گلناز محمود
ہمہ جہت شخصیت، ڈاکٹر جمیل جالبی کو داغِ مفارقت دیئے چھے برس بیت گئے، مگر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے آج بھی وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اُن کی علمی و ادبی خدمات اور کارناموں کے روشن چراغ سے آنے والی نسلیں بھی فیض اُٹھاتی رہیں گی۔ ’’ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ اور ’’لائبریری‘‘ اُن کی خدمات کو تابندہ رکھے جانے کی علامت ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی 2؍جون 1929ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول سہارن پور سے حاصل کی،1943ء میں میٹرک پاس کیا۔ 1945ء میں میرٹھ کالج، میرٹھ سے ایف اے کرنے کے بعد 1947ء میں یہیں سے بی اے کیا۔ سندھ یونی ورسٹی، کراچی سے 1949ء میں انگریزی میں ایم اے کیا اور پھر اسی یونی ورسٹی سے 1950ء میں ایم اے اُردو کا امتحان بھی پاس کیا۔ بعدازاں، یہیں سے ایل ایل بی بھی کیا۔
نیز، اسی یونی ورسٹی سے 1971ء میں اُنھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی اور 1976ء میں ڈی لٹ سے نوازے گئے۔1950ء سے 1952ء بہادریار جنگ اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ بعدازاں، مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہوکر انکم ٹیکس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے اور اسی محکمے سے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے سے سُبک دوش ہوئے۔ نومبر 1980ء میں وزارتِ تعلیم سے منسلک ہوئے اور پھر کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مقرر کردیئے گئے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے ادب پروری کی ابتدا ایک معلّم کی حیثیت سے کی، مگر اپنی راہ تمام تر ادبی گروہ بندیوں سے الگ منتخب کی۔ مختلف ادبی موضوعات پر اُن کی تحریروں کی اشاعت کا آغاز شاہد احمد دہلوی کے رسالے ’’ساقی‘‘ سے ہوا۔ بعدازاں ’’نیا دَور‘‘ کے نام سے ایک رسالے کی ادارت کی ذمّے داری سنبھالی۔ اُن کے زیرِ ادارت اس رسالے نے قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے برسوں میں سینئر ادباء کے علاوہ نئے لکھنے والوں کو بھی ایک ایسا پلیٹ فارم مہیّا کیا، جس کے توسّط سے قلم کاروں کی ایک نئی نسل نے ادبی دنیا میں ممتاز مقام حاصل کیا۔
اس دوران جالبی صاحب کی تحریریں نیا دَور کے علاوہ دیگر ادبی جرائد میں بھی شائع ہوتی رہیں۔ اُن کی ابتدائی تصانیف میں ’’تنقید و تجربہ‘‘ اور’’نئی تنقید‘‘ کے علاوہ ’’جانورستان‘‘ کے نام سے معروف انگریزی ناول کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب انگریزی ادیب اور نقّاد، ٹی ایس ایلیٹ کے کام پر کافی دسترس رکھتے تھے۔
اُنھوں نے ٹی ایس ایلیٹ کے منتخب مضامین کا اردو ترجمہ کتابی صُورت میں مرتّب کیا۔ نیز، دوہزار برس کے دوران عالمی ادب کے تعلق سے ارسطو سے ایلیٹ تک کی اُن کی شاہ کار تحقیق بھی اردو زبان و ادب کا نمایاں حوالہ ہے کہ اُن کی ان سنجیدہ علمی کُتب کو پوری اردو دنیا میں شان دار پذیرائی حاصل ہوئی۔
ڈاکٹریٹ کی سطح پر اُن کا علمی کام مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اردو ادب کا گراں قدر اثاثہ ہے۔ پھر اُن کی ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کی سات برس کی سرپرستی کے دوران سماجی علوم کے اہم موضوعات پر عالمی ادب اور عصری تقاضوں کے تعلق سے متعدد کُتب تصنیف و تالیف کی گئیں جن میں تراجم بھی شامل ہیں۔ یوں تو اُردو زبان کی تاریخ کے موضوع پر بے شمار کتب مرتّب کی جاچکی ہیں، مگر چار جِلدوں میں شائع ہونے والی ’’تاریخِ ادب اُردو‘‘ کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ گزشتہ پانچ سو برسوں میں تخلیق کیے جانے والے اُردو کے ادب پاروں کو اُن کے عہد کے تناظر میں معروضی اسلوب میں مرتّب کیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب کی اُن کاوشوں کو سرکاری اور قومی سطح پر سراہنے کے علاوہ بیرونِ ملک بھی قبولیت حاصل ہوئی۔ اُردو کے نام وَر ادیب و محقّق، ڈاکٹر گیان چند نے لسانیات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے کام کو منفرد قرار دیا ہے۔ دراصل ڈاکٹر جمیل جالبی کو ادبی سفر کے ابتدائی دنوں ہی میں ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر کرّار حسین اور شاہد احمد دہلوی جیسے اکابرین کی رہنمائی حاصل ہوگئی تھی اور جب خود درس و تدریس سے وابستہ ہوئے، تو ایک معلّم اور محقّق کی حیثیت سے ہزاروں شاگردوں اور ادب نوازوں کے لیے مینارئہ علم کی حیثیت اختیار کرگئے۔
