• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین ! اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مضبوط تاریخی اور برادرانہ تعلقات قائم ہیں اور یہ تعلقات ہر دور میں مضبوط اور مستحکم رہے ہیں ۔یہ تعلقات رسمی ،عارضی یا کسی مصلحت کا نتیجہ نہیں بلکہ حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب پاکستانیوں کی والہانہ عقیدتوں کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے ۔پاکستان میں سیاسی حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلق ہمیشہ مضبوط رہا۔پاک سعودیہ دوستی کے سفر کا آغاز یوں تو قیام پاکستان کے فوراََ بعد ہی ہوگیا تھا تاہم 1951میں یہ کبھی نہ ختم ہونے والےولولہ انگیز اور پر جوش تعلقات میں تبدیل ہوگیا جو آج نئی روشن منزلوں کی جانب گامزن ہے۔ماضی میں کچھ عاقبت نا اندیشوں نے ان تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کوشش بھی کی تاہم دراڑیں ڈالنے والے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے ۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔دفاع ،معیشت اور توانائی سمیت متعدد شعبوں میں دونوں ملک ایک دوسرے سے بھر پور تعاون کر رہے ہیں ۔موجودہ حکومت کے دور میں یہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں ۔

سعودی عرب پاکستان کیلئے تیل فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور 2013اور 2018میں معاشی بحران کے دوران سعودی قیادت نے پاکستان کو غیر مشروط تعاون فراہم کیا۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کی بھی ایک طویل تاریخ ہے جس کا آغاز 1967میں ایک دفاعی پروٹوکول کے معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔اسی طرح1982میں ہونیوالے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی جس میں دفاعی مقاصد اور ٹریننگ کیلئے سعودیہ میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی اور دفاعی پیداوار کے علاوہ مشترکہ مشقوں کے نکات بھی شامل تھے۔پاکستان کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے صحت ،تعلیم ،انفراسڑکچر اور فلاحی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور جب کبھی پاکستان پر کڑا وقت آیا تو بھر پور ساتھ دیا۔ سیلاب ،زلزلہ یا کسی دوسری ناگہانی آفت کی صورت میں ہمیشہ پاکستان کی بڑھ چڑھ کر مدد کی ۔دونوں ممالک کے درمیان زراعت ،صنعت ،آئی ٹی ،افرادی قوت ،ماحولیات ،آبپاشی کے منصوبوں ، فلم سازی اور علمی میدان میں تعاون کے مواقع موجود ہیں تاہم ان شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں مالیاتی لین دین کا حجم زیادہ ہو اور پاکستان اپنا کردار ادا کر سکے ۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے اقتصادی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ،تاہم اتنا کافی نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ دوطرفہ تعاون کے حجم کو مزید بڑھایا جائے ۔حکومت پاکستان کو امید ہے کہ آنے والے برسوں میں سعودی عرب پاکستان میں مختلف شعبوں خاص طور پر معدنیات اور کان کنی میں بھاری سرمایہ کاری کرے گا۔سعودی عرب میں کئی تعمیر و ترقی کے منصوبے جاری ہیں جن میں پاکستان کردار ادا کر سکتا ہے ۔ پاکستان نے خلیجی ممالک سے بھی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے کیلئے حال ہی میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل تشکیل دی ہے ،جس کا کام بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرنا ہے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 25لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کی غرض سے مقیم ہیں ،جو ہر سال اربوں ڈالر بطور زرمبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں کہ وزیر اعظم اپنے دورے کے اعلان کردہ مقاصد کو پورا کرنے کیلئے جلد عملی اقدامات اٹھائیں گے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ پاکستانیوں کیلئے سعودی عرب کے ویزے میں آسانی ،محنت کشوں کیلئے سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

مسلم دنیا کیخلاف اسلامو فوبیا جیسے شرانگیز ذہنیت کے حامل مغربی یورپی ممالک اور انکی تنظیموں کی سازشوں کا باہمی اتحاد و یکجہتی کو مضبوط بنا کر ہی موثر توڑ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کی آڑ میں مسلم دنیا کو تقسیم کرکے کمزور کرنے کی سازشوں کا بھی مسلم دنیا کا مضبوط دفاعی حصار بنا کر توڑ کیا جا سکتا ہے جس کیلئے بہرحال سعودی عرب اور پاکستان نے ہی کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ مسلم دنیا کے 56 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہونے کے ناطے انسانی حقوق کے تحفظ کے اس نمائندہ عالمی فورم کو بھی مسلم دنیا کیخلاف جاری سازشوں کے توڑ کیلئے بروئے کار لا سکتے ہیں اور امریکہ اور بھارت کو فلسطین اور کشمیر میں جاری نسل کشی روکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ چونکہ سعودی عرب اور پاکستان کے دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور چین کے ساتھ تزویراتی مراسم بھی استوار ہیں‘ اس لئے باہمی ہم آہنگی کے تحت ان دونوں ممالک کے تعاون سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی فضا ہموار کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس طرح پاکستان اور چین کی دوستی شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہونے کے ناطے دنیا میں ضرب المثل ہے‘ بعینہ سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی بھی مثالی ہے اور ان دونوں ممالک نے قدرتی آفات اور آزمائش کے دوسرے مراحل میں باہمی تعاون میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بالخصوص برادر سعودی عرب نے پاکستان کی بدحال معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور سیلاب، زلزلے، کورونا جیسی قدرتی آفات سے عہدہ برا ہونے کیلئے اس کے کندھے سے کندھا ملائے رکھا ہے۔ سعودی عرب نے آئی ایم ایف سے نیا بیل آئوٹ پیکیج لینے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور خود بھی آسان شرائط پر پاکستان کو قرضہ اور تیل فراہم کرکے اسکی معیشت کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ اس وقت پاکستان میں پھیلتی دہشتگردی کے باعث یہاں سرمایہ کاری کی فضا سازگار نہیں ،اسکے باوجود سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ،سعودی وزراء اور مختلف تجارتی وفود پاکستان کا دورہ کرکے یہاں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیتے اور ایم او ایوز پر دستخط کرتے ہیں اور اس مد میں پیش رفت کیلئے عملی اقدامات بھی کرتے ہیں۔

تازہ ترین