قارئین! یہ بات درست ہے کہ حکومت معاملات بہتر بنانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے اور کئی حوالوں سے معاشی امور میں بہتری بھی آئی ہے جس پرتاجر اور صنعتکار سمیت مختلف طبقےبھی حکومت کی بہتر کارکردگی کے معترف ہیں اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے برآمدات میں بہتری آئے گی۔ یہ قدم نہ صرف عوام پر مالی دباؤ کو کم کرے گا بلکہ پیداواری لاگت کم کر کے صنعتوں کو نمایاں فروغ بھی فراہم کرے گا۔ اسی طرح کاروباری لاگت میں کمی صنعتی اداروں میں اضافے کا باعث بنے گی۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا یہ فیصلہ معاشی بحالی، صنعتی ترقی اور مہنگائی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوگا جس سے صنعتی بنیاد مستحکم ہوگی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
وزیراعظم نے بجلی صارفین کو فی یونٹ قیمتوں کے سلسلے میں بڑا ریلیف دیا ہے۔ گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی قیمت میں 7روپے 41پیسے اور صنعتی صارفین کیلئے 7روپے 69پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی کی جائیگی۔ بجلی کے نرخوں میں کمی کے حکومتی پیکیج کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2393 ارب روپے ہے، اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرلیا گیا ہے، آئندہ 5سال میں گردشی قرضوں کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ سالہا سال سے بند پڑے زنگ آلود بجلی پیدا کرنے والے اداروں یا جنکوز کو بیچا جائے گا اور بجلی تقسیم کرنے والے اداروں یا ڈسکوز کو پرائیویٹائز یا پروفیشنلائز کیا جائے گا۔ سالانہ 600ارب روپے کی بجلی چوری کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ نجکاری و رائٹ سائزنگ کے بغیر پاکستان ترقی نہیں سکتا۔ وزیر اعظم نے معیشت کی بہتری کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کیلئے پر عزم ہیں۔ عید سے پہلے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ ہم نے عوام کو منتقل نہیں کیا بلکہ اسے بجلی کی قیمت میں کمی کیلئے استعمال کیا۔ اسی طرح، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح میں مزید کمی پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ رواں سال ماہ رمضان کے دوران شرح مہنگائی گزشتہ کئی دہائیوں کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی، مہنگائی کی شرح میں واضح کمی حکومتی پالیسیوں کی درست سمت اور حکومت کی عوامی فلاح و بہبود کیلئے انتھک محنت کا ثبوت ہے۔ مارچ 2025میں مہنگائی کی شرح 0.7 فیصد ریکارڈ ہوئی، گزشتہ سال اسی ماہ یہ شرح 20.7فیصد تھی۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 6 دہائیوں کی کم ترین سطح پر ہے۔ مہنگائی کی شرح میں کمی سے عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ساری صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ عوام کو پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں کتنا ریلیف واقعی مل سکتا تھا اور کتنا دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عید سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں گیا اور اسے بجلی کی قیمت میں کمی کے استعمال کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر کے دوران یہ نہیں بتایا کہ نہ صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں ہونے والی کمی کا فائدہ عوام کو نہیں دیا گیا بلکہ وفاقی حکومت کی طرف سے پٹرولیم لیوی میں 10روپے فی لیٹر اضافہ کر کے عوام پر مزید بوجھ بھی ڈالا گیا۔
دوسری جانب آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی تیاری کیلئے آئی ایم ایف ٹیم کی پاکستان آمد ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف وفد آئندہ ٹیکس، ریونیو اقدامات اور اخراجات پر کنٹرول سے متعلق بات چیت اور ترقیاتی اخراجات کے بجٹ کے حوالے سے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔ آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پیش کیا جائے گا۔ بجٹ کو حتمی شکل دینے کیلئے آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستانی حکام سے مل کر تجاویز تیار کرے گی۔ پاکستان کی معیشت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے اور مالیاتی پالیسیوں میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مداخلت پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ بجٹ کی تیاری جیسے بنیادی اقتصادی معاملات میں آئی ایم ایف کی براہِ راست شرکت قومی خود مختاری پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر ایک خودمختار ملک ہونے کے باوجود ہماری معاشی پالیسیاں بیرونی اداروں کی ہدایت پر مرتب کی جا رہی ہیں تو ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری آزادی کی نوعیت کیا ہے۔ قرضوں کا حصول کسی بھی معیشت کیلئے ناگزیر ہو سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ قرضے کن شرائط پر لئے جا رہے ہیں اور ان کا بوجھ کس پر ڈالا جا رہا ہے؟ اگر ہر مرتبہ عوام ہی اضافی ٹیکس، مہنگائی، اور بنیادی سہولتوں کی کٹوتی کی شکل میں اس بوجھ کو برداشت کریں گے جبکہ طاقتور طبقے مراعات سے مستفید ہوتے رہیں گے تو یہ ناانصافی ناقابل قبول ہے۔ ملک کی اقتصادی پالیسی سازی میں شفافیت اور جوابدہی کا ہونا ضروری ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر قرضے لینے ہیں تو اس پر قومی سطح پر بحث ہونی چاہیے اور عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے ریفرنڈم جیسا جمہوری طریقہ اختیار کرنا چاہئےاور جو قرض لینے کا فیصلہ کرتے ہیں ان سے یہ تک نہیں پوچھا جاتا کہ آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا اور فیصلہ کرتے ہوئے کن عوامل کو پیش نظر رکھا گیا۔پاکستان کے حکمران طبقات کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک کسی ایک جماعت، بیورو کریسی یا طاقتور طبقے کی جاگیر نہیں، معیشت گروی رکھ کر وقتی فوائد حاصل کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی ورنہ تاریخ ایسے فیصلے کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