معقول بھائی اور معمول بھائی سگے اور جڑواں بھائی ہیں ، معقول بھائی کی صحت، مزاج اور عقل درست ہو تو معمول بھائی کے حالات بھی اعتدال پر آ جاتے ہیں۔لڑائی جھگڑا اور تضاد آ پڑے تو معقول بھائی عقل، دلیل اور لچک سے راستہ نکالتا ہے اور یوں معمول بھائی اس سیدھے راستے پر چل پڑتا ہے۔
تضادستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ حالات کو معمول یعنی نارملائزیشن کی طرف لانا ہے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب حکومت، تحریک انصاف اور مقتدرہ تینوں معقولیت سے کام لیں اس وقت کے تینوں بڑے سیاسی فریق انتہا پسندی، ضد اور انا کا شکار ہیں مستقبل میں جب تاریخ لکھی جائے گی تو تینوں فریقوں کو موجودہ سیاسی بحران کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ دنیا بھر میں مصالحت، جنگ بندی اور نارملائزیشن صرف اور صرف لچک سے ممکن ہوتی ہے اگر ہر فریق اپنے موقف اور ضد پر اڑا رہے تو حالات کا معمول پر آنا ناممکن ہے امریکہ سے آیا ہوا وفد ہو، خان کے چاہنے والوں کی خواہش ہو یا پھر حالات کو معمول پر لانے کا لازمی تقاضہ، اصل بات یہ ہوگی کہ خان کی رہائی کے بدلے مقتدرہ کو کیا ملے گا؟ جب تک تینوں فریق تھوڑا تھوڑا نقصان برداشت کرکے تینوں کے فائدے کی پوزیشن پر نہیں آئیں گے یہ بحران حل نہیں ہوگا سادہ سی بات ہے کہ عمران خان کو رہا کرکے مقتدرہ کیوں نئی مصیبت میں پڑے اور اپنے قائم کردہ سیاسی نظام کے لئے کیوں خطرات پیدا کرے؟ شہباز حکومت عمران خان کو ریلیف دے کر اپنی خود کشی کا سامان کیوں پیدا کرے؟ دوسری طرف عمران خان یہ سوچتا ہوگا کہ حکومت اور مقتدرہ کے سامنے کسی بھی لچک سے اس کا بیانیہ اور پھر مقبولیت کو نقصان پہنچے گا تینوں فریقوں کے دلائل منطقی طور پر درست ہیں اور تینوں کے پاس اپنے اپنے دلائل کا ٹھوس جواز موجود ہے۔ لیکن حسن اتفاق سے اس بڑے بحران کو معقولیت سے معمول پر لانا بہت آسان ہے۔ عمران خان وقتی طور پر موجودہ نظام کو مان کر جلد آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی شرط عائد کرلیں، حکومت کا ایک سال گزر گیا عمران خان مڈٹرم کا مطالبہ کردیں ہوسکتا ہے کہ معاملہ تین ساڑھے تین سال بعد انتخابات پر طے ہو جائے دوسری طرف حکومت کو اس شرط کے ماننے سے استحکام اور قانونی اور آئینی جواز مل جائے گا مقتدرہ بھی اس سے فائدے میں رہے گی کیونکہ مقتدرہ کے خلاف الزامات بند ہو جائیں گے۔ اگر ان نکات پر معاملہ طے ہو جائے تو سیاسی ٹمپریچر فوراً معمول پر آ جائے گا۔
بات تو ہو رہی تھی معقول بھائی اور معمول بھائی کی۔ تضادستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں نہ معقول بھائی کی کار فرمائی نظر آتی ہے اور نہ 75سالوں سے معمول بھائی کو پکا پکا لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہاں کا سیاسی کارکن انتہاپسند، بے دلیل اور بے صبرا ہے ،یہاں کا مذہبی کارکن شدت پسند اور نتیجہ کے طور پر خود کش بمبار بن چکا ہے، یہاں کی قیادت جھگڑوں کو طے ہی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ مصالحت میں مفادات قربان کرنا پڑتے ہیں۔
فرض کرلیں کہ آج سے ہم ملک معقول اور معمول بھائی کے حوالے کر دیتےہیں تو مذہبی، سیاسی اور معاشی مسائل دلیل ، عقل اور لچک سے حل ہو سکتے ہیں۔ معقول بھائی بے چارا تو ہر محفل میں کونے میں دبکا رہتا ہے کیونکہ محفل میں شریک ہر فریق بلاکم و کاست معقول بات نہیں کرتا بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر غیر معقول اور نامعقول بات کی جائے یہی وجہ ہے کہ اکثر آزادانہ سیاسی، مذہبی اور اخلاقی مجالس جھگڑے،لڑائی اور بدکلامی پر منتج ہوتی ہیں حالانکہ اگر معقولیت سے مباحث ہوں تو معاشرے میں معمول بھائی کا راج ہو جائے۔
