آرزو لکھنوی نے کہا تھا؎’’آرزوؔ ڈوب کر جب تھاہ لگاؤ تو کُھلے…اُتھلی ندّی میں نہ ہونے پہ ہے کتنا پانی۔‘‘ تھاہ (دریا، سمندر یا کنوے کی تہہ، عُمق، گہرائی، فرہنگِ آصفیہ)، اُتھلی(جو گہری نہ ہو۔ گہرا کا نقیض[متضاد]از فرہنگِ آصفیہ) ندی یا ندّی(چھوٹا دریا، بہتا ہوا پانی، از فرہنگِ آصفیہ)۔شعر کا مفہوم یہ ہے’’ ناسمجھ افراد ندی کی گہرائی کو کم گہرا تصوّر کرتے ہوئے اُس کے اندر اُتر جاتے ہیں، تاہم اُنہیں اندر پہنچتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ ندی میں پانی ہی پانی ہے۔‘‘
سماجی ربط یا سوشل میڈیا پر انحصار کرنے والوں ہی پر کیا موقوف، ادبی دنیا کے ہزارہا باشندگان میں سے بھی زیادہ تر جونؔ کو اُتھلی ندّی گمان کرتے ہیں، تاہم تھاہ لگانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ویسے ہی چند پیراک کسی گُمان کے بغیر اقرار کرتے ہیں کہ بظاہر دِکھائی دینے والی ’’اُتھلی ندی‘‘ کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں، شاید ناممکن ہے۔ خالد احمد انصاری، جنہیں جونؔ کی مصاحبت کے شاید آخری چند برس حاصل ہوئے، اُن ہی معدودے چند افراد میں شامل ہیں۔ منتشر، منقسم، مضمحل جونؔ کے جسمانی و تحریری وجود کی نگہہ بانی، وہ بھی جاں فشانی کی آخری حد تک، خالد احمد انصاری جیسے تھاہ لگانے والے غوّاص ہی سے ممکن تھی۔
یہ ساری تمہید دراصل جونؔ ایلیا کے تازہ ترین شعری مجموعے ’’کیوں‘‘ کے سلسلے میں باندھی گئی ہے۔ جونؔ ادب پسندوں، شعر فہموں اور علم پروروں میں اپنے طرزِ سُخن کے باعث محبوبیت کی منزل تک تو پہنچ ہی چُکے ہیں، تاہم سوشل میڈیا کے توسّط سے فی الوقت وہ نوجوان نسل میں جنون کی حد تک پسند کیے جا رہے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب سے پیش تر صاحبِ کتاب پر کچھ گفتگو کر لی جائے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ جونؔ کس سطح کے شاعر ہیں۔
برّصغیر پا ک وہند کے شعری و ادبی اُفق پر گزشتہ کئی برسوں سے راج کرنے والے جونؔ کا خاندانی پس منظر مضبوط علمی بنیاد پر آباد ہے۔پَردادا، سیّد امیر حسن، دادا، سیّد نصیر حسن، والد، سیّد شفیق حسن ایلیا سب کے سب شعر و سُخن کے دل دادہ ٹھہرے۔ والد، شفیق حسن ایلیا کئی علوم پر حاوی تھے۔ علمِ ہیئت سے خاص لگاؤ تھا۔ برٹرینڈر رسل سے مواصلت رکھتے۔گھر کی فضا میں شعر و سُخن کے علاوہ ستاروں اور سیّاروں کی باتیں ہوا کرتیں۔1931ء میں پیدا ہونے والے جونؔ کی فکری اُٹھان کی یہ ابتدا تھی۔اپنے بابا سے اکتسابِ علم کا سلسلہ جاری رہا۔
