• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم، زندہ دلانِ لاہور کی علم و ادب سے وابستہ لکھاری خواتین کے ساتھ، مُلک کے متعدد خُوب صُورت و پُرفضا مقامات کی سیّاحت کرچکے۔ اس بار گروپ کی تمام لکھاری خواتین سے باہمی مشورے کے بعد بلھے شاہ کی نگری، یعنی سوہنے شہر، قصورکی سیّاحت کا قصد کیا۔ 

ہم، 25جنوری 2025ء کی روشن صبح 9بجے قصور کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں ہماری ادبی سہیلیاں ، شاہین اشرف رضوی، صائمہ امر صبیح ، زرقا فاطمہ، ریحانہ عثمانی ، بنت قمر مفتی، ماریہ مفتی، خالدہ اکبر، ثمینہ بشریٰ سمیت پانچ بچیاں بھی شامل تھیں اور13رکنی خواتین کے اس قافلے کی معاونت اور رہنمائی کا بیڑا برادرم، مرزا محمد یاسین بیگ نے اٹھا رکھا تھا۔ 

دُعاکے بعد سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا اور ہم جلد ہی لاہور کی مرکزی شاہ راہ پہنچ گئے۔ بے پناہ رش، ٹریفک کے ازدحام کے سبب یہاں سے نکلتے نکلتے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ لیکن کچھوے کی چال سے چلتی گاڑی جب قصور کی جانب جانے والی سڑک پر پہنچی، تو اِرد گرد اِستادہ درختوں کا ایک طویل سلسلہ اور ہرا بھرا ماحول آنکھوں کو طراوت بخشنے لگا۔

صوبہ پنجاب کا ضلع، قصور پہلے لاہور کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا۔ تاہم، یکم جولائی 1976ء کو اسے ضلعے کا درجہ دے دیا گیا،جس کے بعد یہاں نئی طرز کے بنیادی انتظامی ادارے قائم ہوئے۔ ضلعے کو انتظامی طور پر چار تحصیلوں، یعنی قصور، پتوکی، چونیاں اور رادھا کشن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قصور، صوبہ پنجاب کا سرحدی ضلع ہونے کے سبب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے جنوب میں دریائے ستلج ہے، جو بین الاقوامی بھارتی سرحد کے ساتھ بل کھاتا ہوا ضلع قصور سے نکل کر پنجند کے مقام پر دریائے سندھ سےجا ملتا ہے۔ 

شمال مغرب میں دریائے راوی اس ضلعے کی آخری حد کا کام دیتا ہے۔ یہاں کا بلوکی ہیڈورکس مشہور تفریحی مقام ہے۔ مشرق میں بین الاقوامی بھارتی سرحد، جب کہ مغرب میں ضلع اوکاڑہ، شمال میں لاہور، شمال مغرب میں دریائے راوی کے پار ضلع شیخوپورہ واقع ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کا ایک پرانا دریا، دریائے بیاس، اگرچہ صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ تاہم، اس کی پرانی گزرگاہ کے آثار مشرق سے مغرب کی طرف شہر کے وسط میں اب بھی موجود ہیں۔

یہاں کے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بھی تیزی سے فروغ پا رہے ہیں، جن میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج، قصور کا بھی شمار ہوتا ہے۔ روانگی سے قبل ہم نے کالج کے پرنسپل، پروفیسر رشید احمد بھٹی کو اپنی آمد سے مطلع کردیا تھا، لہٰذا قصور پہنچتے ہی سیدھے کالج کا رُخ کیا، جہاں کالج کے پرنسپل اور شعبۂ اردو کے اساتذہ ہمارے منتظر تھے۔ 

انھوں نے بڑی محبّت اور احترام کے ساتھ ہماراخیرمقدم کیا۔1956ء میں تعمیر ہونے والے کئی ایکڑ اراضی پر مشتمل وسیع و عریض کالج کے طویل برآمدوں اور اونچی چھتوں کی حامل دل کش عمارت نے ہماری توجّہ اپنی جانب مبذول کرلی اور یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہاں 3500 کے قریب طلباءو طالبات حصولِ علم میں مصروف ہیں۔

پرنسپل کے دفتر میں چائے کے ساتھ دیگر لوازمات کا پُرتکلف اہتمام تھا۔ چائے کے دوران علمی و ادبی حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ شعبۂ اردو سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، پروفیسر حسن اور ڈاکٹر محمد لطیف اشعر نے اپنی کتابیں پیش کیں، تو ہم نے بھی اپنے ساتھ لائی ہوئی کتابیں اُن کے نذر کردیں۔ کتب کے باہمی تبادلے کے بعد پرنسپل صاحب نے سب کو کالج میگزین کی کاپیاں تحفے میں دیں۔ 

یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ طلبہ میں ادبی ذوق و شوق پروان چڑھانے کے لیے ہر ماہ باقاعدگی سے کالج میگزین شائع ہوتا ہے۔ پرنسپل صاحب نے قصور شہر سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’قصور کے لوگوں کا تحریکِ پاکستان میں بھی نمایاں کردار رہاہے،آزادی سے پہلے اور بعد میں کوئی تحریک ایسی نہیں، جس میں اس دھرتی کے سپوتوں نے دفاع ِوطن اور بقائے ملّت کے لیے قربانی نہ دی ہو اور یہ ہماری ملّی تاریخ کا ایک نہایت روشن باب ہے۔ 

دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ’’چھانگا مانگا‘‘ تحصیل چونیاں میں واقع ہے، جو بارہ ہزار ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں بے شمار قیمتی درخت اُگائے گئے ہیں،جب کہ جنگل میں ایک خُوب صُورت تفریحی پارک اور جھیل بھی سیّاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ یہ جنگل مختلف قسم کے جانوروں کی پناہ گاہ کا کام بھی دیتا ہے۔ یاد رہے، چھانگا مانگا کی لکڑی پورے مُلک میں مشہور ہے، یہاں شہتوت کے درخت بہت کثرت سے ملتے ہیں، جن کے پتّوں پر ریشم کے کیڑے پال کر بہترین قدرتی ریشم بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ نیز، یہاں سے سالانہ ٹنوں کے حساب سے شہد بھی اکٹھا ہوتا ہے۔‘‘

مختلف اساتذہ سے علمی و ادبی گفتگو اور کالج کے مختلف شعبہ جات کے دورے کے بعد ہماری اگلی منزل، قصور کا عجائب گھر تھا۔ عجائب گھر کی خُوب صُورت، پُرشکوہ عمارت میں داخل ہوئے، تو جیسے ماضی کے دریچے وا ہوگئے۔ عجائب گھر کے پانچ حصّے ہیں۔ 

پہلے میں قصور کی تہذیب وثقافت کی عکّاسی کی گئی ہے، یہاں مقامی ہنرمندوں کے فن پارے بھی موجود ہیں۔ دوسرے حصّے کو ’’تحریکِ پاکستان گیلری‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جہاں بہت سی اہم نادر دستاویز کے علاوہ دیواروں پر قدیم تصاویر آویزاں ہیں۔ تیسرے حصّے میں نادر و نایاب سکّہ جات، مختلف مالیت کے کرنسی نوٹوں سمیت اعزازات و میڈلز بھی محفوظ کیے گئے ہیں۔ 

چوتھے حصّے میں فوسلز، مورتیوں، گندھارا آرٹ کے نمونوں اور قدیم قیمتی برتن محفوظ ہیں، جب کہ پانچویں حصّے کی تزئین و آرائش کا کام ابھی جاری تھا، لہٰذا وہاں جانے سے قاصر رہے۔ عجائب گھر کے احاطے میں شیر شاہ سوری کے ایک وزیر، وکیل خان کے مقبرے پر فاتحہ پڑھنے اور قریب ہی شاہی مسجد اور شاہی قلعے کے دیگر خُوب صُورت ماڈلز کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کے بعد بابا بلھے شاہ کے مزار کی جانب روانہ ہوگئے۔ جن کا عارفانہ کلام پنجاب کے باسیوں کو ازبر ہے ؎ تسی اُچّے، تہاڈی ذات وی اُچّی .....تسی وِچ اُچ دے راہندے .....اسی قصوری ، ساڈی ذات قصوری......اسی وچ قصور دے راہندے۔

مزار کے احاطے میں داخل ہوئے، تو وہاں موجود مجاور نے سنہری گوٹ سے درج آیات پر مبنی سرخ مخملی چادر قبر پر چڑھانے کے لیے دی، جب کہ مزار کے احاطے میں ایک طرف مقامی فن کار، ہارمونیم پر بابا بلھے شاہ کا کلام بھی پیش کررہے تھے۔ یہاں داخل ہوتے ہی ایک عجیب سے کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ مرقد پر مرد و خواتین کی ایک اچھی خاصی تعدادفاتحہ خوانی میں مصروف تھی، ہم نےبھی فاتحہ خوانی کی اور باہر کی جانب قدم بڑھادیئے۔

اب ہمارا رُخ قریبی بازار کی جانب تھا۔ بازار پہنچے، تو یاسین بھائی نے یہاں کے مشہور ’’قصوری فالودے‘‘ اور ’’اندرسے‘‘ سے سب کی تواضع کی۔ بازار سے ہمیں خریداری وغیرہ تو کرنی تھی نہیں، لہٰذا وہاں سے بابا کمال چشتی کے مزارکے لیے روانہ ہوگئے۔خاصی بلندی پر واقع اس مزار تک پہنچنے کے لیے ایک سو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہم نے ہمّت کی اور اللہ کا نام لے کر آہستہ آہستہ سیڑھیاں عبور کرتے کرتے مزار تک پہنچ ہی گئے۔ 

