• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عربی لفظ’’انتفاضہ‘‘ کے انگریزی میں معنی upsurgیا uprising کیے جاتے ہیں۔ہم جسے احتجاجی تحریک کہتے ہیں،اُس میں اگر تشدّد کا عُنصر شامل ہو جائے، تو یہ انتفاضہ کہلاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، نفرت اور غیظ و غضب کے جذبے جب بغاوت کی صُورت پَھٹ پڑیں اور ہنگامے برپا ہو جائیں، تو یہ انتفاضہ ہے۔ 

یہ لفظ فلسطینیوں کے غم و غصّے کے جذبات سے سمجھا جا سکتا ہے، جو 1948ء میں اسرائیل نام کی ایک ناجائز صیہونی ریاست کے قیام سے لے کر1987ء تک کے بیس سال کے عرصے میں اُن کے دِلوں میں آتش فشاں کے لاوے کی طرح کَھول رہے تھے۔ قدم قدم پر صیہونی جور و ستم ،زمینوں، جائیدادوں پر جابرانہ قبضوں اور غیرقانونی بستیاں آباد کرنے کے بے شمار واقعات نے اس لاوے میں مزید کھولاؤ پیدا کر دیا تھا۔

آخردسمبر 1987ء میں یہ لاوا پھٹ پڑا۔غزہ کے شمال میں ایک یہودی نے جان بوجھ کر اپنی گاڑی فلسطینی مزدوروں کے ایک گروہ پر چڑھا دی، جس کے نتیجے میں چار، پانچ مزدور کچلے گئے۔اس سے فلسطینیوں کا جذبۂ انتقام بھڑک اُٹھا اور اُنہوں نے جواباً اسرائیلیوں پر حملے شروع کر دیئے۔ معاملہ غزہ تک محدود نہ رہا، بلکہ یہ ہنگامے خیمہ بستیوں، غربی ضفہ اور یروشلم تک، یعنی ہر طرف پھیل گئے تھے۔اسے’’غلیلوں والا انتفاضہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ فلسطینی بچّوں کے پاس بڑا ہتھیار اُن کی غلیلیں ہی تھیں، جن میں غُلّے(پتھر)بَھر کر وہ اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں اور آنسوگیس کے شیلز کا مقابلہ کرتے تھے۔

صیہونی اپنی ساری دہشت و وحشت کے باوجود اس انتفاضہ کی آگ بُجھانے میں ناکام رہے تھے۔اس میں گیارہ سو باسٹھ فلسطینی شہید ہوئے، جن میں دو سو اکتالیس کم عُمر بچّے بھی تھے، جب کہ نوّے ہزار فلسطینی زخمی اور ساٹھ ہزار گرفتار ہوئے۔ایک سو ساٹھ یہودی بھی اِس آگ میں بھسم ہوئے، جب کہ اسرائیلیوں نے بطورِ انتقام بارہ سو اٹھائیس عمارتیں منہدم کر دی تھیں۔ ستمبر 1993ء میں اوسلو معاہدے کے بعد یہ آگ ٹھنڈی ہوئی اور اِس انتفاضہ کا خاتمہ ہوا۔یہ معاہدہ ایک پُرفریب وعدہ تھا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم اسحاق رابین اور فلسطینی مذاکرات کار محمود عباس نے ایک اعلامیے پر دست خط کیے، جس میں اسرائیل نے تنظیمِ آزادیٔ فلسطین کو فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا تھا، جب کہ پی ایل او نے دہشت گردی اور تشدّد مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کے ایک ریاست کی حیثیت سے بقا کا حق تسلیم کر لیا۔ اِس پر بھی اتفاق ہوا کہ پانچ سال کے عبوری عرصے کے لیے فلسطینی اتھارٹی، مغربی کنارے اور غزہ پر حکومت کی ذمّے داریاں انجام دے گی۔اس کے بعد سرحدی امور، مہاجرین کی آباد کاری اور یروشلم سے متعلق مذاکرات ہوں گے۔

اسرائیلیوں کے نزدیک یہ اعلامیہ اِتنا ناگوار تھا کہ اسحاق رابین کو اِس کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔اگر فلسطینیوں کی بات کریں، تو یہ اعلامیہ فوری طور پر کسی کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ اِس میں فلسطینیوں کو دیا کیا گیا اور اُن سے لیا کیا گیا ہے، تاہم یہ طے ہوگیا تھا کہ یاسر عرفات نے بندوق رکھ کر مذاکرات کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔

اوسلو ہو یا کچھ آگے کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات، ان میں یہ بات صاف ظاہر ہو رہی تھی کہ یاسر عرفات مذاکرات کی میز پر اپنا مقدمہ منوانے اور جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا وہ اِتنے بددل ہو چُکے ہیں کہ مایوسی نے اُن کی دلیل کی صلاحیت ہی سلب کر لی۔ بہرکیف، فلسطینی عوام کی اکثریت کا تاثر یہ تھا کہ یاسر عرفات سب کچھ کھو بیٹھے تھے۔ کیمپ ڈیوڈ میں البتہ اُنہوں نے یروشلم کے فلسطینی حق ہونے کے مؤقف پر استقامت دِکھائی اور اِسی وجہ سے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات ناکام ہوئے تھے۔

انتفاضۃُ الاقصٰی یا دوسرا انتفاضہ

اِس انتفاضہ کے جو شعلے بلند ہوئے، اُنہوں نے پورے فلسطین ہی کو نہیں، اسرائیل کے اندرون کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ انتفاضہ سراسر اسرائیلی اشتعال انگیزی کا نتیجہ تھا۔ امریکا کے صدر جمی کارٹر نے مصر کے صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم میناہم بیگن میں معاہدہ کروایا تھا۔ اوسلو معاہدے کے بے نتیجہ رہنے کے بعد25جولائی 2000ء کو امریکی صدر کلنٹن نے اِسی کیمپ ڈیوڈ میں مذاکرات کا نیا ڈول ڈالا اور یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود باراک کے درمیان مذاکرات ہوئے۔

یہ معاہدہ بھی کام یاب ثابت نہ ہوا۔ ستمبر2000 ء میں اسرائیل میں انتخابات ہونے والے تھے اور اسرائیلی اپوزیشن لیڈر، ایریل شیرون نے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انتہائی شر انگیز اور شیطانی ذہن کے ساتھ سیکڑوں سیکیوریٹی اہل کاروں کے ساتھ’’حرم شریف‘‘(Temple Mount) جانے کا اعلان کیا۔اِسی حرکت نے ایک نئے طوفان اور دوسرے انتفاضہ کو جنم دیا۔

ایک ہزار اہل کاروں اور اپنے سیاسی کارکنوں کے ساتھ مسجدِ اقصیٰ کا تقدّس پامال کرتے ہوئے وہ اس کے احاطے میں بھی گُھس گیا تھا۔1967 ء کی جنگ میں عرب ممالک کی شکست کے بعد صیہونی نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ مقدّس مقامات کی توہین اور ان میں بڑے پیمانے پر تغیّر و تبدل کر رہے تھے۔حرم شریف کے نیچے سے ایک سرنگ کے ذریعے دوسری طرف راستہ نکالا جا رہا تھا، جس سے حرم کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔

مغربی دیوار کے سامنے میدان کُھلا کرنے کے بہانے حرم شریف سے متصل عمارتیں، جن میں مسجدیں، مزار، رہائشی مکانات اور دکانیں شامل تھیں، گرا دی گئی تھیں۔ ان میں بہت سی تاریخی عمارتیں’’قدیم وقف‘‘شمار ہوتی تھیں۔ مدرسۂ افضلیہ1190عیسوی میں تعمیر ہوا تھا اور یہ صلاح الدّین ایوبی کے بیٹے، ملک افضل کی یادگار تھا۔ حرم شریف سے ملحقہ ایک صوفی زاویۂ فخریہ تھا، جو زائرین کی قیام گاہ کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا، ان دونوں کو تباہ کر دیا گیا۔