عربی و فارسی میں مہارت کے علاوہ فلسفہ جونؔ کا محبوب مضمون قرار پایا۔امروہا کی’’ سیّد المدارس‘‘ وہ درس گاہ تھی، جہاں سے عربی، فارسی، صرف و نحو اور دیگر مضامین کی تکمیل کی۔ عُمر کی اکیسویں منزل تھی کہ جونؔ نے فلسفے کے موضوع پر ایک کتاب مرتّب کی، جو تین حصّوں پر مشتمل تھی۔حصّہ اوّل مشہور فلسفی، فارابی کے ایک رسالے کا ترجمہ تھا۔ حکیم ابو نصر فارابی مسلمان فلسفیوں میں اپنے وقت کا ارسطو قرار دیا جاتا تھا۔ فاراب کے رہنے والے اس بے مثل حکیم کو’’ مُعلّمِ ثانی‘‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
دوسرا حصّہ یونان کے سات فلسفیوں کے افکار و نظریات کی تشریح سے متعلق تھا۔ کتاب کا تیسرا اور آخری حصّہ فلسفے کی اہمیت سے متعلق تھا۔ کتاب کا عنوان’’سابقات‘‘ تھا۔ یونانی فلاسفرز کے گہرے مطالعے کے ساتھ جونؔ برطانوی، اسکاٹش، جرمن اور عرب فلسفہ دانوں کے افکار و خیالات کے عمیق مطالعے کے عادی تو تھے ہی، ہندوستانی دانش وَروں کے نظریات سے بھی غافل نہیں تھے۔ 1942ء میں پروفیسر اعجاز حسین کی کتاب’’نئے ادبی رجحانات‘‘ نے برّصغیر کی ادبی فضا پر کافی اثرات مرتّب کیے۔ جونؔ نے بھی کتاب سے اکتساب کیا۔
فلسفے کے دقیق اور خشک موضوع کے علاوہ جونؔ کو ڈراما بہت بھاتا۔ تقسیم سے کئی برس قبل’’بزمِ حق نُما‘‘ کے نام سے جونؔ نے ایک ڈراما کلب بھی قائم کیا، جس نے امروہے کے قُرب و جوار میں خاصی مقبولیت حاصل کی۔ ڈرامے کے موضوعات اسلامی تاریخ سے تعلق رکھتے۔ جونؔ ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کرتے۔خود جونؔ نے بھی’’خونی خنجر‘‘ کے عنوان سے ڈراما تحریر کیا۔ یہ ساری ہنگامہ خیزیاں 1943ء سے 1946ء تک جاری رہیں۔
تقسیمِ ہند کے ہنگام یہ کلب بھی بند ہوا، تاہم جونؔ کی ڈراموں سے اُلفت تاعُمر برقرار رہی۔ براہِ راست والد سے اکتساب کے علاوہ جونؔ کے معلّمِ اوّل و معلّمِ ثانی اُن کے عدیم النظیر برادرانِ بزرگ، رئیس امروہوی اور سیّد محمّد تقی تھے۔اوّل الذکر قطعہ نگاری کے بے تاج بادشاہ اور ثانی الذکر فلسفہ و علم و دانش کا تاج سر پر سجائے رکھنے والے صاحبانِ باکمال تھے۔
جونؔ کے تیسرے بھائی، سیّد محمّد عبّاس تقسیمِ ہند سے قبل کامریڈ تھے۔ چار بھائیوں میں جونؔ سب سے چھوٹے تھے۔جونؔ نے اپنے والد کے علاوہ تینوں بھائیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔رئیس اور تقی کے بے شمار موضوعات میں سے چند فلسفہ، تاریخ، مذہب، ادب، وجودِ خداوندی، وجودِ انسانی، عقل، حواس، زندگی، سماجی اونچ نیچ تھے۔ رئیس کے قطعات اور اشعار، جب کہ سیّد محمّد تقی کی بے مثل کتاب’’ تاریخ اور کائنات:میرا نظریہ‘‘اس کی واضح توثیق ہیں۔1957ء میں جونؔ پاکستان چلے آئے اور یوں اُن کی یک سر نئی ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔
