• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہینوں کے روحانی باپ علامہ اقبال ان سے استفادہ کرتے تھے تو پھر اس روڑے کوڑے کو بھی اکبر الٰہ آبادی کی اصطلاحات کو استعمال کرنے اور ان کی نئی تشریحات کا پورا حق حاصل ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے ان تینوں الفاظ کو اس شعر میں بخوبی استعمال کیا ہے؎

نہ ان میں رنگ باغی کا، نہ ان میں بوُہے داغی کی

یہ حجت ہے فقط درگاہ قومی پر چراغی کی

اکبر الٰہ آبادی کے باغی، داغی اور چراغی اور تھے اور اس بے نوا کے اور ہیں ۔وہ وقت بھی اور تھا آج وقت بھی اور ہے چہرے،واقعات، حالات بدل جائیں تو ان کی تشریح میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ آج کل قومی افق پر سیاست غالب ہے تو آج کے باغی، داغی اور چراغی بھی سیاست ہی کے ہیں۔

تضادستان کی تاریخ میں پہلے 50سال کے باغی کمیونسٹ، قوم پرست، جمہوریت پسند اور صوبائیت پسند تھے۔ اس زمانے میں نظریاتی جنگ دلائل اور بعض اوقات لڑائی کی شکل میں لڑی جاتی تھی۔ کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کا خیال تھا کہ یہ مٹی سرخ انقلاب کیلئے موزوں تر ہے انکے انقلابی ارادوں کی وجہ سے انہیں ریاست باغی قرار دیتی تھی اور یوں وہ ریاست کے معتوب ٹھہرتے رہے۔ مارشل لاء جب جب آئے جمہوریت کیلئے آواز اٹھانے والے باغی ٹھہرے، کبھی مولوی تمیز الدین، کبھی سہروردی، کبھی نواب زادہ نصراللہ، کبھی بھٹو، کبھی بے نظیر، کبھی نواز شریف اور اب عمران خان بھی بغاوت کی اس کیٹیگری میں آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کتنے اقتدار کیلئے جمہوریت پسند تھے اور کتنے واقعی جموریت کیلئےاقتدار چاہتے تھے۔ عاصمہ جہانگیر، رضا ربانی اور جاوید ہاشمی جیسے باغیوں کو تو ہم نے جمہوریت کو ایمان کا حصہ سمجھ کر جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ سلمان اکرم راجہ سیاست میں آنے سے پہلے آئیڈیل پسند جمہوری تھے توقع یہی ہے کہ وہ اپنا نام اوپر دی گئی فہرست میں لکھوائیں گے اقتدار کیلئےجمہوریت کا کھیل نہیں کھیلیں گے۔ اکثر لوگ تو نظریاتی طور پر جمہوریت نہیں طاقت کے کھیل کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں ہماری انتخابی سیاست میں کوئی باغی خال خال نظر ہی آتا ہے، ہاں قطاروں میں ایستادہ طاقت کے شیدائی ، اقتدار کیلئے جھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہیں چند ہی لوگ نظریاتی طور پر کومٹڈ ہیں۔ کسی کو پسند آئے نہ آئے مگر محمود اچکزئی کا نام بھی اس فہرست میں آتاہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے بھی جمہوریت کی بحالی کیلئےطویل جدوجہد کی ہے ۔یوسف رضا گیلانی کا اعجاز چودھری کو سینٹ میں بلانے کا اقدام جمہوریت پسندی کی بہترین مثال ہے ان پر اس حوالے سے کیا کیا دبائو نہیں پڑے ہونگے مگر وہ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو کے بارے میں کئی لوگ بغض اور نفرت سے بھرے ہیں مگر ابھی تک ان کے حالات و نظریات جمہوریت سے وفا پر مبنی ہیں نون لیگ میں اسحاق ڈار سے سو اختلافات ممکن ہیں مگر وہ ہمیشہ سیاست میں لڑائی نہیں صلح کے قائل ہیں، جمہوری اقدار کے زبردست حامی ہیں انہیں بھی اس فہرست میں شامل رکھنا چاہئے ۔