مزار کے احاطے سے پورے شہر قصور کا دل کش نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے ماحول میں عجیب سا سکون اور فسوں طاری تھا، سبک رفتاری سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا سے خوش گواریت کا احساس ہورہا تھا۔ احاطے میں کچھ قوال عارفانہ کلام پیش کررہے تھے۔ ہم قوالوں کے سامنے سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے۔ کتنے ہی لمحے جیسے ایک سحر میں گزر گئے۔ 

ساڑھے تین بج رہے تھے، یہاں سے ہمیں تقریباً گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ’’گنڈا پور سنگھ والا بارڈر‘‘ جانا تھا۔ واہگہ بارڈر کی نسبت یہاں پاکستان اور بھارت کے عوام اور رینجرز ایک دوسرے کے انتہائی قریب موجود ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر دونوں جانب، جوش و جذبہ دیدنی تھا اور فضا ملّی نغموں اور مذہبی نعروں سے گونج رہی تھی۔

سورج ڈھلنے سے پہلے واپسی کا قصد کیا، بھوک بھی ستار ہی تھی۔قصور کا’’نیابازار‘‘ قریب ہی تھا، لہٰذا وہاں کی مشہور’’توا فرائی مچھلی‘‘ کھانے کے لیے قریب ہی گاڑی رکوالی۔ قصور کی توا فرائی مچھلی پورے شہر میں مشہور ہے، جسے کھانے کے لیے لوگ دُور دُور سے یہاں آتے ہیں۔ مچھلی واقعی بےحد لذیذ تھی، بس انگلیاں چاٹنے کی کسر رہ گئی تھی۔ 

لذیذ مچھلی سے لُطف اندوز ہونے کے بعد وہاں کی خاص سوغات ’’اندرسے‘‘ کی خریداری کی بابت دریافت کیا تو بتایا گیا کہ اندرسوں کی خریداری کے لیے بہترین دکان بازار کے کافی اندر جا کر ملے گی۔ ’’نیا بازار‘‘ کی گلیاں پتلی اور تنگ تھیں، مگر یہ انواع و اقسام کی اشیاء سے مزیّن رنگین بازار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

روایتی ملبوسات، جوتے، چوڑیاں ، زیورات ،آرائشی اشیاء ، برتن اور جانے کیا کیا میسّرہے۔ خیر، کافی آگے اندر جانے کے بعد اندرسے کی بہت سے دکانیں نظر آئیں، تو سب ہی نے اپنے  دوستوں،  عزیزوں کے لیے خرید لیے۔ اس دوران گورنمنٹ کالج قصور کے سابق پرنسپل، ریاض محبوب کے فون آنا شروع ہوگئے۔ وہ ملکہ ترنّم نورجہاں کے استاد، غلام محمد خان عرف گامے خان کے بیٹے نعیم خان کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔ 

دراصل زرقا فاطمہ نے میڈم نورجہاں کے اس شہر کے حوالے سے یاسین بھائی سے کچھ سوالات کیے تھے، تو اس دل چسپی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بالا ہی بالا اس ملاقات کا اہتمام کر ڈالا تھا۔ خیر، ریاض محبوب کے گھر پہنچے، تو انھوں نے بڑی محبت اور گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ ان کی بیٹیاں اور بیگم ہماری تواضع کے لیے مستعد ہوگئیں۔ کھانے پینے کے بعد نعیم خان سے میڈم نورجہاں کے حوالے سے کافی اچھی گفتگو رہی۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’’میڈم نورجہاں میرے والد کا اس قدر احترام کرتی تھیں کہ مجھے بھی کبھی نام لے کر نہیں پُکارا۔ بڑی محبّت کرنے والی وضع دار خاتون تھیں۔ ایک بار کسی گیت میں بچپن کا ذکر آیا، تو زاروقطار رونے لگیں۔‘‘ قصور میں موجود نورجہاں کے گھرکے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ’’وہاں اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں۔ بس علامتی طور پر ان کے نام کی تختی ہی لگی ہوئی ہے۔‘‘

ریاض محمود اور اُن کے اہلِ خانہ کی محبّتوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، رات گئے، جب ہم نے لاہور واپسی کا قصد کیا اور اُن سے اجازت طلب کرکے گھر سے باہر نکلنے لگے، تو پوری فیملی ہمیں دروازے تک چھوڑنے آئی۔ قصور کے اس دورے میں ہمیں بہت کچھ دیکھنے، جاننے کا موقع ملا۔ تاہم، اس شہرِ محبّت میں اب بھی دیکھنے کو بہت کچھ باقی تھا۔ سو، ارادہ کیا کہ بار بار نہ سہی، کم از کم ایک بار پھر یہاں ضرور آئیں گے۔