افغانستان سے دہشت گردوں کی مسلسل پاکستان آمد ہی وہ اصل مسئلہ ہے جس نے باہمی تعلقات کو متاثر کر رکھا ہے جبکہ امریکی افواج کی واپسی اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں میں مثالی تعلقات کی توقع کی جارہی تھی۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے کی بار بار کی سفارتی کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ اس صورت حال کا تازہ مظاہرہ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق بائیس اور تیئس مارچ کی درمیانی رات شمالی وزیرستان کے ضلع غلام کلے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ایک گروپ کی پاکستانی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی شکل میں ہوا جن کیلئے ریاستی سطح پر خوارج کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم پاک فوج کے دلیر جوانوں نے کم ازکم 16 دہشت گردوں کو جہنم رسید کرکے اس مذموم کوشش کو ناکام بنادیا۔بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان عبوری افغان حکومت سے مسلسل کہتا رہا ہے کہ وہ مؤثر سرحدی بندوبست کو یقینی بنائے ۔ دراندازی کی تازہ واردات کے معاملے میں وقت کا انتخاب خاص طور پر لائق توجہ ہے۔جس رات مسلح دہشتگردوں نے شمالی وزیر ستان میں داخل ہونے کی کوشش کی اس سے پہلے دن میں پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اورقائم مقام افغان وزیر خارجہ کی ملاقات میں باہمی تعلقات بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ اس سے ایک دن پہلے چار ہفتوں سے بند طورخم کی تجارتی گزرگاہ کھولی گئی تھی اور دونوں جانب سے آمد و رفت کا سلسلہ ازسرنو شروع ہوا تھا۔ اسلئے یہ گمان بے جا نہیں کہ یہ دراندازی اُن طاقتوں کے کارندوں کی سازش تھی جو پاک افغان تعلقات کو بحال ہوتے دیکھنا نہیں چاہتیں۔ لہٰذا دونوں ملکوں کی مقتدرہ کو حکمت و تدبر سے معاملات کو سلجھانا اور خطے میں امن و استحکام اور عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے باہمی تعاون سے آگے بڑھنا چاہئے۔