باغی کے بعد داغی کا نمبر آتا ہے داغی کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتا ہے جدھر سے مفاد مل جائے ادھر جانے میں تاخیر نہیں کرتا ۔اصل داغی وہ لوٹے ہوتے ہیں جو جمہوریت کی رخصتی کے بعد آنے والی حکومتوں میں سینہ تان کر وزیر مشیر بن کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں مارشل لائوں کی حمایت کرنے والے ججوں پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے وہاں جرنیلوں کے علاوہ ان سیاست دانوں، صحافیوں اور حتیٰ کہ ان کے بڑے بڑے حامیوں کو بھی کم از کم علامتی سزائیں ضرور ملنی چاہئیں تاکہ جمہوریت اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والے داغی کہلائیں اور معاشرے میں دندناتے نہ پھریں اور سرعام جمہوریت، سیاست اور آئین کو برا بھلا نہ کہہ سکیں۔ اس ملک میں جمہوریت، سیاست، صحافت اور عدلیہ کا مستقبل تباہ کرنے والے داغی ہیں جو کسی اصول، کسی نظریے، کسی اصول کے قائل نہیں خود کو ایک تھپڑ بھی پڑے تو چیخوں سے آسمان سرپر اٹھا لیتے ہیں ،مخالف سے مل بھی جاتے ہیں اور اپنی جعلی بہادری کا سکہ بھی جمانے کی کوشش کرتے ہیں پاکستان سے بھاگنے والے سارے داغی ہیں جو محفوظ مقامات پر بیٹھ کر گولہ باری کر رہے ہیں انہیں پروا نہیں کہ گولہ ان کے محبوب کو مضروب کرتا ہے یا مقابل کو۔

سب سے خطرناک چراغی ہیں جو اپنے محبوب کو مار کر اس کے مزار پر چراغ جلانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ چالاک اور عیار ہیں جنہیں اپنے محبوب کی زندگی ،اس کی قید سے رہائی یا مشکلات سے چھٹکارے سےکوئی غرض نہیں۔ اس حوالے سے علیمہ خاں اور ان کی بہن واضح موقف رکھتی ہیں وہ صرف اور صرف اپنے بھائی کی رہائی کی بات کرتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت سے باغیانہ پیغامات بھی وہی دیتی ہیں۔ خیر ذکر تو چراغیوں کا ہو رہا تھا ان چراغیوں کو علم ہے جس دن خان جیل سے باہر آ گیا ان چراغیوں کا چراغ بجھ جائے گا ،ان میں کئی ستم ظریف تو ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ خان جیل سے کبھی باہر نہ آئے بلکہ بدقسمتی سے وہ چاہتے ہیں کہ خان کا تو مزار بن جائے اور اس پر وہ اپنے اپنے چراغ جلاتے رہیں ۔تضادستان کے چراغی خان کو نہ مصالحت کرنے دینگے نہ انکی خواہش ہے کہ وہ کبھی جیل سے باہر آئے۔نہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم بنے کیونکہ کپتان نے ان چراغیوں کو فوراً پہچان لینا ہے اور انکی چھٹی کروا دینی ہے ۔

کہتے ہیں کہ آج کی جدید دنیا کو باغیوں، پاگلوں اور جنونیوں نے تشکیل دیا ہے جبکہ اسی بات کا دانشورانہ بیانیہ یہ ہے کہ آ ج کی دنیا کو تخلیقی اقلیت(Creative Minority)ہی نے تشکیل دیا ہے اگر سقراط ،نیوٹن،بیکن اور ہمارے ہاں کے سرسید نہ ہوتے جو روایتی سوچ سے ہٹ کر سوچتے، وہ روایات سے بغاوت نہ کرتے تو شائد آج کی دنیا وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ نہ سائنس ہوتی ،نہ جمہوریت ہوتی اور نہ انسانوں کی زندگیوں میں سہولتوں کا وہ طوفان آتا جو گزشتہ کسی دور میں انسانی سوچ میں نہیں آ سکتا تھا۔ باغی اعلیٰ ترین ہوتے ہیں مگر بغاوت نظریے کی تابع ہوتی ہے، جمہوریت کے خالص نظریے کیلئے بغاوت ہو تو باغیوں کو سلام ورنہ داغیوں سے ہم کئی دفعہ داغدار ہوچکے اور چراغیوں کو تو دورسے سلام۔ اس قوم اور ریاست نےاگر زندہ رہنا ہے ، تو چراغیوں کے چراغ ہمیشہ کیلئے بجھانے ہونے۔

تازہ ترین