میرا خیال تھا کہ ایک کالم کافی ہے مگر جنگ کے قارئین کی فرمائش ہے کہ حافظ حسین احمد کی بہت سی اور باتیں ہیں، وہ بھی ضبط تحریر میں لائی جائیں کیونکہ تاریخ کے بہت سے طالبعلم انکی شگفتہ مزاجی کا تذکرہ کرتے ہوئے کئی قصے سناتے ہیں، سو میں نے سوچا کہ قارئین کی خواہش کا پاس کرتے ہوئے کچھ مزید باتیں لکھ دوں اور باتیں بھی ایسی ہوں کہ جن کے بہت سے گواہ موجود ہوں۔ حافظ حسین احمد قومی اسمبلی کے رکن رہے اور سینیٹر بھی رہے، اس طرح دونوں ایوان انکی شگفتہ مزاجی سے محظوظ ہوتے رہے۔ میں پہلے ایک ذاتی بات کا تذکرہ کرتا چلوں، حافظ حسین احمد کے دو صاحبزادے محمود اور زبیر جڑواں ہیں، دونوں کی شکل اتنی ملتی ہے کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ حافظ صاحب کیلئے بھی یہ مرحلہ مشکل تھا، میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ آپ محمود اور زبیر کو کیسے پہچانتے ہیں؟ حافظ صاحب ہنستے ہوئے کہنے لگے ’’میں نے جب انہیں بلانا ہو تو میں تینوں چاروں کے نام اکٹھے لیتا ہوں اور جب کوئی ایک آ رہا ہوتا ہے تو میں چہرے کو تھوڑا سا جھکا کر پوچھتا ہوں، کون آ رہا ہے؟ جو بھی آ رہا ہو، وہ اپنا نام بتا دیتا ہے، اس طرح مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ زبیر آ رہا ہے یا محمود۔ باقی دو منیر اور ظفر کی شکلیں قابل شناخت ہیں‘‘۔
1990ء کے الیکشن کے بعد حافظ حسین احمد بلوچستان سے سینیٹر بنے۔ ایک دن سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا، صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہان پانیزئی کررہی تھیں۔ (یہ ان دنوں کی بات ہے جب حکومت کی جانب سے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے سخت ردعمل آ رہا تھا ) حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائینگے؟ ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا 'انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں۔
حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے، ’’آج اخبار میں سرچار ج کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ہے، وہی اٹک گیا ہو۔ مگر وزیر صاحب اپنا درست نام بتا دیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے‘‘۔ سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کیساتھ انتہائی غصے میں کھڑے ہو کر کہنے لگے:میرا نام سرتاج ہے سرتاج‘‘۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا، ’’محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج کہہ سکتی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نورجہاں پانیزئی کے ہونٹوں پر چند لمحے قفل رہا اور پھر کہنے لگیں:' نہیں نہیں، میں نہیں کہہ سکتی۔ حافظ حسین احمد نے پھر کہا، ’’جب آپ انہیں سرتاج نہیں کہہ سکتیں تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں؟‘‘ اسی طرح ایک اور دن چیئرمین سینٹ وسیم سجاد اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، سید اقبال حیدر (مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرہال کیساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے ۔چیئرمین صاحب نے پوچھا: سید اقبال حیدر کہاں ہیں؟
حافظ حسین احمد نے کہا’پینے گئے ہیں‘۔ پورے ہال میں قہقہے لگنا شروع ہوئے تو اقبال حیدر فوراً ایوان میں داخل ہوئے ،کہنے لگے :'جناب چیئرمین! حافظ صاحب نے مجھ پر بہتان لگایا ہے۔ اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ہو چکے تھے ،حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے:' جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے ؟ میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں۔
1988ء کے انتخابات کے نتیجے میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، محترمہ بینظیر بھٹو شہید اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں، لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے اسپیکر بنے، ایک روز ملک معراج خالد کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا، کچھ سوالوں کے جواب داخلہ کے وفاقی وزیر اعتزاز احسن کو دینا تھے، چوہدری اعتزاز احسن نے ایوان میں آتے ہی اسپیکر سے کہا کہ ’’آج مجھے جلدی ہے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ انہوں نے جو بھی سوال پوچھنے ہیں جلدی سے پوچھ لیں‘‘۔
حافظ حسین احمد کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’وزیر صاحب بتانا پسند کرینگے کہ کس بات کی جلدی ہے؟‘‘ جوابا چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ’’وزیراعظم مری جارہی ہیں‘‘۔ اس پر حافظ حسین احمد نے کہا ’’کس پر‘‘؟۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا۔ حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں، ہم واک آؤٹ کرینگے ،نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔
حافظ حسین احمد: کونسے الفاظ قابل اعتراض بن گئے ہیں،
ملک معراج خالد : وہ جو قابل اعتراض ہیں ۔
حافظ حسین احمد: مجھے کیسے پتہ چلے گا، کون سے قابل اعتراض ہیں ؟
اعتزاز احسن :وہ جو انہوں نے کہا ہے کہ کس پر…؟
حافظ حسین احمد بولے :جناب اسپیکر ! میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ وزیراعظم ہیلی کاپٹر پر جارہی ہیں تو پھر تویہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارہی ہیں تو وزیر موصوف بعد میں اپنی گاڑی پر بھی جاسکتے ہیں۔ میں نے یہ پوچھا ہے کہ ’’وہ کس پر مری جا رہی ہیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر؟
پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے:نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی شامل تھے۔ حافظ حسین احمد کہنے لگے ’’جناب اسپیکر !مجھے اپنی نیت کا پتہ ہے ،انہیں میری نیت کا کس طرح معلوم ہوا؟ انکی اپنی نیت غلط ہے‘‘۔ اسی طرح جب رفیق تارڑ صدر تھے تو حافظ حسین احمد کہنے لگے ’’تو رفیق ہے کسی اور کا، تجھے تاڑتا کوئی اور ہے‘‘۔ بیشمار واقعات ہیں، کیا کیا لکھا جائے؟ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ احمد فراز یاد آ گئے کہ
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی