وہ ملک کی نام نہاد آزادی سے لیکر آج تک ہر پانچ سال بعد اپنا چنائو چنتے ہیں پھر رام منتخب ہوکر آئے کہ راون، ٹھگ آئے کہ سادھو۔یہی حال دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت امریکہ کا ہے کہ جس میں اہل صفا مردود حرم بھی وائٹ ہائوس کی مسند پر بٹھائے جاتے ہیں۔ کس نے جانا تھا کہ سیاہ فام غلاموں کی مشقت سے تعمیر وائٹ ہائوس میں اوباما صدر ہوں گے، یہی تو جمہوریت کا حسن ہے لیکن پیارے پاکستان میں جمہوریت اب بھی نوزائيدہ ہے اور کئی بردہ فروش ہمہ تن اسے اغوا کرنے کو تلے ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو بیس ماہ،پھر دوسرادور حکومت سوا تین سال،نواز شریف پہلا دور حکومت ڈھائی سال۔ فوجی راج چالیس سال، اسی لئے درپردہ کبھی مارشل لا ختم ہی نہیں ہوتے،ہم سمجھے تھے کہ مارشل لا ختم ہو گئے۔
تازہ ترین