• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر جمیل جالبی کی دوسری برسی، کچھ یادیں کچھ باتیں

ڈاکٹر محمّد خاور جمیل

آج پاپا (ڈاکٹر جمیل جالبی )کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے۔18اپریل 2019ء کوپاپا ہمیں بے سائبان کرکے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جب تک وہ تھے، کبھی زمانے کے سردو گرم کا پتا نہ چلا کہ وہ توایک چھتنار درخت تھے، جن کے سائے میں ہم دنیا کی تمام کلفتوں سے محفوظ تھے ،مگر اب وہ نہیں ہیں، تو ہرہر قدم ان کی کمی کا شدّت سے احساس ہوتا ہے ۔ ڈاکٹرجمیل جالبی کے جانے کا دُکھ ہم سب افرادِ خانہ کے ساتھ ان کے احباب ، طلبہ، چاہنے والوں کے لیے بھی اس قدر محرومی کا باعث ہےکہ دو برس گزر جانے کے با وجود اُن کی تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اُن سے محبت کرنے والے ، اُنسیت و عقیدت رکھنے والے اور ان کی قابلیت ،علمیت ، فکر و آگہی، زبان و بیان کے معترفین ہی اُن کی جدائی اور اس کا غم محسو س کر سکتے ہیں۔پاپا کے انتقال کی خبر اُردو ادب کے لیے کسی بڑےسانحےسے کم نہ تھی۔ مَیں تو خیر ان کا بیٹاہوں، اس لیے اپنے پاپا کی عظمت میری نظر میں بہت زیادہ تھی اور ہمیشہ رہے گی، مگر ان کےلیے تعزیت نامے، اخبارات میں چھپی خبریں، ان پر لکھے جانے والےمضامین اور مشاہیر کے پیغامات سے اندازہ ہوا کہ میرے پاپا کے اسیر اور ان سے محبّت کرنے والے لوگوں کا توایک پوراجہان آباد ہے ۔ 

سب نے جالبی صاحب کے جانے کا دُکھ اپنے دُکھ کی طرح سمجھا اور ان کی مغفرت کی دُعا کے ساتھ ان کے تمام تحقیقی ، علمی، ادبی اور تاریخی کاموں کو بھی نہ صرف سراہا، بلکہ ان کی کمی کو ادب میں ایک بڑے خلا سے منسوب کیا ۔ان کے مدّاح ،عقیدت مند اور ان سے استفادہ کرنے والوں کی آج تک مسلسل دلی جذبات پر مشتمل تحریریں آ رہی ہیں اور جب تک جالبی صاحب کے اپنے لگائے ہوئے اردو زبان وادب کے درخت، تشنگانِ ادب کو سایا فراہم کرتے رہیں گے، تب تک ان کی یاد سب دلوں میں جاوداں رہے گی۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کی رحلت پر جس طرح مُلک اور اقلیم ِادب میں ان کی کمی پر افسوس کیا گیا ، اس بات کی دلیل ہے کہ پاپا ایک عظیم تاریخ دان، محقّق ، نقّاد، مترجّم، ادیب ،دانش وَر اور ایک مشفق انسان تھے ۔انھوں نے اردو ادب کے دامن کو اپنی تصنیفات و تالیفات اور مستند تحریروں سے جس طرح باثروت کیا ، اس کی مثال خال ہی ملتی ہے ۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنا ہر ہر لمحہ علم و فضل کے حصول اور تقسیم کے لیے وقف کر دیا، جو رہتی دنیا تک علم و ادب کے افراد کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ 

ویسے تو ان کی ہر تصنیف و تالیف ہی اپنی جگہ ایک مستند کتاب کا درجہ رکھتی ہے، مگر خاص طورپر ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ جو چار جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد کے صفحات 1200 سے 1400تک ہیں ،اردو کی اب تک کی تاریخ کی سب سے زیادہ مستند تاریخ قرار پاتی ہے اور یہ بات مَیں ایک بیٹے کی حیثیت سے نہیںکہہ رہا،بلکہ پوری علمی و ادبی دنیا اس بات کی گواہی دے رہی ہے ۔ یہ تاریخ بیسویں صدی تک کے اردو ادب کی تاریخ ہے ،اےکاش! زندگی تھوڑی سی مہلت اور دےدیتی ،توپاپا اکیسویں صدی کے چند اور نام وَرانِ ادب کی تاریخ بھی مرتّب کر جاتے اور یوں یہ کتاب عصرِ حاضر کے لیےاردو ادب کی مکمل تاریخ بن جاتی، مگر ایسا کیوں نہیںہوا، اس میں بھی قدرت کی کوئی مصلحت ہی ہو گی۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اسکول ہیڈ ماسٹر کے عُہدے سے کیا، مگر ان کی منزل بہت آگے تھی۔ وہ کمشنر انکم ٹیکس مقرر ہوئے اور اپنا یہ عہدہ نیک نامی کے ساتھ سنبھالا۔ مگر علمی زندگی کا یہ دوسرا پتھر بھی راہ کا پتھر ہی تھا کہ ان کی منزل ابھی دُور تھی۔ وہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے تو جیسے انہیں ان کی منزل مل گئی،کیوں کہ قلم و قرطاس کے شخص کے لیے ایک علمی ادارہ ہی اس کی اصل منزل ہوتا ہے۔ اُن دنوں جامعہ کراچی متعدّدشورشوں کا شکار تھی،مگر ڈاکٹرجالبی کے حُسنِ تدبّر سے جلدہیجانی کیفیات سے باہر آگئی۔جالبی صاحب کا پہلا دورانیہ چار برس پر محیط تھا ، مزید چار برس کا وقت بھی مل سکتا تھا ،مگر ایسا نہیں ہوا اور انھیں مقتدرہ قومی زبان کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ 

انہوں نےاسلام آباد جا کر اس ادارے کو مزید سنوارا ۔بعد ازاں، وہاں سے مستعفی ہو کر واپس کراچی آگئے اور تاریخِ ادبِ اردو کی چوتھی جلد پر، جو نصف سے زیادہ مکمل ہو چُکی تھی، کام میں مصروف ہو گئے ۔ اورپھر لگ بھگ سال بعد چوتھی جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آگئی ۔ان کی تصانیف و تالیفات کی تعداد انگلیوں کی پوروں سے کہیں زیادہ ہےکہ اُن کااصل کام تو صرف تصنیف و تالیف ہی تھا ۔میرے پیارے پاپا، قلم کے سپاہی تھے اور سپاہی بھی ایسے جو ہرمیدان میںسُرخ رُوہوا ۔ ہر کتاب کو ایک سنگِ میل بنا دیا اور آج ان کی ہر کتاب اردو ادب کے لیے ناگزیر ہے۔

ویسے تو یہ دنیا فانی ہے، ہر شئےایک دن فنا ہو جائے گی۔کچھ لوگ جلدی دنیا سے رخصت ہوگئےور کچھ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ ،جو رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میںزندہ رہیں گے اورانہیں زندہ رکھتا ہے، اُن کا اچھا اخلاق، ان کا کام اور صدقۂ جاریہ۔اور مجھے یقین ہے، میرے پاپا، ڈاکٹر جمیل جالبی کا کام انھیں رہتی دنیا تک زندہ و پائندہ رکھے گا۔

تازہ ترین