فلسطینیوں نے اوسلو اور کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات کروانے والے امریکا سے بار بار اپیل کی کہ ایریل شیرون کو اِس عمل سے روکا جائے۔یاسر عرفات نے باراک کو انتباہ کیا کہ شیرون کی اس شرانگیز حرکت سے جذبات کا ایک طوفان آجائے گا اور بے تحاشا خون ریزی ہو گی، لیکن باراک نے یہ عذر پیش کر دیا کہ اسرائیلی قانون کسی کو ہیکل کی دیوار تک جانے سے نہیں روکتا۔ ایریل شیرون کی یہ جانی بوجھی شیطانی حرکت تھی، جس کے مضرّات و نتائج سے بحیثیت ایک سیاست دان وہ بے خبر نہیں تھا۔

اس کے اس عمل نے مسلمانوں کے جذبات بھڑکا دیئے۔ وہ اپنے مقدّس مقامات کی بے حرمتی برداشت نہ کر سکے۔ ہڑتالوں اور پُرتشدّد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسرائیلی حکومت نے ان مظاہروں کی آگ ٹھنڈی کرنے کی بجائے طاقت کا بے دریغ اور انتہائی سفّاکانہ استعمال کیا۔ صرف ابتدائی چند دنوں میں اسرائیلی فوج نے ایک ملین فائرز کیے۔آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں بھی برسائی جاتی رہیں۔ ایک اسرائیلی کے بدلے بیس سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جاتا تھا۔

معاملہ فلسطینی علاقوں تک محدود نہ رہا بلکہ فلسطینیوں نے اسرائیل کے اندر خود کُش دھماکوں سے انتقام لینا شروع کر دیا اور اِس دَوران تقریباً138 خود کُش حملے ہوئے۔ راکٹ اور ٹینک شکن گولے بھی چلائے جاتے تھے۔اسرائیلی فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی نشانہ بننے لگے۔ کرفیو نافذ تھا۔نقل و حرکت روکنے کے لیے جگہ جگہ چیک پوسٹس قائم تھیں۔ حماس، فلسطین اسلامی جہاد، پاپولر فرنٹ اور اقصیٰ شہدا بریگیڈ نے گوریلا کارروائیاں بھی شروع کر رکھی تھیں۔اِس انتفاضہ میں عام بندوقوں کے علاوہ کار بم، دستی گرینیڈ اور بارودی سرنگوں سے لے کر ہر طریقہ اختیار کیا گیا۔

یاسر عرفات کی تنظیم، الفتح اور پی ایل او کی قیادت سارے معاملے سے بے تعلق نظر آتی تھی، لیکن یہ طوفان صرف غزہ ہی نہیں، مغربی کنارے میں بھی پھیلا ہوا تھا۔ اس انتفاضہ میں یاسر عرفات کے کردار پر اسرائیلی، امریکی، مغربی سفارتی حلقوں اور میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا وہ یروشلم کی اسلامی اور فلسطینی حیثیت سے دست بردار ہو کر اسے اسرائیلی دارالحکومت بنانے پر راضی ہو سکتے تھے؟ باقی سب کچھ ہو سکتا تھا، لیکن یہ نہیں ہو سکتا تھا۔جب یہ نہیں ہوا، تو اسرائیل میں اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے اسی ایشو کو ایکسپلائٹ کرنے کی جارحانہ حرکت کی اور ہیکلِ سلیمانی تک ہی نہیں، حرم شریف کے احاطے تک جانے کا اعلان کیا۔

حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تعمیر کردہ’’ہیکل‘‘ کو بابل کے شہنشاہ، بخت نصر نے مِٹا ڈالا تھا۔اس کے بعد اسے تعمیر کرنے کی یہودیوں نے کئی کوششیں کیں، لیکن اس نام سے جو ڈھانچا کھڑا کیا گیا تھا، اُسے رومی شہنشاہ کے حکم سے مکمل مسمار کردیا گیا اور یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا۔ اب یہ ’’دیوارِ گِریہ‘‘ ہے، جس کے سامنے یہ روتے دھوتے ہیں۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ اصل’’مسیحا‘‘ آئیں گے، تو ہیکل اصل شکل میں تعمیر ہو گا۔