جالبی صاحب فنِ ترجمہ کی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ تھے، جب کہ اُنھیں مغربی ادب کے تراجم سے خصوصی دل چسپی تھی۔ ادب کی تنقیدی تاریخ ہو، یا ایلیٹ کے مضامین، وہ اس امر کا بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ اردو کو ترقی یافتہ زبانوں کے مقابل، ثروت مند مقام تک لانے کے لیے عالمی ادب کے رجحانات کو قومی زبان میں منتقل کرنا ضروری ہے۔
اُنھیں اُردو اور انگریزی کے علاوہ فارسی زبان پر بھی عبور تھا، جب کہ اُن کی شاہ کار کتاب ’’پاکستانی کلچر کے انگریزی اور سندھی تراجم‘‘ نے بھی علمی اور سماجی حلقوں میں خاصی مقبولیت حاصل کی۔ تحقیق اور تراجم کی دنیا میں ارفع سطح پر شہ پارے تخلیق کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بچّوں کے لیے کتاب ”حیرت ناک کہانیاں‘‘ کے نام سے مرتّب کی۔
سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر جالبی نے ترجمہ نگاری، ادبی تاریخ نویسی، مقالہ نگاری، مضمون نگاری، تحقیق و تدوین، مقدمہ نویسی، دیباچہ نویسی اور تبصرہ نگاری میں اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اُن کی تصنیفات و تالیفات اور تراجم میں تاریخ زبانِ اُردو (چار جلدیں)، جانورستان، ادب، کلچر اور مسائل، تنقید اور تجزیہ، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک، میراجی:ایک مطالعہ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی، فرہنگِ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ، میر تقی میر، نئی تنقید، معاصر ادب، ن۔م راشد: ایک مطالعہ، قدیم اُردو لغت، ادب، کلچر اور مسائل، مثنوی نظامی دکنی المعروف بہ مثنوی کدم راؤ، پدم راؤ، حیرت ناک کہانیاں، بارہ کہانیاں، قلندر بخش جرأت، لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، قومی زبان، یک جہتی نفاذ اور مسائل، پاکستانی کلچرکی تشکیل، ادبی تحقیق، قومی انگریزی اُردو لُغت، برصغیر میں اسلامی جدیدیت، برِصغیر میں اسلامی کلچر، بوطیقا از ارسطو، بزمِ خوش نفساں، پاکستان، ڈی آئیڈینٹیٹی اور قانونِ شراکت 1932ءکے علاوہ متعدد ادیبوں اور مصنّفین کی تصنیفات و تالیفات پر لکھے مقدمے، دیباچے اور پیش لفظ بھی شامل ہیں۔
انھوں نے زبان و ادب اور کلچر کے مختلف موضوعات کے تعلق سے جو گراں قدر کام کیا، اُسے اہلِ علم نے نہ صرف تسلیم کیا، بلکہ اُن کی خدمات کے حوالے سے لاتعداد مضامین اور مقالے بھی لکھے۔ مثلاً: پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ لکھتی ہیں۔’’یہ بہت کم مذکور ہوا کہ انہوں نے کتاب، کتب خانوں، کتابیات اور کیٹلاگ سازی پر بھی احسان کیے۔
تصنیف و تالیف کے علاوہ تحقیق اور تحقیقی عمل کو آگے بڑھانے میں سرگرمِ عمل رہے اور اس میں اُن کی اعلیٰ اختیاراتی ذمّے داریاں بھی حائل نہ ہوسکیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ’’تصنیف و تالیف و ترجمہ‘‘ سے اُن کے دَور میں بے شمار کتابیں شائع ہوئیں۔ پاکستان لائیبریری ایسوسی ایشن کے سرپرست کی حیثیت سے کتب خانوں کے فروغ، تنظیمِ نو، اور جدید تقاضوں کے مطابق کمپیوٹرز کی فراہمی میں حتی الوسع کوششوں کے علاوہ سوانحی کتابیات کی روایت بھی اُن ہی کے دَور میں پڑی۔‘‘
آزادی کے بعد نئی مملکت میں مختلف سماجی طبقات کے مابین ثقافتی شناخت کے تعلق سے جنم لینے والے تضادات کا ایک دانش وَر کی حیثیت سے مشاہدہ کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ’’پاکستانی کلچر‘‘ کے نام سے جو کتاب تصنیف کی، اس نے مُلک میں علمی اور فکری حوالے سے نئے مباحث کا آغاز کیا۔ اس کتاب کے اب تک متعدد ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں۔
کراچی یونی ورسٹی کے شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز، ڈاکٹر صاحب کی چارسالہ خدمات ہماری علمی اور تعلیمی تاریخ کا روشن باب ہیں، جب کہ فروغِ زبان و ادب کے لیے قائم کردہ مُلک کے اعلیٰ ترین ادبی ادارے ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کے سربراہ کی حیثیت سے بھی متعدد علمی موضوعات پر کتابوں کی اشاعت اور تراجم کے منصوبے تشکیل دے کر مکمل کیے۔
نیز، قومی انگریزی، اردو لغت کی اشاعت اُن کی نگرانی ہی میں ممکن ہوئی۔ اس لغت کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس میں جدید علوم کی اصطلاحات کے اردو معانی بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی کاوشوں میں ڈاکٹر صاحب کا نمایاں کردار رہا ہےاور اسی دوران اُن کی نگرانی میں ’’اُردو لغت بورڈ‘‘ نے کثیر جِلدی اُردو لغت پر بھی کام جاری رکھا۔
واضح رہے، ڈاکٹر جمیل جالبی کی سوچ یہ تھی کہ اُردو زبان و ادب کو عالمی سطح پر نمایاں مقام دلوایا جائے اور اسے جدید تقاضوں اور بدلتی ہوئی اقدار کے مطابق رکھا جائے۔ بہرکیف، ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا حقیقی اعتراف اسی صُورت ممکن ہے کہ اُن کی سوچ اور مشن کو نئی نسل پر آشکار کیا جائے۔