شاعری کے ساتھ نثر اور صحافتی اُمور بھی اُن کی جولانیٔ طبع کا مرکز بنے۔ ادبی پرچے کی اشاعت کی۔ مشاعروں میں شرکت کا آغاز ہوا۔ گویا سماجیات کا ایک نیا اور بھرپور سلسلہ شروع ہو چلا۔اُردو اصنافِ شعری میں رُباعی مشکل ترین صنف قرار دی جاتی ہے۔ مخصوص بحر اور اوزان میں کہی جانے والی یہ صنف مشّاق شعراء ہی کی طبع آزمائی کا موضوع قرار پاتی ہے۔ ربع یعنی چار مصرعوں پر مشتمل اِس صنف کی جان رباعی کا چوتھا مصرع قرار دیا جاتا ہے۔
ساٹھ کے آخر اور ستّر کے اوائل عشرے میں روزنامہ جنگ کے ادبی صفحات کی نگرانی ادیبانہ اُپج، شاعرانہ ترنگ اور مُدیرانہ بصیرت نگہی رکھنے والی، سلطانہ مہر کے سُپرد تھی۔ اخبار کے اُس زمانے کے ادبی صفحات گونا گوں دل چسپیوں سے عبارت تھے۔ مُدیرہ نے جونؔ ایلیا پر گفتگو کرتے اُن کا خاندانی پس منظر کا اُجاگر کرتے ہوئے چار بھائیوں کی مناسبت سے جونؔ کو’’ رباعی کا چوتھا اور چُست مصرع‘‘ تحریر کیا۔
کتاب کے مرتّب کنندہ ، خالد انصاری کے مضمون’’جونؔ کرو گے کب تلک‘‘ سے ایک جملہ مستعار لیا جاتا ہے۔’’ اس تاخیر (زیرِ نظر کتاب کی اشاعت)کے بہت سے اسباب ہیں۔ سرِ فہرست سوشل میڈیا کا وہ ڈرامائی کردار ہے، جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ جونؔ یکایک ایسے چھائے کہ بڑے بڑے نام اُن کے سامنے دھندلا گئے۔‘‘خالد انصاری کی بات ہرگز بے وزن نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ پرنٹ میڈیا( موزونیت کے اعتبار سے مضبوط ترین) اور الیکٹرانک میڈیا (مضبوط تر)کے مقابلے میں سرحدی حد بندیوں سے ماورا سوشل میڈیا (مضبوط) لوگوں تک فوری رسائی اور اثر آفرینی کے اعتبار سے بدرجہا آگے ہے۔
تاہم، اس پر پیش کیے جانے والے متن اور اُس سے محظوظ ہونے والے ناظرین کی ذہنی ناپختگی ایک بڑا سوالیہ نشان قائم کرتی ہے۔ سطورِ بالا میں تحریر کیا جا چکا کہ جونؔ عنفوانِ شباب میں ڈراموں کے اس حد تک دل دادہ رہے کہ ڈراما کلب بھی قائم کیا۔ اگرچہ وقت نے اُن سے وہ صنف چھین لی،تاہم جونؔ نے اُس صنف کو اپنی شخصیت سے جدا نہ ہونے دیا۔
مشاعرہ پڑھنے کے دوران اُنہوں نے اپنی فن کارانہ اور اداکارانہ صلاحیتوں کا خُوب خُوب اظہار کیا۔ لوگ شاعری سے تو محظوظ ہوتے ہی، جونؔ کی اداکاری بھی اُنہیں خوب بھاتی۔ شعر پڑھتے پڑھتے کبھی کبھار حاضرین و سامعین کی طرف پُشت کر کے بیٹھ جانا، اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ جونؔ کے اندر موجود اداکار، اظہار کی تلاش میں رہتا تھا۔
تاہم، شاعر جونؔ، ہر حال میں اداکار جونؔ پر غالب رہا۔ سوشل میڈیا کی دیوانی ذہنی ناپختگان کی بڑی تعداد جونؔ کو کلام سے زیادہ اُن کی حرکات و سکنات کے آئینے میں دیکھنے، جاننے اور پسند کرنے لگی، تاہم کلام پسندوں کی تعداد بھی کم نہ رہی۔ اور یوں بہ قول خالد انصاری’’جونؔ یکایک ایسے چھائے کہ بڑے بڑے نام اُن کے سامنے دھندلا گئے۔‘‘
جونؔ کی اوّلین کتاب’’ شاید‘‘ 1989ء میں شائع ہوئی۔ جس وقت کتاب کی اشاعت ہوئی، تو جونؔ عُمر کی پانچویں دہائی مکمّل کر کے چھٹی میں قدم رکھ رہے تھے۔ مجموعے کی اشاعت میں تاخیر کے جو بھی اسباب رہے ہوں،’’ شاید‘‘ نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ شاعری تو تھی ہی سِحر کار، ’’نیاز مندانہ‘‘ کے عنوان سے جونؔ کے مقدّمے نے مجموعے کو چار چاند لگا دیے۔ ’’شاید‘‘ واحد مجموعہ تھا، جو اُن کی زندگی میں شائع ہو پایا۔ بعد کے تمام مجموعے’’یعنی‘‘،’’گمان‘‘،’’لیکن‘‘،’’گویا‘‘ اور زیرِ نظر’’ کیوں‘‘ اُن کی زندگی کے بعد سامنے آئے ہیں۔
فضل الرحمان ملک، (1919-1988)فضل الرحمان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یونی ورسٹی آف شکاگو کی ویب سائٹ اُن کے بارے میں اطلاع دیتی ہے: ’’فضل الرحمان یونی ورسٹی آف شکاگو میں Harold H. Swift Distinguished Service Professor of Islamic Thought تھے۔ اُنہوں نے Durham University, McGill University, اورUCLA میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔‘‘پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے (عربی) اور آکسفورڈ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے فضل الرحمان کی کئی تصانیف ہیں اور اہم ترین 1958ء میں سامنے آنے والی’’ Prophecy in Islam‘‘ ہے۔
وہ اپنی کتاب میں شاعری اور پیش گوئی یا انکشاف کو جڑواں بہنیں قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں حقیقت سے اِتنی قریب ہیں کہ اُس کی ترجمان قرار دی جا سکتی ہیں کہ عام آدمی براہِ راست اُن کا ادراک نہیں کر سکتا۔‘‘ جونؔ کی شاعری انکشافِ ذات سے انکشافِ کائنات کا ایک لامتناہی سفر ہے۔ جونؔ کا کمال فلسفے کے اَدَق اور عمیق موضوعات کے سنجیدہ مطالعے کے باوجود اپنی شاعری کو بوجھل پن سے کوسوں دُور رکھنا اور اُسے سطحِ عمومی سے بلند نہ ہونے دینا ہے۔
’’کیوں‘‘ دراصل سوال کو ظاہر کرتا ہے، سوال جستجو کو اور جستجو جہل سے دُور، علم سے قریب تر کرتی ہے۔ جونؔ کی زندگی’’کیوں‘‘ کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یہی نہیں،’’شاید‘‘،’’یعنی‘‘،’’گمان‘‘،’’لیکن‘‘،’’گویا‘‘ کسی نامعلوم کی دریافت میں سرگرداں ہیں۔ جونؔ کہتے ہیں؎’’پاس اپنا ہی نہیں، ہوتا بھی کیوں…مَیں تو بس تھا ہی نہیں، ہوتا بھی کیوں؟‘‘’’کیوں‘‘ کے مطالعے سے شعری مجموعے کے مرکزی موضوعات کچھ یوں سامنے آتے ہیں۔
وجودِ خداوندی: اِس ایک مضمون کی ذیل میں کئی ذیلی موضوعات خود بخود در آئے ہیں۔یہ موضوع اکابر شعراء کا تو ضرور رہا کہ جنہیں فلسفیانہ مباحث سے دل چسپی رہی،تاہم براہِ راست ایسے موضوعات سے گریزاں شاعروں کے یہاں بھی اس کی جھلک ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر احسان دانش کا شعر دیکھیے؎کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے…جب سوچنا پڑتا ہے، خدا ہے کہ نہیں ہے۔‘‘(میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، جوشؔ کی شاعری سے مثالیں پیش کرنے سے قصداً گُریز کیا ہے)۔
جونؔ اس عنوان سے کچھ یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں؎’’وہ جو کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہ تھا کبھی… پھر مجھ سے رات اُس کا پتا لے گیا ہے کون۔‘‘’’اے خدا، اے مرے گمانِ گماں…تو خدائی نہ کیجیو مجھ سے۔‘‘بود و نبود: ؎’’یا ایک حشرِ بود ہو یا پھر نبود ہو… یہ اس سُخن کے بیچ سے یا لے گیا ہے کون۔‘‘ بے باکی:؎’’اب میں ہوں اِک مردِ برہنہ، اور برہنہ گو بھی ہوں… ایک زمانہ تھا جب مجھ کو پردہ اچھا لگتا تھا۔‘‘کہہ جانا،نہ کہہ پانا: ؎’’آپ سُنتے جائیے، بس جو بھی کہتا جاؤں میں… مدّعا یہ ہے کہ میرا مدّعا کچھ اور ہے۔تاریخ: ؎’’جو کرخ میں لگی ہے بُجھے گی نہ اب وہ آگ…بغداد شہر! ہے تری قسمت بہت خراب۔‘‘حُزن و ملال:؎’’تھا وہ سر پاؤں تلک زخموں سے چُور… آدمی جی دار تھا، پھر کیا ہوا۔‘‘ تنہائی: ؎’’ہے کوئی یار کسی کا نہ غم گُسار میاں … بقا بھی سب کی ہے ذاتی، فنا بھی ذاتی ہے۔‘‘’’ اب ہے یہ زندگی بہت مشکل … اب تو کوئی بھی آسرا نہ رہا۔‘‘صنفِ نازک:( اس موضوع سے متّصل حُسن و جمال، ہجرو وصال، آسودگی و نا آسودگی،خوش قامتی و زیبائی،دل کشی و رعنائی مسلسل اظہار کا موضوع ہیں)غزل سے یہ شعر دیکھ لیجیے:؎
’’تمہیں خوش بُو کی کیا ضرورت ہے… جان! اتنی مہک رہی تو ہو۔‘‘’’ہائے لکنت وہ اُس کے لہجے کی… اُس’’ اگر‘‘ میں ’’مگر‘‘ میں کیا کچھ تھا۔‘‘ تعلّی: اِس دل چسپ عنوان سے جونؔ کے دو شعر دیکھیے۔؎’’میرؔ کے خاندانِ معنی کا…جونؔ ہی اک جوان باقی ہے۔‘‘’’بِن تمہارے رہا نہیں کچھ بھی…یعنی مَیں جونؔ ایلیا نہ رہا۔‘‘’’آخری بار جائزہ لے کر… صُورتِ حال جان لی جائے…نہ ملے گا مثالیہ اپنا… جونؔ! اب ہار مان لی جائے۔‘‘ تشکیک:؎ ’’جانے ہم لوگ کون تھے، کب تھے…بس یوں ہی سا گمان باقی ہے۔‘‘رندی وکیفیاتِ رندی: ؎’’دوستو! زہرِ ہلاہل ہے مئے ناب تو پھر…زہر پینے میں کوئی عار نہیں اور پیو۔‘‘رائیگاں جانے کا احساس: ؎اتنے ارزاں ہوئے کہ پھر ہم نے…یہی سوچا کہ رائیگاں جائیں۔‘‘’’اب تلک زندگی میں کیا پایا…کیا نئی زندگی کی تیاری۔‘‘
بے چینی و بے قراری: ؎’’دل کو ہے شوق اُس کے پہلو کا…مگر اُس کے پہلو میں بہلتا بھی نہیں۔‘‘مزید موضوعات بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔’’تین چوروں کا مال ٹھہرا ہے… اپنا ہندوستاں میاں، جی میاں…آئے ہیں اپنی جنم بھومی میں…ہم رہیں گے کسی کے گھر کیسے۔‘‘یہ اشعار شاید اُس وقت کی یادگار ہوں گے، جب یا تو جونؔ ہندوستان ہی میں اقامت گزیں ہوں گے یا شاید ہندوستان کے سفر کے دوران کہے ہوں گے۔ مرتّب کی طرف سے حاشیے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