مسلمانوں کے نزدیک یروشلم کی اہمیت بیت المقدِس، یعنی مسجدِ اقصیٰ کی وجہ سے ہے۔ اِسی لیے’’دو ریاستی‘‘ حل میں بھی اُن کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت یروشلم ہی ہو گا۔کیمپ ڈیوڈ مذاکرات یاسر عرفات کا یہ مطالبہ نہ ماننے کی وجہ ہی سے ناکام ہوئے تھے۔ یروشلم کے بارے میں ان کے موقف میں کوئی لچک نہیں آئی تھی۔ اس ایشو پر اُن کے بے لچک مؤقف ہی کو اسرائیلی، امریکی، یورپی دانش ور اور سیاست دان دوسرے انتفاضہ میں اُن کے کردار کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

اُنھیں اِس دوسرے انتفاضہ کا ذمّے دار ٹھہرانے کے لیے اُن کی اہلیہ سُہٰی (Suha)عرفات کا دُبئی ٹی وی کو دیا گیا ایک انٹرویو بھی اُچھالا جاتا ہے۔ سُہیٰ عرفات نے انٹرویو میں بتایا تھا کہ کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کی ناکامی کے بعد یاسر عرفات سیاسی راستے سے مایوس ہو گئے تھے۔ وہ فرانس میں تھیں۔یاسر عرفات نے اُنہیں کہا کہ’’ تم پیرس میں رہو۔‘‘ مَیں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا’’ مَیں نے انتفاضہ کا فیصلہ کر لیا ہے۔

وہ (یعنی امریکی اور اسرائیلی) چاہتے ہیں کہ مَیں فلسطینی عوام کے ساتھ غدّاری کروں، لیکن مَیں ایسا نہیں کروں گا۔مَیں نہیں چاہتا کہ مستقبل میں میری بیٹی زھوہ (Zahwah) کے دوست اُسے طعنے دیں کہ تمہارے باپ نے فلسطینی عوام اور اپنے اصول چھوڑ دیئے تھے۔ مَیں اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ شاید مَیں شہید کر دیا جاؤں، لیکن اپنا تاریخی وَرثہ زھوہ اور فلسطینی بچّوں کے لیے چھوڑ کر جاؤں گا۔‘‘ بہت سے اسرائیلی، امریکی اور مغربی ذرائع نے دوسرے انتفاضہ میں یاسر عرفات کے کردار سے متعلق حماس کے شریک بانی، محمود الزّہار سے منسوب ایک غیر مصدّقہ بیان بھی شائع کیا تھا کہ کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کی ناکامی کے بعد یاسر عرفات نے خود ہمیں آگے بڑھنے اور مسلّح جدوجہد کرنے کی تلقین کی تھی۔

نیز، الفتح اور فلسطینی اتھارٹی نے ہمیں ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔’’The Hundred Years War on Palestine‘‘کے مصنّف، ڈاکٹر راشد خالدی نے پہلے اور دوسرے انتفاضہ میں اموات کے جو اعداد و شمار دیئے ہیں، اُن کے مطابق پہلے انتفادہ کے دَوران 1600افراد مارے گئے تھے، جب کہ دوسرے انتفاضہ میں یہ تعداد چھے ہزار، چھے سو تک پہنچ گئی تھی۔

ان میں زیادہ تر اسرائیلی سیکیوریٹی فورسز اور یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ اسرائیلیوں کی تعداد صرف ایک ہزار، گیارہ تھی،جن میں تین سو بتیس اسرائیلی فوجی تھے۔ اسرائیلی سویلین زیادہ تر خود کُش حملوں کا شکار ہوئے تھے۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید