• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بیجنگ ایئرپورٹ سے ہوٹل شین من آتے ہوئے سڑک پر جاپانی کاروں پر نظر پڑی تو مجھے بہت حیرت ہوئی اس پر پروفیسر پریشان خٹک نے کہا بھتیجے اس میں حیرت کی کون سی بات ہے یہ کاریں کسی فرد کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اسٹیٹ کی ہیں۔ چنانچہ یا تو بطور ٹیکسی استعمال ہوتی ہیں یاسرکاری مقاصد کیلئے استعمال میں آتی ہیں بہرحال کوکا کولا کے علاوہ باہر سے جو چیزیں آتی ہیں۔ ان میں یہ کاریں بھی ہیں جن پر مغربی تہذیب بھی سوار ہوکر آگئی ہے چنانچہ جب آج ہم ایک چینی شہنشاہ کا سمر پیلس دیکھنے گئے تو اس محل کی پھولوں اور درختوں سے ڈھکی ہوئی ایک رومینٹک لین میں جگہ جگہ نوجوان جوڑے کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے تھے بلکہ ایک بنچ پر ایک جوڑا تو اس عالم میں تھا کہ نوجوان بنچ کے ساتھ ٹیک لگائے سو رہا تھا اور لڑکی اس نوجوان کے گھٹنوں پر سر رکھے سو رہی تھی۔ میں نے لیو سے پوچھا کیا یہ شادی شدہ ہیں ۔ یہ ستم ظریف کہنے لگا نہیں کیونکہ یہ اگر شادی شدہ ہوتے تو لڑکی کےبجائے لڑکا اس کے گھٹنوںپر سر رکھے سو رہا ہوتا۔ لیو اچھا خاصا جملے باز ہے چنانچہ اچھا فقرہ سوجھ جائے تو کہے بغیر نہیں رہتا۔ ہوٹل شین من کی راہداری میں ایک کمرے کے باہر وی آئی پی لکھا ہوا تھا۔ مہتاب راشدی نے پوچھا کہ چین میں وی آئی پی کون ہوتا ہے۔ لیو نے کہا ، وہ جو خود کو وی آئی پی سمجھتا ہے۔

چینی ادیبوں کی طرف سے نہایت خوبصورت جھیل کے کنارے واقع کلچرل کلب میں دیئے گئے عصرانے میں چینی ادیبوں سے بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ ان میں یوان ینگ بھی تھے جو اتنے ’’ینگ‘‘ بہرحال نہیں تھے۔ انہیں حکومت پاکستان نے ’’ستارہ قائد اعظم‘‘ دیا ہے۔ یہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور پاکستان کے بارے میں ان کی نظموں کا مجموعہ ’’لہکتے ہار‘‘ کے عنوان سے اردو میں چھپا ہے۔ آپ رائٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہیں ان کے علاوہ چی پھونگ ، چیانگ تہہ لنگ، لی شی وانگ ،شن شیاں اور لو شامل ہیں ان میں سے چانگ شی شو انگ تو باقاعدہ اردو میں شعر کہتے ہیں اور انتخاب عالم تخلص فرماتے ہیں۔ اس عصرانے میں انہوں نے اپنی تازہ غزل سنائی جو انہوں نےسفیر پاکستان متعینہ عوامی جمہوریہ چین جناب محمد اکرم ذکی کی غزل کی زمین میں کہی تھی انہوں نے غزل سناتے ہوئے ایک شعر پڑھنے سے پہلے کہا جناب یہ ذرا لکھنوی قسم کا شعر ہے اور شعریہ تھا:

فراقِ یار نے مارا خیال یار نے مارا

جو صورت یار سے ملتی نظر آئی تو دل دھڑکا

ان کے علاوہ مسٹرلوکا بھی جواب نہیں، ایسی نستعلیق اردو بولتے ہیں کہ ہمیں ہی نہیں خود انہیں بھی پسینہ آ جاتا۔ ملاقات پر اپنا تعارف کراتے کہنے لگے اس خاکسار کو لو کہتے ہیں۔ پروین شاکر نے پوچھا آپ اردو میں شعر بھی کہتے ہیں کہنے لگے خاکسار میں یہ تاب کہاں بس آپ جیسے حضرات کا نیاز مند ہوں۔ اگر مسٹر لو ہمیں چین کی بجائے پاکستان میں ملتے تو ہم انہیں سادات امروہہ میں سے سمجھتے۔ چینی ادیبوں نے ڈنر کا اہتمام پیکنگ ڈک ریستوران میں کیا تھا اور اس عشایئے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں سلاد سمیت تمام ڈشز بطخ کے گوشت سے تیار کی گئی تھیں۔ جن میں بطح کے پائے بھی شامل تھے ایک خصوصی ڈش ’’پیلکن ڈک‘‘ تھی جو پوری نما چپاتی میں بطح کے قتلے چٹنی کے ساتھ رکھ کر کھائی جاتی ہے۔ کھانا سرو کرنے سے پہلے ویٹرس ایک ٹرے میں سالم بطخ سٹڈ لے کر آئی اور ہمیں دکھا کر اسی طرح واپس لے گئی جس طرح لڑکے والے لڑکی والوں کو وری کے کپڑے دکھا کر واپس اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ بعد میں یہ ویٹرس بطح کے قتلے بنا کر واپس لائی۔ رات کا یہ کھانا سہ پہر چھ بجے کھایاگیا۔ خدا کرے چین سدا خوشحال رہے۔ اس کے عوام پھولیں پھلیں اور دشمنوں کی نگاہ بد سے محفوظ رہیں اور اسکے علاوہ ایک دعا یہ بھی ہے کہ کاش ہم لوگ چین سے بعض شعبوں میں اس کی ترقی کا راز پوچھیں اس سے پوچھیں کہ اس نے ایک سو کروڑ عوام جو بھوکے ننگے تھے جو افیمی تھے جن کی مائیں اپنے بچوں کی گردنوں میں ان کی قیمت کا ٹیگ لٹکا کر انہیں فروخت کرنے کیلئے بازار میں لگی قطار میں بیٹھ جاتی تھیں وہی چینی عوام آج فخر سے اپنی گردن تان کر کیسے چلتے ہیں۔ کاش ہم یہ راز ان سے پوچھیں اور اس راز کو راز ہی نہ رہنے دیں بلکہ کچھ کرکے بھی دکھائیں۔

لاہور سے روانگی کے وقت انیس ناگی نے فرمائش کی کہ میں اس کیلئے ایک مائو کیپ لیتا آئوں چین کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی میں نے مائو کیپ کی تلاش شروع کردی، میں ایک اسٹور سے دوسرے اسٹور تک مارا مارا پھرتا رہا مگر وہاں ہر قسم کی ٹوپیاں نظر آئیں اگر نظر نہیں آئی تو وہ مائو کیپ تھی۔ اس پر میں نے پریشان ہو کر اپنے گائیڈ لیوچن سے پوچھا کہ مارکیٹ سے مائو کیپ کیوں غائب ہے۔ اس پر اس نے کہا سچی بات یہ ہے کہ مائو کیپ کی مانگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مارکیٹ میں نظر نہیں آتی، ایک وقت تھا کہ پوری چینی قوم مائو کیپ میں نظر آتی تھی مگر اب صورت یہ ہے کہ مائو کے ساتھ اس کی ’’کیپ‘‘ بھی غائب ہوگئی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چین میں مائو صرف شن من اسکائر کے مائو میموریل میں نظر آتا ہے وہ شیشے کےتابوت میں لیٹا ہوا ہے اس نے اپنا مخصوص کوٹ پہن رکھا ہے وہ سرہانے پر سر رکھے آنکھیں بند کئے سو رہا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ایک وقت میں بیس پچیس ہزار لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئےطویل قطاروں میں کھڑے نظر نہ آتے ہوں۔ میں نہیں جانتا اتنی بڑی تعداد میں لوگ ایک مردہ شخصیت کو دیکھنے کیوں آتے ہیں لیکن چین کے ادیبوں، دانشوروں، شاعروں، یونیورسٹی کے گریجویٹس اور نئی نسل کے افراد کچھ اور طرح کےچینی ہیں وہ مائو کے ثقافتی انقلاب کو چین کی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ قرار دیتے ہیں، میں نے ایک چینی دوست سے با ت کی تو اس نے کہا مائو کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس نے غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف ناقابل فراموش جدوجہد کی۔ ہم اس کی عظیم قربانیوں کے معترف ہیں لیکن غیر ملکی حملہ آوروں کو نکالنے کے بعد اسے ریٹائر ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا جرنیل ملک کو بھی اچھے طریقے سے چلا سکے۔(جاری ہے)

تازہ ترین