بلوچستان کے علاقہ قلات اور نوشکی میں ہفتے کے روز دہشت گردی کے دو واقعات میں چار پولیس اہل کار اور اتنی ہی تعداد میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور جاں بحق ہوگئے۔وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے حکام کو دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔دوسری طرف کوئٹہ پولیس نے سریاب روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے بلوچ یک جہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت مجموعی طور پر 47مظاہرین گرفتار کر لیے۔بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق یہ گرفتاریاں سول اسپتال کوئٹہ پر حملے اور لوگوں کو پرتشدد احتجاج پر اکسانے اور دیگر دفعات کے تحت عمل میں لائی گئی ہیں۔ترجمان حکومت کا کہنا ہے کہ بلوچ یک جہتی کمیٹی ان لاشوں کیلئے احتجاج کر رہی تھی جو جعفر ایکسپریس کے آپریشن میں مارے گئے ہیںجبکہ مظاہرین میں مسلح افراد بھی موجود تھے۔اس واقعہ سے دوروزقبل لاپتہ افراد کے لواحقین جعفر ایکسپریس حملے میں ملوث پانچ دہشت گردوں کی سول اسپتال کوئٹہ میں لائی گئی لاشیں اٹھا کر لے گئے تھے۔بعد ازاں پولیس نے تین لاشیں برآمد کرتے ہوئے متعدد افراد گرفتار کئے تھے۔قلات،نوشکی اور سول اسپتال کوئٹہ کے واقعات اور جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملےکی نہ صرف آپس میں کڑیاں ملتی دکھائی دیتی ہیں بلکہ اس سے لاپتہ افراد کے بارے میں پایا جانے والا حکومتی تاثر مضبوط ہونا فطری امر ہےاور یہ کہ گرفتار ہونے والے بہت سوں کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط پائے جاتےہیں۔جعفر ایکسپریس کے واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا کا واویلا،بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔اس صورتحال کے تناظر میں حکومت پاکستان کا کوئی بھی ردعمل وقت کی ناگزیر ضرورت سمجھا جائے گا۔