انتہائی شدید موسم سرما میں مجھے بالآخر پتہ چل گیا کہ میرے اندر ایک ناقابل تسخیرموسم گرما موجود ہے ۔ ( البرٹ کیموس )
وقت کی راہ گزر یکساں نہیں ۔ یہ ہمیشہ نشیب وفراز سے عبارت ہوتی ہے ۔ اگرچہ انسان ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کی اہلیت رکھتا ہے، لیکن کسی نہ کسی مرحلے پروقت کے تیزی سے بدلتے تیور ہماری بہترین صلاحیتوں کو سامنے لاتے ہیں ۔ وقت کی ناقابل بیان تباہ کاریاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔
یہ مجھے اس وقت کی یاد دلاتا ہے جس میں ہم اس وقت جی رہے ہیں، وہ زبردست چیلنجز جن کا سامنا ہے اور جن سے نمٹنے کی ہماری سکت بظاہر ماند پڑتی جارہی ہے۔دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لوگوں کا آفات سے نمٹنے کا اپنا تجربہ رہا ہے، لیکن پاکستانی پے در پے وارد ہونے والے مشکل حالات میں سے گزرتے رہتے ہیں۔ سکون یہاں ایک اجنبی شے ہے۔ اکثر یہ احساس جاگزیں رہتا ہے کہ اگلی لہر ہمیں بہا لے جائے گی لیکن کسی نہ کسی طرح ہم بچ نکلتے ہیں۔تھوڑی ہی دوری پر ابھرنے والے ایک اور چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ گویا یہ ایک عادت سی بن گئی ہے کہ مشکلات کی لہر آنے پر حیرت نہیں ہوتی۔ ہاں اگر نہ آئے تو حیرانی ضرور ہوتی ہے۔
ذاتی درد اپنی جگہ پر، ناقابل برداشت گھٹن زدہ ماحول میں جینا بے حد اذیت ناک ہے۔ درد ظاہری ہو سکتا ہے جو زیادہ تر جسمانی نوعیت کا ہوتا ہے جو ان معاشروں میں پایا جاتا ہے جو قانون کے مطابق نہیں چلتے بلکہ افراد کے حکم کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔ لیکن جب درد کسی کے وجود اور روح میں سرایت کر جاتا ہےتو اس کی مسیحائی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ اس صورت میں انسان کو اپنی بقا کیلئےبرداشت کوبڑھانا پڑتا ہے۔ ہمارے ارد گرد لوگ باقاعدگی کے ساتھ اس طرح کے تجربے کا سامنا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
انسانی سکت کے باوجود میں نے لوگوں کو شدید مصائب کی وجہ سے بکھرتے بھی دیکھا ہے۔ حالیہ دنوں ہمارا سیاسی ماحول ایسے مواقع سے بھرا ہوا ہے جب لوگوں کو بغیر کسی جرم کے انتہائی غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ، صرف اس وجہ سے کہ ان کا تعلق سیاسی تقسیم کی اس سمت سے ہے جنھیں مخالفین سمجھا جاتا ہے اور جنہیں ریاستی جبر کے ذریعے دبا کر راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر مایوسی کی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں جہاں سے رینگتے ہوئے باہر نکلنا آسان نہیں۔
انسان کی قوت برداشت کی بھی کوئی حد نہیں۔ ہمت کے ایسے کارنامے جو دوسروں کیلئے مشعل راہ ہیں، اور ایسی حکایتیں جو خون سے لکھی ہوئی ہیں۔ موجودہ دور میں ہم نے ایسی چیزیں ہوتے دیکھی ہیں جو حد امکان سے ماورا خیال کی جاتی تھیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ سرخ لکیریںبے دھڑک ہوکر عبور کرلی گئیں ۔ ایسے طریقوں کا سہارا لے کر قانون کی کتابوں میں ردوبدل کیا گیا جو غیر قانونی اور غیر آئینی تھے۔ حکمران طبقے میں سے کسی کے ضمیر نے ملامت کی ، نہ کسی کی روح تلملائی۔ اس طرح کے قوانین کا ایک سلسلہ سر پر مسلسل لٹکتی تلوار کے ساتھ زندگی کا حصہ بن گیا۔
یہ البرٹ کیموس ہی تھے جنھوں نے کہا تھا کہ’’غلام دنیا سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ اتنے آزاد ہو جائیں کہ آپ کا وجود ہی عملی طور پربغاوت بن جائے‘‘۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اگر ایسا ہے تو ناقدین کی زبان بندی کیلئے وحشیانہ اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا ہم نے یہ سب نہیں دیکھا؟ کیا ہمارے دلوں میں عداوتیں، نفرتیں ، دشمنیاں اور دوسروں کی تحقیر کے جذبات موجزن نہیں ؟
افسوس ہم نے بہت سے دلخراش واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکتے دیکھا جسے منصفانہ ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ دو وزرائے اعظم کو قتل ہوتے دیکھا، ایک حاضر سروس اور ایک سابق۔ وزرائے اعظم کو برطرف ہوتے اور پھر واپس لاتے دیکھا ہے۔ بانی مملکت کی بہن کو غدار قرار دیا جانا برداشت کرلیا۔ درحقیقت اس لیبل کا استعمال ہر اس شخص کیلئے ہوتا رہا ہے جو طے شدہ لکیر سے باہر نکلنے کی ہمت کرے گا۔ ہم نے دیکھا کہ پہلی دستور ساز اسمبلی کے فلور سے قائد کے بنیادی خطاب کو برسوں عوام کی نظروں سے ا وجھل رکھا گیا ۔ آدھے سے زیادہ ملک کو کھو دیا لیکن کسی کا احتساب نہ ہوا۔ ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ریاست کے عدالتی بازو کو عملاً کٹتے دیکھا ۔ ایک ایسے لیڈر کو جعلی، بے بنیاد اور من گھڑت مقدمات کے تحت قید ہوتے دیکھا جو ملک کے عوام کے دل و دماغ پر حکمرانی کرتا ہے ۔
ہمیں یہ احساس نہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے آگے آئیں گے۔ ماضی کی غلطیوں کو ختم کرنے میں بہت دیر ہو سکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب اس بات پر دھیان دیا جائے اور ایسی جابرانہ پالیسیوں پر عمل کرنا بند کیا جائے جو لوگوں کو ریاست اور انتظامیہ سے دور کر رہی ہیں۔ عوام اور ریاست کے درمیان رشتے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان لوگوں پر سےغدار کے لیبل ہٹانا ہوں گے جنہوں نے ملک کے تحفظ کیلئے خون دیا لیکن آپ سے سیاسی اختلافات رکھتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔ انہیں صرف اس وجہ سے دھتکارا نہ جائے کہ ان کا موقف آپ سے ہم آہنگ نہیں ۔ یہ کنارے سے پیچھے ہٹنے اوربحالی کے عمل کو شروع کرنے کا وقت ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ’’استقامت اس بات پر یقین کرنے کی صلاحیت ہے کہ تاریکی اور خوف کے عالم میں بھی مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ یہ موجودہ اذیت کے باوجود بہتر مستقبل کا انتخاب کرنے کی صلاحیت کانام ہے‘‘ ۔ہمیں ہمت کی ضرورت ہے۔ ہمیں لچک کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس ملک کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔ لیکن، سب سے پہلے، ہمیں اپنے لوگوں سے لڑنا ترک کرنا ہوگا۔ ہمیں انھیں حقوق دینے چاہئیں۔ انھیں آواز بلند کرنے کا حق دینا چاہئے۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)