• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کی خالق سیاسی جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے بھارت میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کر لیا ہے اور اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ بھارتی عوام نے کانگریس کے خلاف واضح مینڈیٹ دیا ہے۔ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سونیا گاندھی کے فراخدلی والے اس بیان میں ہمارے بعض پاکستانی سیاست دانوں کے لئے بھی ایک سبق ہے ۔ کانگریس نہ صرف ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی سیاسی جماعت ہے بلکہ اس کی موجودہ قیادت کے پاس طویل سیاسی تجربے کا ایک عظیم ورثہ موجود ہے۔ ہمارے نوآموز سیاستدان کانگریس کی قیادت کے تدبر کا شاید ادراک بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے ایک سیاست دان عمران خان نے کرکٹ سے شہرت حاصل کی اور ان کی اس شہرت سے پاکستان کی غیر سیاسی قوتوں نے فائدہ اٹھایا اور انہیں مقبول سیاسی رہنماؤں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ۔ کہا یہ جاتا ہے دوسرے سیاست دانوں کو گالیاں دینا عمران خان کی سیاست کی بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر وہ خود کو پاکستان کا مقبول ترین لیڈرسمجھ رہے ہیں ۔ انہوں نے نہ تو جمہوری تحریکوں میں حصہ لیا اور نہ ہی جمہوریت کے لئے دی گئی عظیم قربانیوں میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ انہوں نے سیاست کا وہ راستہ اختیار کیا، جس میں کوئی آزمائش اور امتحان نہیں ہے ۔مخالفین یہ کہتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ ان قوتوں کی حمایت حاصل رہی جو ہر اس شخص پر قہر نازل کر دیتی ہیں جس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان میں حقیقی عوامی راج قائم ہو لہٰذا عمران خان اس بات کو کبھی نہیں سمجھ پائیں گے کہ سونیا گاندھی نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرکے بھارت کے جمہوری سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے ۔
عمران خان کو یہ بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن سونیا گاندھی یہ بات ضرور سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں بعض غیر سیاسی قوتیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے امیدوار نریندر مودی کی فتح پر بہت خوش ہیں۔ سونیا گاندھی اور کانگریس کی پوری قیادت کو اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ قوتیں اس زعم میں ہیں کہ بھارت کے انتخابات میں جیسے انہوں نے ہی فتح حاصل کی ہے۔ کانگریس کی قیادت کو اس امر کا بھی ادراک ہے کہ بھارتی انتخابات میں کس طرح بھارت کے اندر اور باہر کی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود کانگریس کی قیادت نے یہ باور کرا دیا ہے کہ انتخابات میں جو بھی فیصلہ آیا ہے اسی کے تحت بھارت کو آگے بڑھایا جائے گا اورکوئی بحران پیدا کر کے جمہوری عمل کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائے گا۔ پاکستان میں بھی سیاسی قیادت نے جمہوریت کو بچانے کے لئے بڑے تدبر کا مظاہرہ کیا ہے ۔ 1997ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کو پورے ملک میں قومی اسمبلی کی صرف 16 نشستیں دی گئی تھیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے انتخابی نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ نتائج کو اس لئے تسلیم کرتی ہیں کہ ملک میں جمہوری تسلسل جاری رہے ۔ ان انتخابات کوپاکستان کا کوئی بھی ذی شعور شخص شفاف اور منصفانہ قرار نہیں دے سکتا۔ پاکستان میں 1970ء کے عام انتخابات کے سوا تمام انتخابات کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان موجود ہے۔ 11 مئی 2013ء کو ہی انتخابات کے دن کسی نے یہ خوب لکھا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات عوام کے فیصلے کے لئے نہیں بلکہ ’’جمہوری انتظام‘‘ کرنے کے لئے ہو رہے ہیں۔ اسی انتظام میں ہی عمران خان بھی ’’ایڈجسٹ‘‘ ہو گئے۔ یہ انتظام بہت پہلے سے ہو رہا تھا اور عمران خان کے جلسوں کے انعقاد کیلئے تمام قوتیں مددگار بن گئی تھیں۔انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کا سندھ کے سوا دیگر صوبوں میں صفایا کر دیا گیا۔ عمران خان تو پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ ہر اسمبلی میں ان کے ارکان موجود ہیں۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے بھی جمہوری عمل کے لئے خاموشی اختیار کر لی۔ پاکستان میں ایسے بھی تماشے ہوئے کہ کسی الیکشن کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو ایک معمولی پارٹی بنا دیا گیا اور کسی الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کا وجود ختم کردیا گیا۔ مخالفین کہتے ہیں خان صاحب کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے اور پاکستان تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتوں کو ایک بڑی سیاسی جماعت بننے کا موقع مل جاتا ہے۔
تحریک انصاف کے وجود میں آنے سے پہلے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تحریک استقلال نامی پارٹی بھی موجود تھی جسے ان قوتوں نے بڑی سیاسی جماعت بنا دیا تھا جو آج عمران خان کو لیڈر بنا رہی ہیں۔ تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل (ر) اصغر خان تھے وہی اصغر خان عمران خان کی پارٹی میں شامل ہوگئے یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پرانے عمران خان نئے عمران خان کی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس پر کسی نے خوب تبصرہ کیا تھا کہ پرانا اصغر خان نئے اصغر خان کی پارٹی میں شامل ہو گیا ہے۔ عمران خان کو سونیا گاندھی اور بے نظیر بھٹو کی بصیرت کا ادراک کرنے سے پہلے اس حقیقت پر ایمان لے آنا چاہئے کہ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے۔ کسی دن الگ کمرے میں اصغر خان کو بٹھا کر اس حقیقت کے بارے میں پوچھ لیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ اصغر خان کی بات اصغر خان کو ضرور سمجھ آئے گی یا عمران خان کی بات عمران خان کو لازماً سمجھ آئے گی۔ اگر دونوں خان صاحبان کو کوئی سکون کی جگہ نہ ملے تو وہ سردار جعفر خان لغاری کے چوٹی زیریں میں واقع فارم ہاؤس چلے جائیں ، جہاں نئے عمران خان اکثر جایا کرتے تھے ۔ دونوں خان صاحبان کے لئے یہ بہت پُرسکون جگہ ہے جہاں وہ اس حقیقت کو بیٹھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ تاریخ کس قدر بے رحم ہوتی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان دوسروں پر بیرونی امداد لینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر کسی پر پتھر نہیں اچھالنے چاہئیں۔ لغاری سرداروں کے فارم ہاؤسز میں بیٹھ کر پرانے اصغر خان سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر مقبول لیڈر بن گئے تھے اور کس طرح ان کے بڑے بڑے جلسے ہوتے تھے حالانکہ اس وقت بڑے جلسوں کے لئے جدید طرز کے ’’ایونٹ منیجرز‘‘ بھی نہیں ہوتے تھے، جو نئے اصغر خان کو میسر ہیں۔ پرانے اصغر خان یا عمران خان سے پُرسکون ماحول میں یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کس کے کہنے پر لگائے گئے تھے اور دھاندلی کے خلاف پی این اے کی تحریک کس کے کہنے پر شروع کی گئی تھی اور اس تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء کیوں لگا تھا، جس نے پاکستان کی سیاسی ، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار پر ایسی ضرب لگائی تھی کہ پاکستان پر لگنے والا زخم آج ناسور بن گیا ہے۔ پاکستان کو کوئی دوسرا زخم لگانے سے بہتر ہے کہ دونوں اصغر خانوں یا دونوں عمران خانوں کی ایک نشست ضروری ہے۔
تازہ ترین