بھارت کی خواہش اور ہدایات پر بنگلادیش کی کٹھ پتلی وزیرِاعظم حسینہ واجد نے(جس سے بنگالی نوجوانوں نے بےمثال قربانیاں دے کر جان چھڑوائی ہے) تعلیمی نصاب میں انتہائی زہرآلود موادشامل کردیا تھا،مگراس کے باوجود بنگالیوں کی واضح اکثریت ہمیشہ پاکستانیوں سے مل کر بہت خوش ہوتی اور دل سے بھارت سےنفرت،پاکستان سےمحبّت کرتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستانی حُکم رانوں کی ہوسِ زر، کرپشن اور نااہلی کے باعث آج پاکستانی معیشت ڈانواں ڈول ہے، جب کہ بنگلا دیش کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں، مگر 1994ء میں بنگلا دیش میں سخت غربت تھی اور پاکستان کےاقتصادی حالات قدرے بہتر تھے۔ بنگلا دیش کے پولیس افسران بچت کےلیےاُسی طرح رہتے، جس طرح پاکستانی مزدورطبقہ دبئی یا پہلے پہل برطانیہ میں رہا کرتا تھا۔
ایک بار ہم دو تین پاکستانی پولیس افسر ایک ہوٹل کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک مقامی دلال (جو یو این ملازمین میں سے اپنے گاہک تلاش کرنے کے لیے پھرتے رہتے تھے) ہمارے پاس آیا،پہلےاُس نے عورتوں کی آفر کی، ہم نے انکار کردیا، پھر اُس نے پب میں ڈانس کی دعوت دی، ہم نے وہ بھی ٹھکرا دی۔ اِسی نوعیت کی مزید پیش کشوں پر بھی جب اُسے ہمارا جواب نفی میں ملتا رہا تو اُس نے کہا۔’’آپ لوگوں کو نہ عورتوں کا شوق ہے، نہ ڈانس کا، نہ شراب کا۔ آپ یقیناً بنگلا دیشی ہیں، جویہاں صرف ڈالرزکمانے آئے ہیں۔‘‘
ان دنوں ملائشیا کی معیشت بہت بہتر ہوگئی تھی، جس کا اظہار ملائشین پولیس آفیسرز کے طرزِعمل سے اکثر ہوتا رہتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ساؤتھ ایشینز سے برتر سمجھتے اور یورپینز سے کاندھے ملانےکی کوشش کرتے رہتے۔ پاکستانی افسروں سے وہ کسی حد تک حسد یا بغض رکھتے، کیوں کہ پاکستانی اُن سے جسمانی اعتبار سے بہتر شخصیات کے حامل تھے اور انگریزی زبان کی بھی بہترمہارت رکھتے تھے۔ شمالی ریجن میں ریجنل کمانڈر اسپین کا ڈی ایس پی اور ڈپٹی ریجنل کمانڈر (ایس پی رینک کا) ملائشین تھا۔
وہیں ہمارا کولیگ کلیم امام (جو اُس وقت نوجوان ایس پی تھا، بعد میں آئی جی بن کر ریٹائر ہوا) چیف آف آپریشنز تھا۔ ریجنل کمانڈرپلینو تو میری عزت کرتا تھا، مگرملائشین افسر نے ایک دو بارمجھے کچھ ہدایات دینے کی کوشش کی، تو مَیں نے جھٹک دیا کہ’’تم ایس پی اور مَیں ایس ایس پی ہوں۔ اپنے آپے میں رہو اور مجھ پرحُکم چلانے کی کوشش مت کرو۔‘‘ اِس پر اُس نے میری شکایت لگائی کہ ’’یہ پاکستانی افسرہماری بات نہیں مانتا۔‘‘ پھر ایک روز کلیم امام سے اُس کی ہاتھا پائی ہوگئی۔ پلینو نے بیچ بچاؤ کروادیا اورملائشین افسر کو وہاں سے تبدیل کردیا گیا۔ اُس کے کچھ عرصے بعد ملائشین افسر ہی کی شکایت پر ہیڈ کوارٹرز سے میرے لیےاحکامات آگئے کہ اسے پوسٹ کمانڈر بنا کر نمپولا سے دوسوکلومیٹر دور ایک ساحلی شہر ناکالا بھیج دیا جائے۔
