مدینہ منورہ… وہ مقدس شہر جہاں کی ہوا میں عجب ٹھنڈک، فضا میں خوشبو اور زمین میں ایک روحانی کشش ہے۔ جو ایک بار یہاں آتا ہے، وہ یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہاں کی گلیوں میں چلتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر در و دیوار، ہر ذرہ، نبی اکرم ﷺ کی رحمتوں کا عکس لیے ہوئے ہے۔
میرے مرحوم والد بھی ایسے ہی عاشقِ رسول اور عاشق مدینہ تھے۔ وہ اکثر والدہ سے کہا کرتے، ’’خواہش ہے مدینےکی گلیوں میں بڑھاپا گزاروں، وہاں کی ہوا میں سانس لوں، اور اگر قسمت نے ساتھ دیا، تو شاید جنت البقیع میں جگہ مل جائے۔‘‘ وہ درجنوں بار مدینہ آئے مگر انکی خواہش خواہش ہی رہ گئی اور وہ مدینے کے ہو کر نہ رہ سکے۔یہی خواب جانے کتنے عاشقانِ رسول ﷺ کا ہے۔ مدینہ میں موت آنا کسی خوش نصیب کا ہی نصیب ہوتا ہے، اور ان خوش نصیبوں میں ایک نام احسن اقبال کے والد اقبال احمد چوہدری کا بھی ہے، جنہیں جنت البقیع میں دفن ہونے کی سعادت ملی۔ یہ احسن اقبال کا مدینہ سے عشق ہی ہے کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے وہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ مسجد نبوی میں اعتکاف میں گزارتے ہیں۔
یہاں مدینے کی ایک ایسی ہی محبت کا قصہ یاد آ گیا جو نبی اکرم ﷺ اور مسجد نبوی سے جُڑا ہے۔ ایک دن ایک بوڑھی عورت، جو روزانہ مسجد نبوی کی صفائی کیا کرتی تھی، کئی دنوں تک نظر نہ آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے جب دریافت کیا تو صحابہ کرامؓ نے بتایا کہ وہ انتقال کر گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا،‘‘تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟ ’’پھر آپ ﷺ نے خود اس خاتون کی قبر پر جا کر دعا فرمائی۔
مدینہ وہ شہر ہے جہاں محبت کی سب سے اعلیٰ مثالیں قائم ہوئیں۔ یہاں ایک غلام حضرت زید بن حارثہؓ کا قصہ یاد آتا ہے، جو نبی کریم ﷺ کی شفقت اور مدینے کی روحانی کشش کو بیان کرتا ہے۔حضرت زیدؓ بچپن میں اغوا ہو کر غلام بنا دیے گئے اور مختلف ہاتھوں سے گزرتے ہوئے آخرکار نبی کریم ﷺ کے پاس آ گئے۔ آپ ﷺ نے ان سے شفقت اور محبت کا ایسا سلوک کیا کہ زیدؓ آپ ﷺ سے جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دن ان کے والد اور چچا انہیں لینے مدینہ آئے اور کہا،‘‘ زید! ہم تمہیں آزاد کرانے آئے ہیں، ہمارے ساتھ چلو۔ ’’نبی کریم ﷺ نے زیدؓ کو اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے والد کے ساتھ جا سکتے ہیں مگر زیدؓ نے کہا، ’’میں اپنی آزادی چھوڑ سکتا ہوں، اپنے والدین کو چھوڑ سکتا ہوں، مگر میں آپ ﷺ کو نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے حضرت زیدؓ کو آزاد کر کے اپنا لے متبنیٰ بنا لیا، اور مدینہ کے در و دیوار ایک اور محبت کی کہانی کے گواہ بن گئے۔ اس رمضان کے آخری عشرے میں دنیا بھر سے عاشقانِ رسول ﷺ مدینہ آئے تھے۔ جاپان، برطانیہ، امریکہ، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، ہر ملک سے، ہر زبان بولنے والے لوگ، مگر سب ایک زبان میں درود و سلام پڑھ رہے تھے۔ مسجد نبوی کے ہر کونے میں کوئی نہ کوئی آنکھ اشکبار تھی، کوئی نہ کوئی دعا میں مصروف تھا، کوئی کسی ندامت میں جھکا تھا، کوئی ہاتھ اٹھائے معافی کا طلبگار تھا۔میرے ساتھ والدہ، بھائی اور دس سالہ حافظ قران بھتیجا حافظ مصطفیٰ کے علاوہ جاپان سے ملک یونس، علی کلیار اور رانا شوکت بھی موجود تھے۔آخری عشرے میں وفاقی وزیر احسن اقبال سےبھی کئی ملاقاتیں رہیں، میں نے دیکھا کہ کس طرح وہ ان عاشقانِ مدینہ سے مل رہے تھے، ان کے ساتھ افطار کر رہے تھے، ان کے ساتھ بیٹھ کر اللہ کے حضور آنسو بہا رہے تھے۔مسجد نبوی کی وسعت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت مسجد کی کل گنجائش 16 لاکھ (1.6ملین) نمازیوں سے زائد ہو چکی ہے، اور سعودی حکومت کے منصوبے کے مطابق اس کی گنجائش 20 لاکھ (2ملین) نمازیوں تک بڑھائی جا رہی ہے۔ رمضان المبارک میں سعودی حکومت کے انتظامات مثالی ہوتے ہیں۔ اس بار بھی مسجد نبوی میں لاکھوں نمازیوں کیلئے بہترین سہولیات فراہم کی گئیں۔ افطار کیلئے خصوصی اہتمام کیا گیا، ہزاروں دستر خوان بچھائے گئے۔ صفائی کیلئے ہزاروں کارکنان دن رات مصروف عمل رہے۔ ایئرکنڈیشنڈ ہالز، جدید ساؤنڈ سسٹم اور قرآنی نسخے ہر جگہ دستیاب تھے۔ اعتکاف کیلئے مخصوص جگہیں فراہم کی گئیںاور نمازیوں کیلئے آرام دہ ماحول مہیا کیا گیا۔ معذور اور بیمار مرد و خواتین کیلئے وہیل چیئر زتھیں ۔
مدینے کی یہی خاصیت ہے – جو یہاں آتا ہے، وہ کسی بندھن میں نہیں، بلکہ محبت کے رشتے میں بندھ جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں غلام بھی آقا کے دیوانے بن جاتے ہیں، اور جہاں آنے والے دلوں پر ایک ایسی مہر لگ جاتی ہے جو پھر کبھی نہیں مٹتی۔ مدینہ منورہ – جہاں کی ہوا میں خوشبو ہے، جہاں کی فضا میں ٹھنڈک ہے، جہاں کے در و دیوار ہر آنے والے سے یہی کہتے ہیں:
’’جو یہاں آتا ہے، وہ مدینے کا ہو جاتا ہے‘‘