دنیا میں جہاں جہاں امن اور خوشحالی ہے وہاں معمول بھائی زندگی کو چلاتے ہیں معمول بھائی کو طاقت معقول بھائی دیتے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں سے بھی معقول بھائی رخصت ہوتے ہیں اور وہاں دلیل و عقل سے ہٹ کر معاملات چلائے جاتے ہیں وہاں سے معمول بھائی خود بخود رخصت ہو جاتے ہیں اور وہ معاشرہ نارمل سے ابنارمل میں تبدیل ہو جاتا ہے، وہاں سے کوئلوں اور بلبلوں کی موسیقی والی آوازیں رخصت ہو کر چیلیں اور مردار خور راج کرتے نظر آنے لگتے ہیں۔ آج کی مثال ہی لے لیں جونہی امریکہ میں صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ، معقولیت ختم ہو گئی ہے عقل اور دلیل کے غائب ہونے سے معقول بھائی نے اپنا سامان باندھ لیا ہے اور اب وہ دن بھی دور نہیں جب معمول بھائی بھی وہاں سے غائب ہو جائیں گے۔
اس وقت تضادستان انتہائی بحرانی صورتحال کا شکار ہے مذہبی دہشت گردی کی افغانستان سے پشت پناہی کی جارہی ہے تو بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت کے ہونے کا خطرہ ہے، سندھ 6کینالز کے معاملے پر ناراض ہے، خیبر پختونخوا میں فرقہ وارانہ لڑائیاں اور دہشت گردی کے واقعات امن کو تار تار کر رہے ہیں، دنیا کے کئی ملکوں کی ہمارے نیوکلیئر پروگرام پر بری نظر ہے، معیشت میں خلیجی ممالک کی طر ف سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے جو اشارے دیئے گئے تھے وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ سیاست عدم استحکام کا شکار ہے، اپوزیشن رہنما جیل میں ہے، دہشت گردی تک کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ ایسی صورتحال کا واحد حل پہلے اندرون ملک اپنی صفوں کو متحد کرنا ہے اس کے لئے اپوزیشن سے مذاکرات اور باہمی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک پرامن اور منصفانہ حل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تینوں فریقوں میں موجود معقول بھائی اور معمول بھائی پہل کریں، انا کے بتوں کو توڑتے ہوئے 23کروڑ پاکستانیوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کی طرف قدم بڑھائیں۔
دو انسانوں کی دوستی ہو تو بھی اس میں معقولیت اور اس کو معمول پر رکھنا اہم ہوتا ہے گھر کے اندر اگر میاں بیوی معقول بھائی اور معمول بھائی کا استعمال نہ کریں تو گھر کا سکون تباہ ہو جاتا ہے، خاندان کے اندر اگر معقول بھائی اور معمول بھائی کارفرما نہ ہوں تو خاندان ٹوٹ جاتے ہیں ، سیاسی جماعت کے اندر اگر معقول اور معمول بھائی پچھلی صفوں میں چلے جائیں تو سیاسی پارٹیاں افراتفری کا شکار ہو جاتی ہیں، اگر ملک کے ادارے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں اور معقول و معمول مداخلت نہ کریں تو ملک اور ریاست کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جاتے ہیں اگر حکومت اور اپوزیشن کسی قابل عمل حل پر نہ پہنچیں معقول بھائی اور معمول بھائی آگے نہ آئیں تو پھر اس ملک میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوتا۔
ہمارے مسائل کا حل معقول بھائی اور معمول بھائی ہیں، ان کے مقابلے میں ضد، انا، غصہ، انتقام اور اقتدار کا نشہ مزاحم ہے۔ آیئے معقول بھائی اور معمول بھائی کو مضبوط کریں تاکہ ہم سب مضبوط ہوں۔