ناکالا غالباً موزمبیق کا آخری شہر تھا۔ میری ٹیم میں ایک پاکستانی اے ایس پی، ایک ڈی ایس پی، دو (ایس پی رینک کے) بھارتی افسران اور دو ہنگری کے افسران شامل تھے۔ انڈین افسر پہلے پہل تو بڑی تابع داری کا مظاہرہ کرتے رہے، مگر کچھ عرصے بعد سازشوں میں مشغول ہوگئے۔ ہنگری کے افسران صاف دل تھے۔
ہمارے ڈی ایس پی، خان صاحب موسیقی کے شوقین اور بہت اچھی عادات کے مالک تھے۔ وہ اپنے ساتھ غلام علی کی غزلوں کی کیسٹس اورمَیں کتابوں کا ذخیرہ لایا ہوا تھا۔ دوپہر کو ہم غزلیں سُنتے اور رات کو مَیں اپنے کمرے میں مطالعے میں مصروف ہوجاتا۔ گھر میں کام کاج کےلیے انتہائی ارزاں نرخوں پرمرد یا خواتین مل جاتیں۔
خان صاحب کچن میں اپنی کُکنگ کے بھی جوہر دکھاتے تھے اور مَیں بھی اُن کا ہاتھ بٹاتا اور پھر ہم مل کر کچّے پکّے کھانوں سے پیٹ پوجا کرتے۔ مگر کب تک…؟ بالآخروہاں بھی ایک ریسٹورنٹ ہی میں امان ڈھونڈی، مگر زیادہ ترپھلوں، بسکٹس اور گَنّوں پر گزارہ کرنا پڑا۔ ناکالا میں ایک دو بار گھرسے اور ایک دوبار دوستوں کے خطوط موصول ہوئے، تو ایسے لگا، جیسے کوئی بہت بڑی نعمت حاصل ہوگئی ہے۔ پاکستان سے آئے ہوئے خطوط اور اخبارات کو ہم فوراً یا ایک دن میں ختم نہ کرتے، بلکہ راشننگ کرتےاور ایک صفحہ فی دن کے حساب سے پڑھتے تاکہ ایک اخبار سے دو تین ہفتے گزارے جاسکیں۔
کچھ عرصے بعد فون کی سہولت بھی میسر آگئی اور ہم ہفتہ دس دن بعد فون پر بھی گھر بات کرنے لگے۔ خان صاحب فون کرنےسے پہلے اہم امور اور پاکستان میں اپنے بیٹے کو دی جانے والی ہدایات کی فہرست بنالیا کرتے۔ ایک دن اُن کی فہرست پر میری نظر پڑی تو کچھ دیگر باتوں کے علاوہ ہدایت نمبر 3 اور 4 کے آگے بالترتیب’’مخانے‘‘ (مکھانے) اور ’’چِڑیاں‘‘ لکھا ہوا تھا۔
اگلے ہفتے ترجیحی لِسٹ میں ’’چِڑیاں‘‘ اوپر آگئیں اور ’’مخانے‘‘ نیچے چلے گئے۔ فون کرتے وقت میرے کمرے میں اُن کی آواز صاف سنائی دیتی تھی، جس سے چِڑیوں، مخانوں کا معمّا جلد حل ہوگیا۔ دراصل وہ گھروالوں کو ہربارتاکید کیا کرتے تھے کہ میری پروموشن رُکی ہوئی ہے، اس لیے آپ لوگ محلّے میں مخانے تقسیم کریں اورداتا صاحب جا کر کسی ریڑھی والے سے چِڑیاں خرید کرآزاد کریں تاکہ آزاد شدہ چِڑیوں کی دُعاؤں سے میری ترقّی بھی ہوجائے اور مجھے ضلعے کی کمان بھی مل جائے۔
مخانوں اور چڑیوں سے متعلق وہ بلاناغہ ہر ہفتے ہدایات دیتے رہے، لیکن لگتا ہے، اُس دَور کے آئی جی پنجاب کو چِڑیوں کی آزادی سے کچھ زیادہ دل چسپی نہیں تھی، اِسی لیے خان صاحب کی ہدایت پر آزاد ہونے والی سیکڑوں چڑیاں تو پرواز کرگئیں، مگرخان صاحب اگلے رینک تک پرواز نہ کرسکے۔ واپس جاکر خبر ملی کہ اُنہیں کچھ اہم لوگوں میں ’’مخانے‘‘ تقسیم کرنے پڑے، جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے اور وہ ایڈیشنل ایس پی، گجرات لگ گئے۔