جونؔ نے اپنی جدّتِ طبع کے عین مطابق کچھ الفاظ وضع کیے ہیں، جو’’ کیوں‘‘ کے مطالعے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ مثال ملاحظہ کیجیے۔ دل رُبایا:؎’’ یہ مشورہ ہے مرا…دل رُبائی نہ کیجیو مجھ سے۔‘‘جونؔ نئی تراکیب بھی وضع کرتے ہیں اور’’کربلا ساز‘‘ شاید ایک ایسی ہی ترکیب ہے۔ اس کے علاوہ بھی تراکیب پیش کی جا سکتی ہیں۔
جونؔ کی یہ غزل توجّہ چاہتی ہے۔؎’’کیسے بھلا کہیں کہ ہیں منظرِ آتشینِ جاں…سمتِ زبرجدینِ دل سمتِ زمرّدینِ جاں۔‘‘’’ کیوں‘‘ کی ابتدا غزل کے جس شعر سے ہوتی ہے، اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔؎تاریخِ روزگارِ فنا لکھ رہا ہوں مَیں … دیباچۂ وجود پہ لا لکھ رہا ہوں مَیں۔‘‘سوال یہ ہے کہ جونؔ ’’تاریخِ روزگارِ بقا‘‘ کیوں نہیں لکھ رہے۔ جونؔ کا مصرع یوں کیوں نہیں رہا’’انسان کے وجود‘‘ پہ لا لکھ رہا ہوں میں۔‘‘’’ دیباچۂ وجود‘‘ کی ترکیب کیوں استعمال کی گئی؟جواب یہ ہے کہ عام شاعر تو شاید ایسا ہی لکھتا۔جونؔ’’انسان کے وجود پہ لا لکھ رہا ہوں مَیں‘‘ لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔
مضبوط علمی پسِ منظر رکھنے والا اور فلسفے و منطق کی دنیا میں وقت گزارنے والا، جب وجودِ انسانی پہ نظر ڈالتا ہے، تو اُس کے ذہن میں متضاد خیالات جنم لیتے ہیں۔ وہ ردّ و قبول کے احساسات کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ اُس کی کیفیت استفہامیہ، سوالیہ، اقراریہ، انکاریہ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ کیفیات عمومیت نہیں، خصوصیت کے دائرے میں رہتی ہیں۔ مسلسل تفکّر، تجسّس، تعمّق اُس کی زندگی کا حصّہ بن جاتی ہیں۔
یوں وہ زندگی کے ہر ہر موڑ پر اپنے سامنے’’کیوں‘‘موجود پاتا ہے۔’’تاریخِ روزگارِ فنا لکھ رہا ہوں مَیں‘‘کا مصرع صاف گواہی دے رہا ہے کہ بقا سے گُریزاں جونؔ کو فنا سے لگاؤ ہے۔بقا صُبِح حیات تو فنا شامِ زندگی۔ بقا اُمید کی کرن، تو فنا نااُمیدی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ بقا جدوجہد کی علامت، تو فنا آثارِ قیامت۔گویا، جونؔ تمام تر مثبت علامات کو قصداً ترک کرتے ہوئے یک سر منفی احساسات کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جانا چاہتے ہیں۔
اب مصرعۂ ثانی پر آئیے کہ جس میں وہ’’ وجود‘‘ نہیں بلکہ’’دیباچۂ وجود‘‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔’’دیباچہ‘‘ دراصل کسی کتاب کے مقدّمے یا مضمون کی تمہیدی سطروں کو کہا جاتا ہے۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ جونؔ انسانی وجود کو کامل تصوّر نہیں کرتے۔’’شمع‘‘کو ایک وجود یا جسم مانا جا سکتا ہے، تاہم اُس وجود کا آغاز تب ہو گا، جب اُس میں روح آئے گی۔ شمع کی’’روح‘‘ اُس کو حرارت پہنچانا ہے۔ ہم اُسے جلا کر روشن کریں گے، تو اُس کی زندگی کا آغاز ہو گا۔ گویا جلنا اُس کی زندگی ہے۔
