(گزشتہ سے پیوستہ)
اب مختلف میزوں سے ادیبوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں اور وہ اپنے اپنے دل پسند موضوعات پر باآواز بلند اظہار خیال کر رہے تھے۔ دو تین میزو ںپر بحث میں تو غالباً تلخی بھی پیدا ہو گئی تھی کیونکہ ایک ادیب کی ہسٹریائی چیخیں ہماری میز کی حدود میں داخل ہو گئی تھیں ۔ویٹرز چائے کے برتن اٹھائے تیزی سے ایک میز سے دوسری میز کی طرف آجا رہے تھے۔
پھر کیا ہوا؟ اس دفعہ میں نے قدرے اونچی آواز میں پوچھا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ میری آواز اس شور میں گم ہو جائے گی۔
پھر یوں ہوا کہ میں نے اپنی تقریر دلپذیر کا آغاز کیا مگر صورتحال یہ تھی کہ میرے ہونٹ کپکپا رہے تھے ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ماتھے پر پسینہ ہی پسینہ تھا چنانچہ اپنی رٹی ہوئی تقریر کے پہلے تین جملے اور ایک شعر کے بعد باقی تقریر مجھے بھول گئی جس پر میں نے یہ کہہ کر تقریر فوراً ختم کر دی کہ حضرت دراصل میں دانتوں کی دوا بنانے والی ایک مشہور کمپنی کا ایجنٹ ہوں اور کمپنی کی مشہوری کیلئے یہاں یہ دوا صرف ایک سو میں آپ کو ملے گی اس کا اثر دیکھنا ہو تو ابھی دیکھئے میں آپ کو دکھاتا ہوں اور یہ کہہ کر میں نے کھٹائی والے رنگین پانی میں روئی ڈبو کر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ایک بزرگ سے کہا ’’بابا جی ذرا منہ کھولو‘‘
اس نے فوراً منہ کھول دیا جس میں سرے سے کوئی دانت نہ تھا اس پر میں نے کھسیانا ہو کر کہا بہرحال جن صاحب کو ضرورت ہو وہ آواز دے کر طلب کریں صرف ایک سو روپے میں یہ رعایت صرف کمپنی کی مشہوری کیلئے ہے۔ اس پر میرے ساتھی نے پروگرام کے مطابق جیب سے ایک سو کا نوٹ نکالا اور کہا بھائی صاحب ایک شیشی مجھے دینا۔ میں نے ایک شیشی اس کے ہاتھ فروخت کی اور بس یہی ایک شیشی فروخت ہوئی۔
پھر کیا ہوا؟ میں نے ایک فلک شگاف نعرہ لگاتے ہوئے پوچھا۔ پھر کیا ہونا تھا ملتان آیا تو ہم اتر گئے لیکن میں اس تجربے سے اس قدر ڈیمورالائز (DEMORALISE) ہوا کہ اپنے ساتھی کے اصرار کے باوجود میں نے وہاں مجمع لگانے سے انکار کر دیا لیکن وہاں ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔
وہ کیا؟
پنڈی سے ملتان کی ٹکٹ لینے کے بعد میری جیب میں صرف دو سو روپے بچے تھے اور میرے خیال میں یہ رقم کافی تھی کیونکہ دانتوں کو موتیوں کی طرح چمکانے والی دوا کی دو سو شیشیاں بھی تو میرے بیگ میں تھیں جن کے متعلق مجھے یقین تھا کہ میں آرام سے ڈھیر سارے روپے اس میں سے کما لوں گا لیکن شیشی ایک نہ بکی اور جب واپس پہنچ کر کھانا کھانے کیلئے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ ڈبے میں الٹا کسی نے میری جیب کا ٹ لی تھی۔
میرا قہقہہ ایک دفعہ پھر بہت زوردار تھا لیکن وہ دو تین مختلف میزوں پر بیٹھے علیحدہ علیحدہ لیبلوں اور علیحدہ علیحدہ ٹریڈ مارک رکھنے والے ادیبوں کے جوش خطابت کی نذر ہو گیا۔ یہ ادیب اب گفتگو نہیں باقاعدہ تقریر کر رہے تھے بلکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی میز پر مکا بجنے کی آواز بھی سنائی دیتی اور اس کے ساتھ ہی اس میز پر پڑی پیالیاں چھنچھنا اٹھتیں۔
پھر تم لوگ واپس کیسے آئے؟ وہ تو ہم کسی نہ کسی طور پر آ گئے میرے اس ادیب دوست نے مجھ سے ماچس لیکر سگریٹ سلگایا پھر ہنستے ہوئے کہا ’’مگر یار افسوس یہ ہے کہ میں محض تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اس میدان میں مار کھا گیا۔اگر کوئی اچھا استاد مل جاتا تو مجھے اپنے مقصد میں بھی کامیابی حاصل ہو جاتی اور آج مجھے بطور ادیب جو عزت حاصل ہے اس میں کوئی کمی نہ آتی‘‘
وہ کیسے؟ اپنے اس مسخرے دوست کی اس بات پر میں نے ہنستے ہوئے پوچھا وہ یوں کہ اب جو میں عرصہ دراز سے روزانہ شام کو ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کرتا ہوں اور ہفتے میں منعقد ہونے والے دو تین ادبی حلقوں کے اجلاس میں ادیبوں کو گلا پھاڑ پھاڑ کر گفتگو کرتے ہوئے سنتا ہوں اگر اس وقت مجھے ان لوگوں کی صحبت اور تربیت میسر ہوتی تو مجھے اپنے مشن میں ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب میں صرف ادیب ہوں اس صورت میں مجمع باز بھی ہوتا اور چار پیسے اس فن سے بھی کما لیتا یہ جن کی آوازیں تم تک آ رہی ہیں یہ بھی تو چند رٹی رٹائی اصطلاحوں پر ’’جوہر حیات‘‘ کا لیبل لگا کر انہیں بیچنے کیلئے ٹی ہاؤس، ادبی حلقوں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں مجمع لگاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ادیب بھی کہلاتے ہیں میں تو یار اس وقت بس نادانی ہی میں مارا گیا‘‘