ڈی ایس پی خان صاحب کوایک روز میں صبح زبردستی واک پر لے گیا، فربہی کی وجہ سے وہ بار بار رُکتے اور سانس درست کرتے رہے۔ واک کچھ زیادہ لمبی ہوگئی۔ واپس آکر مَیں نے پوچھا۔ ’’آپ یقیناً سیر سے لُطف اندوز ہوئے ہوں گے؟‘‘ مَیں نے انگریزی میں پوچھاتھا was it enjoyable?" '' کہنےلگے۔ ''It was horrible''(یہ خوف ناک تھی) ہم لوگ ناکالا زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور مجھے بیماری کی وجہ سے نمپولا آنا پڑا۔
ایک سرجری کے لیے چند روز مجھے یو این کے اسپتال میں داخل ہونا پڑا، جہاں بنگلا دیشی ڈاکٹرز نے بہت خیال رکھا۔ آخری دنوں میں نمپولا میں ہم چند پاکستانی پولیس افسر اکٹھے رہنے لگے، جس میں اعجاز شاہ (ایڈیشنل آئی جی بن کر ریٹائر ہوا)، شاہد حیات، سیف اللہ پراچہ، طارق یٰسین (ایڈیشنل آئی جی بنا) اور انعام غنی (آئی جی بنا) بھی شامل تھے۔ اعجاز شاہ جاگنگ کا بہت شوقین تھا اور کئی کئی گھنٹے دوڑتا رہتا تھا۔ مَیں نے کچھ دیر اُس کا ساتھ دینے کی کوشش کی، مگر اُس کا stamina بہت زیادہ تھا۔
یو این مِشن میں ہر دو مہینے کے بعد دو ہفتے کی چُھٹیاں ملتی ہیں۔ اُن چھٹیوں میں مُلک سے باہر بھی جایا جاسکتا ہے۔ ایک بارمَیں نے اپنے ساتھ ڈی ایس پی طاہرعالم کو (جو لاہور میں میرے ماتحت رہ چُکا تھا، بعد میں آئی جی اسلام آباد بھی رہا) تیار کیا اور ہم موزمبیق کے قریبی ممالک کی سیرپرنکل پڑے۔
ہم نے پروگرم اِس طرح بنایا کہ سب سے پہلے زمبابوے اور زیمبیا کی سرحد پر دریائے زمبیزی پر واقع دنیا کی سب سے گہری آب شارVictoria Falls دیکھنے جائیں گے، اُس کے بعد زمبابوے کے سفاری پارکس دیکھیں گے اور پھر سڑک کے ذریعے جنوبی افریقا پہنچ جائیں گے اور پریٹوریا اور جوہانسبرگ کی سیر کے بعد واپس لَوٹیں گے۔ ہمیں سینٹرل ریجن کے افسروں احسان باجوہ اور ڈاکٹر جمیل نے اپنی گاڑی پر زمبابوے کی سرحد پہ پہنچا دیا، جہاں سے ہم لفٹ لے کر مغرب کے وقت زمبابوے کے دارلحکومت ہرارے پہنچ گئے۔
وہاں پہنچ کر ایسالگا، جیسے ہم یورپ کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ رہوڈیشیا (زمبابوے) اور ساؤتھ افریقا (جوصدیوں تک انگریزوں کےقبضے میں رہے ہیں) تو بالکل یورپ ہی کی طرح لگتے تھے۔ وہاں سے ہم رات کو ٹرین پر بیٹھے اور علی الصباح بلاوائیو پہنچ گئے۔
سامان ریلوے اسٹیشن پر رکھ کر ہم شہرکی سیر کےلیے نکل کھڑے ہوئے، کیوں کہ وہاں سے وکٹوریا فالز کےلیے رات کو ٹرین چلتی ہے۔ ہم نے شہر کے کئی میوزیم اور بازار دیکھ ڈالے اور شام کو پھر ریلوے اسٹیشن آگئے۔ جہاں سے رات کو ٹرین پر بیٹھے اور علی الصباح وکٹوریا فالز پر جا پہنچے۔ اُدھر سورج طلوع ہورہا تھا اور اِدھر ہماری ٹرین وکٹوریا فالز کے خوب صُورت پلیٹ فارم میں داخل ہورہی تھی،بڑا ہی روح پرور نظارہ تھا۔ ریلوے اسٹیشن ہی پرہم نے غسل کیا اور وہیں سامان رکھا اور اسٹیشن سے باہرنکل آئے۔