تاہم، یہ جلنے کا عمل شروع ہوتے ہی وہ ’’اختتام‘‘ کی جانب بڑھنا شروع کر دیتی ہے۔ بالکل یہی انسانی زندگی ہے۔ جسم اور روح سے مُرکّب۔ آغاز ہی سے انجام کی جانب گام زن۔ گویا تعمیر میں خرابی مضمر ہونے کی علامات کا ظہور۔ یعنی ’’وجود‘‘ اب’’دیباچۂ وجود‘‘ میں ڈھل چُکا ہے۔ اب اگر کسی وجود میں نقص مان لیا جائے، تو لامحالہ اُس کے لیے ردّو قبول کی منزل پر جاتے ہوئے قبولیت کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ لہٰذا جونؔ نے’’ لا‘‘ یعنی انکار کرتے ہوئے کہہ دیا:’’ دیباچۂ وجود پہ لا لکھ رہا ہوں میں۔‘‘
فکری اور فلسفیانہ شاعری کے لازوال شعراء میں سے ایک، علاّمہ اقبال کی زبان پر ہمیشہ علیؓ کا نام رہتا تھا۔ اُنہوں نے اس کی وجہ بھی بتائی تھی۔ کہتے ہیں؎ ’’ہمیشہ وردِ زباں ہے علیؓ کا نام اقبالؔ… کہ پیاس رُوح کی بُجھتی ہے اس نگینے سے۔‘‘رُوح کی پیاس بجھانے والے اس نگینے کی شہرۂ آفاق کتاب’’ نہج البلاغہ‘‘ میں کائنات کے اَسرار و رُموز سے کچھ آگہی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ایک خطبے میں انسان کو’’عالمِ صغیر‘‘ کہا گیا ہے۔ جونؔ سیرگاہِ عالم کے شائق ہیں۔
سو’’عالمِ صغیر‘‘ سے’’عالمِ کبیر‘‘ میں جانے آنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ اس سیرگاہِ ’’دو عالم‘‘ کے دوران ہونے والے احساسات و تجربات کا بیان کرنے میں تکلّف سے کام لینا جونؔ کو قطعاً اچھا نہیں لگتا۔’’ کیوں‘‘ کی ابتدا کا اوّلین شعر اِس حقیقت کا غمّاز ہے کہ جونؔ اظہار کی منزلوں میں انسانی زندگی یا خود اپنی زندگی کی نفی کرنے کے عمل میں کسی طرح کا پردہ رکھنے کے قائل نہیں۔’’کیوں‘‘ کی ابتدا میں جونؔ نے اپنی فکر کو انسانی وجودیت کے اعتبار سے دُہرایا ہے یا اُس کی تکرار کی ہے۔
گویا برسوں کی فکری مسافت کے باوجود جونؔ وجود نہیں بلکہ’’دیباچۂ وجود‘‘ کے قائل ہو پائے۔ قبل ازیں بھی وہ یہی بات مختلف انداز سے بیان کر چُکے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔؎’’جو گزاری نہ جا سکی ہم سے… ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔‘‘ ’’مَیں بھی بہت عجیب ہوں اِتنا عجیب ہوں کہ بس… خود کو تباہ کر لیا اور ملال تک نہیں۔‘‘
کچھ الفاظ اور لہجے جونؔ کے گھرانے کی پہچان ہیں۔ مثلاً ’’زاد‘‘یا ’’ زادہ‘‘۔ اسے برادرانِ جونؔ بشمول جونؔ استعمال کرتے ہیں۔ دیکھیے رئیس کا قطع؎ ’’رئیسؔ آئیں بھلا کیا یاد دشمن…کہ اپنوں میں ہیں لاتعداد دشمن…مری ہستی دلیلِ نیستی ہے… مَیں خود اپنا ہوں مادر زاد دشمن۔‘‘’’سُنائے ایلیا زادہ غزل کیا…اسے سقراطِ معنی چاہیے ہے۔‘‘(جونؔ:کیوں)۔ رکھیو، جائیو (لہجہ):؎ ہمیں اے مہ وشو! سب یاد دکھیو… ہیں بے مطلب سو مطلب یاد رکھیو‘‘(جونؔ:کیوں)۔بَن، عفریت، ہیولا، مرغولہ، آدم زاد، وہ الفاظ ہیں، جو اُن کے خاندان کا مشترکہ اثاثہ معلوم ہوتے ہیں۔تلاش کیا جائے، تو رئیس، تقی اور جونؔ کے یہاں ایسے بہت سے الفاظ ہماری راہ تک رہے ہوں گے۔
کتاب کا سرِ ورق اور پسِ سرِ ورق ایک دوسرے میں پیوست دِکھائی دیتے ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ شاعر اسرارِ کائنات کی گُتھیوں کو سُلجھانے کی اُدھیڑ بن میں مبتلا ہے۔ گویا وہ اپنے سامنے ایک کائنات نہیں بلکہ’’کیوں‘‘ کو موجود پا رہا ہے۔
اِسی طرح اندرونی سرِ ورق بھی ایک ایسی دنیا کی طرف توجّہ دلاتا ہے کہ جہاں ایک شاعر اپنے گھر کے اندر کتابوں کی سنگت اور ہم رہی میں محوِ شعر و سُخن ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ کتاب معنوی طور پر تو متاثر کرتی ہی ہے، صُوری پیش کش کے اعتبار سے بھی لاجواب ہے۔
خالد انصاری کی دنیا، جونؔ کے بِنا ادھوری ہے۔ وہ اپنے آپ کو جونؔ سے کبھی دُور نہیں ہونے دیتے۔جونؔ کو کبھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ازراہِ اتفاق اگر ایسا ہو بھی جائے، تو ازراہِ التفات وہ جونؔ کو صدا لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر خالد انصاری شاعر ہوتے اور جونؔ اُن سے دُور ہونے کی کوشش کرتے، تو وہ شاید جونؔ کو یوں یاد کرتے۔’’تجھ کو اندھیری شب کا دیا لکھ رہا ہوں مَیں…دیباچۂ وجود پہ’’آ‘‘ لکھ رہا ہوں مَیں۔‘‘خ
الد باتیں بھی اچھی کرتے ہیں اور کام بھی۔’’کیوں‘‘ میں’’جونؔ کرو گے کب تلک…‘‘ کے عنوان سے اُنہوں نے اپنی خُوب صُورت تحریر کے اختتام پر کیا اچھی بات لکھی ہے:’’ اس انتخاب کے بعد ایک مجموعے کے بہ قدر کچھ کلام ابھی میرے پاس موجود ہے۔ سوچا ہے،اسے آنے والی کُلّیات’’کُن‘‘ میں باقیات کی حیثیت سے شامل کر کے اپنے حصّے کا بچا کُھچا کام مکمّل کر دوں۔‘‘
میدانِ کارزار میں اپنے لشکر کا عَلَم سر بلند رکھنے کے لیے مضبوط ہاتھوں اور شانوں والے طاقت وَر اور جاں باز سپاہی منتخب کیے جاتے ہیں، جو عَلَم کو سرنِگوں نہیں ہونے دیتے۔ تاہم، ادبی و علمی میدانِ کارزار میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں مضبوط ہاتھ اور شانہ کام نہیں آتا، صرف توانا ذہن درکار ہوتا ہے۔فی زمانہ ادبی و علمی دنیا کا عَلَم امروہے کی زرخیز زمین پر جنم لینے والے نحیف و نزار بدن اور ناتواں کاندھوں کے مالک، شاداب فکر جونؔ ایلیا نے سر بلند کیا ہے۔ یقین ہے کہ یہ عَلَم کبھی سر نِگوں نہیں ہو سکتا۔