• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بار پھر پانی کی پکار پڑنے والی ہے۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں لوگ پانی کیلئےمارے مارے پھرنے والے ہیں۔ ایسے میں صوبوں میں دریائے سندھ پر نئی نہریں نکالنے کے منصوبے نےنیاتنازع کھڑا کردیا ہے۔ چھ کینال کے معاملے سے پہلے ایک عالمی خبر پر نظر ڈالتے چلیں کہ دنیا کی ترجیحات کیا ہیں، جدید تحقیق سوچ کے کون سے در وا کیے جارہی ہے اور ہمارے کوتاہ بیں کس بات پر سر پھٹول کررہے ہیں۔

عراق میں قدیم میسو پوٹیمیا تہذیب سے جڑا چھ ہزار سال پرانا نہری نظام دریافت ہوگیا ہے اور اس خبر کے مطابق جیوا رکیولوجسٹ جعفر جوتھری کی زیرِ قیادت ٹیم نے قبل از مسیح دورکے پیچیدہ نظامِ آبپاشی کے آثار تلاش کیے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کچھ ہزار سال قدیم پرانے نہری نظام کے پائے گئےیہ آثار عراق کے شہر بصرہ کے قریب ملے ہیں جن کو اس سے قبل جدید دور میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ماہرین کی تحقیق اور معلومات کے مطابق دریافت ہونے والے ان آثار کو دیکھ کر اس زمانے میں زراعت اور آبپاشی کے معاملات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح قدیم وقتوں میں لوگ دریائے فرات سے کھیتوں کو پانی فراہم کیا کرتے تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ دریافت اس عمل کا بھی ثبوت کہ قدیم میسو پوٹیمیا کے لوگ نا صرف بہترین نہری نظام رکھتے تھے بلکہ وہ زمین اور جغرافیہ سے فائدہ اٹھانے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ جیسا کہ درج بالا سطور سے قبل ابتدائیہ میں عرض کیا ہے اس حوالے سے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے دعویٰ کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ چولستان کینالز کے منصوبے پر سندھ میں صرف سیاست ہورہی ہے، منصوبے کی صدر سے دستاویزی منظوری موجود ہے، اس پر ان کے دستخط ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بلاول کی باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتی، کینال منصوبے کا حل جلسوں یا میڈیا پر بیان بازی سے نہیں نکل سکتا بلکہ صدر مملکت اس کی منظوری دے چکے ہیں۔ ہماری کوئی لڑائی نہیں لیکن وہ گولا باری کرتے رہتے ہیں۔‘‘ ان کے ان دعووں اور رشحات فکر کے جواب میں انکے ہم منصب وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کینالز کی منظوری سے متعلق میٹنگ کے منٹس کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے جوابی دعویٰ کیا کہ ’’ ایسا ہرگز نہیں ہے جس کا موصوفہ دعویٰ کررہی ہیں بلکہ منٹس میں اپروول کا لفظ کہیں نہیں ہے۔‘‘ الٹا ایک سوال بھی کیا اور استفسار بھی جوآئین خوانی بارے ہے۔ موصوف نے کہا کہ ’’آپ کے بیان پر افسوس ہوا، کیا آپ کو آئین پڑھنا آتا ہے؟ آپ کا کوئی وفاق سے مسئلہ ہے تو گھر پر حل کریں، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ صدر منظوری دیں گے؟ پیپلز پارٹی کینالز کے مسئلے پر سیاست نہیں کر رہی، حکومت پنجاب کا ایجنڈا پیپلز پارٹی اور وفاق کے درمیان تصادم پیدا کرنا ہے لیکن پیپلز پارٹی میچور سیاست کر رہی ہے اور عوامی مفادات کی حفاظت کرے گی۔ ‘‘

صوبائی حکومت یہ واضح نہیں کرسکی کہ کینالزکیلئے پانی کہاں سے لایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی سندھ کے حقوق کیلئے کسی بھی حد تک جائے گی۔ کینالز کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور عوامی جدوجہد جاری رہے گی۔ ہماری دانست میں عراق میں بھی پہلے پہل پانی کے ذرائع  پر ایسی سیاست ہوتی رہی ہوگی لیکن فتح ادراک کی ہوئی ہوگی تبھی تو ایسا نظام وجود میں آیا تھا۔

عصر حاضر میں پاکستان کو پانی کے مسائل کا سامنا ہے، بڑے شہروں میں پانی کی سطح انتہائی کم ہوچکی ہے خود پنجاب میں کھیتی باڑی کیلئے پانی کی قلت کا کسانوں کو سامنا ہے۔ بندگان خدا سے کوئی پوچھے کہ سب کچھ اغیار کے پاس گروی رکھ دیا ہے، کیا پالیسی سازی بھی انہیں سونپ دی ہے کہ آپ پانی سے سستی ترین بجلی پیدا کرنے سے بھی منہ موڑ چکے ہیں۔ پاکستان میں سارا سال دریا، ندی نالے، چشمے بہتے ہیں، پانی سمندر میں جاکر ضائع ہو جاتا ہے۔ ہر ندی نالے دریا پر چھوٹے بڑے یونٹ بنا کر اتنی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے کہ اس رقم سے آپ مریخ پر آباد کاری بھی کرسکتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم ایسا پائیدار منصوبہ ہے کہ کسی کا ایک دھیلے کا بھی نقصان نہیں ہوتا اور آپ کو اگلے کئی سو سال تک مفت کی بجلی ملتی رہے گی مگر مجال ہے کہ کسی نے بھی اس کی تکمیل کی طرف توجہ دی ہو۔

کالا باغ ڈیم کے فوائد پر نظر ڈالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کی مدت تعمیر صرف چھ سال ہے جبکہ چھتیس سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہے۔سندھ کو چالیس لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی، بجلی کی فی یونٹ لاگت دو روپے پچاس پیسے، پنجاب کو بائیس لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی، ایک سو اسی ارب روپے کی سالانہ بچت اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کو بیس لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی کی فراہمی اور چھ اعشاریہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے حامل اس منصوبے سے بلوچستان کو پندرہ لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملے گا اور کیا چاہیے۔ اگر اللہ ایوب خان کو مزید موقع دیتا اور وہ صدارتی متنازعہ الیکشن کے مسئلےمیں نہ پڑتے تو لگے ہاتھوں کالا باغ ڈیم بھی بنا جاتے۔

بات کینال قضیہ سے چلی تھی جو بیانات کی گولہ باری دیکھ کر دور جاتی نظر آرہی ہے۔شرجیل میمن نے حکومتِ پنجاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’صوبائی حکومت یہ واضح نہیں کرسکی کہ کینالز کیلئےپانی کہاں سے لایا جائے گا۔‘‘ انہوں نے اعلان کیا کہ اٹھارہ اپریل کو حیدر آباد میں کینالز اور دہشت گردی کے خلاف ایک تاریخی جلسہ منعقد کیا جائے گا، جس میں عوامی حمایت کو اکٹھا کیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ماضی میں بھی ایسے کارتوس چلائے گئے تھے اس بار یہ بارود کس قدر کارآمد ثابت ہوتا ہے یا وفاقی حکومت ڈٹ جاتی ہے یا اس منصوبے سے  ہٹ جاتی ہے؟

تازہ ترین