خُوب صُورت ریستوران یورپی سیّاحوں سے چھلک رہے تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی اور گہری آب شارکو (نیاگرا فال کی شہرت زیادہ ہے، ورنہ گہرائی وکٹوریا آب شار کی زیادہ ہے) دیکھنے کے لیے دنیا کے مختلف مُلکوں سے ہزاروں کی تعداد میں سیاح پہنچے ہوئے تھے۔ ہم بھی ناشتا کرنے کے بعد آب شار کی جانب چل پڑے۔ ابھی ہم آب شار سے ایک کلومیٹر کے فاصلےہی پر تھے کہ پانی گرنے کا شور کانوں میں محسوس ہونے لگا اور اُس کی پھوار کپڑے گیلے کرنے لگی۔ بہرحال، ہم مختلف مقامات سے آب شار کی تصویریں بناتے رہے۔ بلاشبہ بڑا دل فریب نظارہ تھا۔
صدیوں پہلے قریبی بستیوں کے لوگ Smoke with Thunder کو محسوس تو کرتے تھے، مگر جس شخص نے 1855ء میں یہ آب شار دریافت کی، وہ اسکاٹ لینڈ کا باشندہ ڈیوڈ لوِنگ اسٹون تھا، جس کے نام سے مقامی ائیرپورٹ منسوب کیا گیا ہے۔ آب شار کا پانی واقعی بپھرے ہوئے طوفان کی طرح گرتا ہے اور اُس کی گرج دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ سارا دن آب شار پر گزارنے کےبعد شام کو ہم واپس وکٹوریا ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ ساری رات ٹرین کا سفر کرنے کے بعد علی الصباح بلاوائیو کے اسٹیشن پر اُترے۔
ہم نے وہاں سے سڑک کے راستے جنوبی افریقا جانے کا پروگرام بنایا رکھا تھا، چناں چہ وہاں سے ویگن میں سوار ہوئے اور نیلسن منڈیلا کے دیس ساؤتھ افریقا کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں کئی جگہوں پر سفاری پارکس آئے، جہاں شیر، ہاتھی اور زرافے کُھلے پِھر رہے تھے۔ یہ نظارہ بھی زندگی میں پہلی ہی بار دیکھنے کا موقع ملا۔ رات گئے ہم جنوبی افریقا کے دارالحکومت پریٹوریا پہنچے۔ ایک فروٹ شاپ سے دو بڑے بڑے پپیتے اور کچھ پائن ایپل خریدے اور اُن سے ڈنر کرنے کے بعد رات ایک ہوٹل میں گزاری۔
دوسرے روز ہم جوہانسبرگ پہنچ گئے۔ پریٹوریا اور جوہانسبرگ ہمارے پنڈی، اسلام آباد کی طرح جڑواں شہر ہیں۔ اس شہر کے بارے میں سُن رکھا تھا کہ سیاہ فاموں کے گروہ یو این مشن کےافسران کو پہچان کے خُوب لوٹ مار کرتے ہیں۔ ایک سکھ افسر نے حال ہی میں اپنی بِپتا سُنائی تھی کہ ہم بھارت کے 14افسر حفاظتی نقطۂ نظرسے ہر جگہ اکٹھے جاتے تھے، مگر ایک بار جوہانسبرگ میں ہمیں 20 سیاہ فاموں نے گھیر لیا۔ ہم میں سے چار پانچ بھاگ گئے، جو رہ گئے، اُن سے سوائے پتلونوں کے، ہر چیز چھین لی گئی۔
مَیں اورطاہرعالم بہت محتاط تھے۔ ہمارا بھی ایک دو بار پیچھا کیا گیا، مگر ہم حملہ آوروں کے تیور دیکھ کر راستہ تبدیل کرتے رہے، اس لیے بحفاظت بچ نکلے۔ جوہانسبرگ پر سیاہ فاموں کا قبضہ تھا، مگر پریٹوریا میں آزادی کے باوجود گورے اکثریت میں نظر آتے تھے۔ بڑے اداروں، بینکوں اور کاروباری مراکز کا کنٹرول مکمل طور پر انگریزوں کے پاس تھا۔
