افسوس صد افسوس! ہم اور ہمارا بوسیدہ نظام بُری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ حکمران اقتدار کے نشے میں چور ، طاقتور اسی میں مخمور، اپوزیشن ہٹ دھرمی پر مجبور یہ سوچ رہی ہے کہ جیسے جیسے بیرونی دباؤ بڑھتا جائے گا فارم 47والی حکومت کمزور ہوتی جائیگی اور بیساکھیوں کے سہارے کھڑا یہ نظام دھڑام سے زمین پر گرتے ہی اقتدار ان کی جھولی میں ڈال دیا جائیگا۔ اپنی امیدیں ،اپنے خواب۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ نظام کمزور پڑنے سے ریاست کمزور پڑے گی اور جب ریاست اس حالت میں آئیگی تو سب کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ پارلیمان میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے پی ٹی آئی کی ہم خیال اپوزیشن اور بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کےبائیکاٹ نے قومی اتحاد کے تصور کو جس طرح پارہ پارہ کیا ہے اور اس پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے یہ کہہ کر جلتی پر تیل کا کام کیا کہ وہ اپنے صوبے میں فتنۃ الخوارج کے خلاف کسی بھی قسم کا فوجی آپریشن نہیں ہونے دیں گے۔ وہ جس طرح افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی کی مخالفت کررہے ہیں سب کو نظر آرہا ہے کہ دال میں کچھ کالاہے۔ یہ گنڈا پور کی نہیں بانی پی ٹی آئی کی لائن ہے۔ طالبان بارے نرم گوشہ رکھنے کی وجوہات خفیہ ہیں یا ذاتی یا پھر وہ کسی اور کے ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ گنڈا پور کے اپنے صوبے کے کم از کم چار ڈویژن ایسے ہیں جہاں ان کا گنڈاسہ چلتا ہے نہ قانون کی عمل داری ہے۔ ان علاقوں میں خوارج کا کنٹرول بڑھتا جارہا ہے اور گنڈا پور صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں۔ بس کچھ گڈ طالبان سرِ شام ہوا خوری کیلئے نکلتے ہیں، اِکا دُکا ناکوں پر خرچہ پانی وصول کرکے چلے جاتے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثرہ ایک حساس صوبے کے وزیراعلیٰ کا یہ مسخرہ پن اور عوام کو شہد لگانے کا یہ انوکھا ڈھنگ کسی بھی صورت قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر مسلسل خاموشی کیوں ہے۔ ہماری سیاست کے رنگ روپ بھی نرالے ہیں۔ ایک طرف پوری قوم خیبرپختونخوا، بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑھتی سنگین وارداتوں سے پریشان ہے تو دوسری طرف سرکار کی مجبوریاں آڑے آرہی ہیں۔ 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ہماری معیشت اور اب قومی سلامتی پر پتھر بن کر گر رہے ہیں۔ ان کا مقررہ تاریخ کے اندر اندر پُرامن انخلاہماری ضرورت اور مجبوری بن چکا ہے۔ اگر اس مرحلے پر کسی نے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی کوشش کی تو اس کی بھاری قیمت چکائے گا۔ بڑے مولانا صاحب یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ تمام تر تحفظات کے باوجود قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے اور دہشت گردی کے خلاف ممکنہ آپریشن اور حکمت عملی بارے اپنے خیالات، تحفظات کا برملا اظہار کیا۔ سیاست کے بڑے کھلاڑی ہونے کے ناطے یہ ان کا قومی فریضہ تھا کہ اس نازک مرحلے پر میدان خالی چھوڑنا کوئی عقل مندی نہیں۔ مولانا اپنی بات ہر فورم پر ڈٹ کرکرتے ہوئے کوئی نہ کوئی راہ تلاش کرلیتے ہیں۔ وہ ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت کے رہنما ہیں۔ ان کی جماعت اور ہم خیال مذہبی جماعتوں کے رہنما فتنۃ الخوارج کی کارروائیوں میں براہ راست نشانہ بن رہے ہیں۔ خود ان کی زندگی کوشدید خطرات لاحق ہیں لیکن وہ ہمیشہ سیاسی میدان میں کھڑے اپنی مضبوط آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کیلئے سبق یہی ہے کہ وہ بڑے مولانا صاحب کی سیاسی بیعت کر لیں۔ قوموں کی زندگی میں بڑے بڑے سیاسی بحران آتے ہیں ان بحرانوں سے گزر کر اپنا سیاسی مقام و مرتبہ برقرار رکھنا ہی بڑے کھلاڑیوں کا شیوہ ہے۔ آج پاکستان کی سلامتی کو غیر ملکی طاقتوں کی پیداوار المعروف فتنۃ الخوارج نے چیلنج کر رکھا ہے۔ دشمن مرحلہ وار منصوبہ بندی کے تحت ہمارے فوجی جوانوں ، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، علماء کرام، دینی مدارس، عام شہریوں اور سیاست دانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ہم صرف اس بات پر مطمئن ہیں کہ مرنے والے قومی ہیروز شہادت کے رُتبے پر فائز ہو کر اللہ اور قوم کے سامنے سرخرو ہو گئے۔ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہو رہا کہ ہم کتنا قیمتی اثاثہ کھو رہے ہیں،طاقت وروں اور کمزور سیاست دانوں سے درخواست ہے کہ قوم کو درپیش سلامتی کے اس امتحانی و بحرانی دور میں باہمی اختلافات ختم کر کے فتنۃ الخوارج کے خلاف ایک متفقہ حکمت عملی پر اتفاق کر لیجئے وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ دشمن ہماری شہ رگ تک پہنچ چکا ہے۔ اگر کسی کی عقل کام نہیں کرتی تو چشم تصورسے عراق، شام، مصر، لیبیا، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم کے مناظر دیکھ لے ۔ بند کمرہ اجلاس کے اعلامیے میں دشمن کو دشمن قرارنہ دینا، فتنۃ الخوارج کو ملنے والی خفیہ مدد کا براہ راست ذکر نہ کرنا ہماری کمزوریوں میں سے ایک بڑی کمزوری ہے۔ فتنۃ الخوارج کے خلاف ہماری کمزور داخلی و خارجی پالیسی اور فوجی آپریشن بیک وقت کامیاب نہیں ہوسکتے۔ مذاکرات اور ڈنڈا ساتھ ساتھ چلیں تو دشمن سے مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔بہتر سیاسی حکمت عملی کے طور پر قابل بھروسہ، تجربہ کار سیاست دانوں میاں محمد نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، سردار اختر مینگل، عبدالمالک بلوچ، محمود خان اچکزئی، بلاول بھٹو یا پیپلز پارٹی کی مضبوط نمائندہ شخصیت پرویز خٹک، اسد قیصر وحافظ نعیم الرحمن پر مشتمل سیاسی جرگہ تشکیل دے کر ناراض سیاسی قوتوں کو منانے کاعمل شروع کرنا ایسے حالات میں ایک احسن اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کی عدم شرکت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ انہیں خاموشی توڑ کر مولانا فضل الرحمن کی تجویز پر ہمدردانہ غور کرتے ہوئے اپنا مسلمہ سیاسی کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہی وقت ہے کہ جب بڑے آدمی کا بڑا کردار سامنے آتا ہے۔