حالیہ چند دنوں سے عالمی میڈیا پر صرف ایک ہی خبر چھائی ہوئی ہے اور وہ ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مختلف ممالک پر تجارتی ٹیرف عائد کرنے کےفیصلے کی۔عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا بنیادی مقصد دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت چین کی معاشی بالادستی کو محدود کرناہے جو تیزی سے امریکی منڈیوں میں اپنا مال کھپا رہا ہے، تاہم ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ میں ہلچل مچا دی ہے اور امریکہ کے بہت سے دوست ممالک بشمول پاکستان، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی یونین وغیرہ بھی زد میں آگئے ہیں ، ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ تجاری ٹیرف کی مد میں امریکہ روزانہ 2ارب ڈالر حاصل کررہا ہے جبکہ اگلے دس برسوں میں لگ بھگ2اعشاریہ 9 ٹریلین ڈالر قومی خزانے میں جمع ہونے کی توقع ہے ۔ٹرمپ کے اقدامات کے ردعمل میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جسکے جواب میں ٹرمپ نے چین پر سو فیصد سے زائد ٹیرف عائد کرنے کا عندیہ دےدیا ہے۔ چین نائن الیون کے بعد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا ممبر بنا اور آج اپنی اقتصادی طاقت کو تیزی سے بڑھاتے ہوئے دنیا کی واحد سپرپاورامریکہ کوہر محاذ پر ٹف ٹائم دے رہا ہے ۔امریکی اقتصادی بالادستی کو لاحق خطرات کو بھانپتے ہوئے ٹرمپ نے گزشتہ دورِ حکومت میںامریکی صنعتوں کو بیرون ملک سے آنے والی غیر مساوی مسابقت سے بچانے کیلئے نئے محصولات متعارف کرائےتھے ،بالخصوص امریکہ میں اسٹیل، ایلومینیم، اور دیگر اہم صنعتوں کے تحفظ کیلئے نئےاضافی ٹیرف عائد کیے گئے جسکے بعد امریکی منڈیوں سے غیرملکی اجارہ داری کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی اور مقامی انڈسٹری کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا،ٹرمپ نے امریکی کاروباری اداروں کو ،اپنے پیداواری یونٹس کو بیرون ملک سے واپس امریکہ منتقل کرنے کیلئے پرکشش مراعات کی پیشکش کی ۔میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ اپنے آپ کو ایک سچے اور خالص امریکی لیڈر کے طور پرمنوانا چاہتے ہیں ، انہوں نے گزشتہ دورِ حکومت میں’’ سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور حالیہ الیکشن مہم میں بھی امریکہ فرسٹ اور میک امریکہ گریٹ اگین (امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا)سب سے زیادہ مقبول نعرے ثابت ہوئے۔ٹرمپ کا حالیہ اقدام اپنی انتخابی مہم کے دوران ووٹرز سے کئے گئے وعدے نبھانےکی ایک کڑی ہے ،امریکی صدر کا کہنا ہے کہ امریکہ تیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور امریکی منڈیوں میں جواپنا مال بیچنا چاہتا ہے اسکا فائدہ امریکی عوام کو پہنچنا چاہیے ، ٹرمپ کو بخوبی اندازہ ہے کہ غیرملکی مصنوعات پر نیا ٹیرف عائد کرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا لیکن غیرملکی اجارہ داری ختم کرنے سےامریکہ کی مقامی انڈسٹری کوفائدہ پہنچے گا، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے دنیا کے ہر ملک کو مجبور کردیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھے اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے، اسکی سب سے بڑی مثال یورپی یونین کی جانب سے امریکہ کو زیرو ٹیرف معاہدے کی پیشکش ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق جاپان اور جنوبی کوریا کےحکومتی وفد بھی ٹرمپ سے مذاکرات کرنے امریکہ پہنچ گئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ عالمی تعلقات میں ترجیح مستحکم اقتصادی تعلقات کو دی جاتی ہے، سفارتی محاذ پر وہی ملک سرخرو قرار پاتا ہے جو مذاکرات کی میز پر اپنے ملکی مفادات کا حصول یقینی بناتا ہے۔ اگر ہم اپنے خطے پر نظر ڈالیں تو کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا سامنا کچھ عرصہ قبل ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کو بھی کرنا پڑا جب اس وقت کے پردھان منتری من موہن سنگھ نے آئی ایم ایف اور عالمی امدادی اداروں کے چنگل سے نکلنے کیلئےملکی مفادات میں کچھ سخت فیصلے کیے، انڈیا نے چین کے ساتھ سفارتی اور سرحدی محاذ پر کشیدگی کے باوجود دوطرفہ تجارتی روابط استوار کیے ، آج چینی کمپنی بی وائی ڈی کے اشتراک سے عالمی شہرت یافتہ امریکی ٹیسلاکی ٹکر کی الیکٹرک گاڑیوں کی پروڈکشن بھارتی شہر حیدرآباد میں کی جارہی ہے۔دوسری طرف ہم پاک چین دوستی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ہماری چین کو ایکسپورٹ آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ یوم ِ آزادی کے موقع پر ہمارے قومی پرچم تک چین سے امپورٹ ہوکرآتے ہیں، ہم ابھی تک چین کوکوئی ایسی قابلِ ذکر اندسٹری اپنے ملک میں لگانے پر قائل نہیں کرسکے ہیں جسکی پروڈکشن ہماری ملکی معیشت کے استحکام کا باعث بنے۔ آج ٹرمپ کے سخت فیصلوں پر تنقید ضرور ہورہی ہے لیکن میری نظر میں امریکی صدر کے حالیہ اقدامات امریکہ کی عالمی سطح پر اقتصادی بالادستی برقرار رکھنے کیلئے کلیدی نوعیت کے ثابت ہونگے، عنقریب چین سمیت مختلف ممالک ٹیرف ایشو پر امریکہ کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات شروع کریں گے، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ ٹرمپ کی زیرقیادت ایک نئے عالمی ورلڈ آرڈر کا نکتہ آغاز ثابت ہوگا جسکے حوالے سے جوتشیوں کی یہ پیش گوئی پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ ٹرمپ رواں برس اپریل میں اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر پہنچیں گے۔ آج ہمارے اربابِ اختیار کو پاکستان کے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوئےتیزی سے بدلتے وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ہمیں فارن، فنانس اور ڈیفنس ماہرین پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے جو امریکہ سے ٹیرف ایشو پر مذاکرات کا آغاز کرے، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنا ہوم ورک اچھے سے مکمل کریں اور پھر مذاکرات کی میز پر دوسرے فریق کو قائل کرنے کیلئے پروپوزل پیش کریں۔ میں مختلف مواقع پر اپنا یہ موقف پیش کرتا آیا ہوں کہ ہم نے ماضی میں افغانستان ایشو سمیت مختلف معاملات میں اپنی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا لیکن اب حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں اور پریشان ہوکر جلدبازی میں کوئی اقدام نہ اٹھائیں،ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارا ٹریڈ جتنا دوسرے ممالک کے ساتھ بڑھے گا اتنا ہی ہمارے سفارتی تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اس وقت ہمیں ٹرمپ ٹیرف کی صورت میں جو چیلنج درپیش ہے اسکا سامناامریکہ کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات اور امپورٹ ایکسپورٹ میں توازن برقرار رکھنے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