کئی جگہوں پر گوروں سے گپ شپ کا موقع ملا، جس میں وہ سیاہ فاموں سے اپنی نفرت کا کُھلم کھلا اظہار کرتے رہے۔ وہ صاف کہتے تھے کہ مُلک چلانا مقامی لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ برطانیہ کا وزیرِاعظم چرچل بھی یہی کہا کرتا تھا کہ ہندوستان کے باشندے اِس قابل نہیں کہ انہیں آزادی دی جائے۔ بہرحال، ہم کافی سیر و سیاحت کے بعد جوہانسبرگ سے بس پر بیٹھ کر واپس موزمبیق پہنچ گئے۔
سینٹرل ریجن کے ریجنل کمانڈر ایک پاکستانی پولیس آفیسر سلمان سیّد (جو بعد میں سندھ میں ایڈیشنل آئی جی رہے) تھے، جنہوں نے آخری ہفتوں میں مجھے سینٹرل ریجن میں بُلالیا۔ وہاں میری رہائش ساحلِ سمندر پرواقع ایک ہوٹل میں تھی۔ مَیں ہر روز ساحل پر لمبی واک کیا کرتا۔
موسم بہت شان دار تھا، لہٰذا سیربڑی ہی پُرلطف ہوتی تھی۔ وہیں ہم نے 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی منانے کا پروگرام بنایا۔ بڑا شان دار پروگرام ترتیب دیا گیا، جسے کام یاب بنانے کے لیے تمام پاکستانی پولیس افسروں نے حصّہ ڈالا۔ بیس کے قریب مُلکوں کے پولیس افسروں نے ہماری تقریب میں شرکت کی، اسٹیج سیکریٹری کی ذمّےداری مجھے سونپی گئی۔
مَیں نے مختصر الفاظ میں قیامِ پاکسان کی ضروت و اہمیت اجاگر کی اور علامہ اقبال اور قائدِاعظم کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ ملک سعد (سابق سی سی پی او پشاور)، ڈاکٹر سلیمان (سابق ڈی جی آئی بی) اور صلاح الدین (سابق آئی جی کے پی) سمیت تمام پاکستانی افسروں نے گیت، نغمات اور علاقائی رقص پیش کیے، جن میں دوسرے مُلکوں کے افسران بھی شامل ہوگئے۔
پاکستانی کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی، آدھی رات تک خوب ہلّا گُلا رہا۔ کچھ پاکستانی افسر زور دیتے رہے کہ غیرمُلکیوں کو اُن کے مرغوب مشروب بھی سرو کیے جائیں، مگر مَیں نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ ہمیں کسی احساسِ کم تری کا شکار ہوئے بغیر اپنی تہذیب و اقدار پر قائم رہنا چاہیے۔
افریقا میں رہتے ہوئے پانچ ماہ ہوچُکے تھے۔ مَیں اب دیارِغیر سے تنگ آگیا تھا اور مِشن ختم ہونے کے دِن گن رہا تھا۔ ہم میں سے کچھ لوگ مشن کی طوالت کے خواہش مند تھے، مگر مَیں فوری طور پر وطن واپس پہنچنا چاہتا تھا، بالآخر چھے ماہ بعد ہی واپسی کا وقت آن پہنچا اور مَیں نے اللہ کا شُکر ادا کیا۔ تمام پاکستانی افسر ایک ہی جہاز میں سوار ہوکر کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ مَیں کراچی سے دوسری پرواز لےکر اسلام آباد پہنچا اور وطنِ عزیز کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سجدۂ شُکر ادا کیا۔ (جاری ہے)