• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ’’اسپیشل‘‘ نہیں، بہت اسپیشل بھائی

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ہمارا آبائی تعلق شیخوپورہ کے ایک گاؤں سے ہے۔ میرے دادا اس گاؤں کے چوہدری تھے۔ انہوں نے میرے والد کو تعلیم کے لیے بطورِ خاص لاہور بھیجا۔ والد صاحب تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور میں ملازمت اختیار کرکے وہیں رہائش پذیر ہوگئے۔ 1934ء میں اُن کی شادی ہوئی، جس کے ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں بیٹے کی نعمت سے نوازا۔

بیٹے کی پیدائش پر گاؤں میں خوب خوشیاں منائی گئیں۔ پھر کچھ عرصے بعد والد صاحب لاہور سے دہلی شفٹ ہوگئے۔ جب بیٹا ڈھائی سال کا ہوا، تو والد صاحب نے محسوس کیا کہ وہ کسی آواز پر نہ چونکتا ہے اور نہ ہی کسی کی آواز سننے کے بعد کسی ردِّعمل کا اظہار کرتا ہے۔

لہٰذا انھوں نے دہلی ہی میں چند ایک ڈاکٹرز کو دکھایا، جنہوں نے نشان دہی کہ وہ سننے اور بولنے کی صلاحیت سے معذور ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ بہرحال، والد صاحب نے بیٹے کی معذوری کو چیلنج سمجھ کر قبول کیااور ایک نارمل بچّے کی طرح اس کی پرورش کرنے لگے۔ 1947ء میں تقسیم ِہند کے بعد والد صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔

اس دوران یکے بعد دیگرے ہم دو بہنیں پیدا ہوئیں۔ ہم بہنوں نے بھائی کی معذوری کو کبھی عیب نہیں سمجھا، گھر میں ہم تینوں مِل جُل کر کھیلتے۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو ہم دونوں بہنوں کو والد صاحب نے کراچی کے ایک مقامی اسکول میں داخل کروادیا۔ اُس زمانے میں اسپیشل بچّوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہوا کرتا تھا، لہٰذا والد صاحب نے بھائی کو گھر ہی پر تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ وہ اُن کے لیے انگریزی کی دو کتابیں خرید کر لے آئے، جن میں حروف کے ساتھ تصاویر بھی تھیں۔ 

بھائی ذہنی طور پر بالکل ٹھیک تھے، نہ صرف خوب اچھی طرح الفاظ کو تصویروں کی مدد سے شناخت کرنے کے قابل ہوگئے، بلکہ اپنے نام کے ہجے بھی یاد کرکے لکھنے لگے۔ ہماری والدہ ہم دو بہنوں کے مقابلے میں بھائی سے زیادہ محبت کرتیں اور اُن کا خاص خیال رکھتیں۔ 

عمر بڑھنے کے ساتھ بھائی مختلف مشاغل میں مصروف رہتے، وہ دہلی اور کراچی کے مختلف مقامات سے اچھی طرح واقف تھے، تمام رشتے داروں اور جاننے والوں کے نام، پتوں سے آگاہ تھے۔ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک مارکیٹ تھی، جہاں بھائی کے ایک دو ڈاکٹرز بھی واقف کار تھے۔ والد صاحب جو جیب خرچ دیتے، اس سے وہ اپنی پسند کی کتابیں خرید لاتے۔ 

اٹلس، ہوائی جہاز اور ریلوے کے ٹائم ٹیبل کی معلومات رکھتے تھے ۔ گھر میں ’’جنگ‘‘ اور ’’ڈان‘‘ اخبار آتے تھے،جن کا وہ باقاعدگی سے مطالعہ کیا کرتے۔ گھومنے پھرنے کے بھی بہت شوقین تھے۔1965ءکی جنگ کے دوران ایک روز گھر کے باہر کھڑے تھے کہ فوجیوں نے جاسوس سمجھ کر گرفتار کرلیا اور تھانے لے جاکر بند کردیا۔ پھر والد صاحب اُنھیں تلاش کرتے ہوئے تھانے پہنچے اور ساری صورتِ حال بتاکر گھر لائے۔

بھائی نے جب عالمِ شباب میں قدم رکھا، تو ہر ماں کی طرح امّی کے دل میں بھی بھائی کے سر پر سہرا سجانے کا ارمان جاگا، لیکن جب بیٹے کی طرف دیکھتیں، تو ایک آہ بھر کے کہتیں کہ میرے بیٹے کو کون اپنی بیٹی دے گا۔ والدہ کی یہ پریشانی اُن کے چھوٹے بھائی یعنی ہمارے ماموں نے سمجھی اور اپنی بیٹی کا رشتہ بھائی سے کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اس طرح سب کی رضامندی سے ہماری والدہ اپنی بھتیجی کو بیاہ کر لےآئیں۔ ہماری بھابھی انتہائی نیک اور صابر تھیں۔ انہوں نے بھائی کے ساتھ اچھا نبھا کیا۔ 

انھیں اللہ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا اور سب بچّے بالکل ٹھیک تھے، جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد برسرروزگار ہوئے۔ بھائی کو اپنی ذمّے داریوں کا بھی بہت احساس تھا، اکثرگھریلو کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ مثلاً پانی کی موٹر چلانا، بند کرنا، باغیچے کو پانی دینا، پرندوں کو دانہ ڈالنا، بازار سے سودا سلف وغیرہ لانا۔

2006ء میں رمضان المبارک کے دوران سحری کے وقت دہی لے کر آرہے تھے کہ ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آگئے۔ وہاں موجود لوگوں نے انھیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا، مگر وہ جاں بر نہ ہوسکے اور خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اُن کے جنازے میں لوگوں کی کثیر تعداد یقیناً اس بات کی دلیل تھی کہ وہ ایک انتہائی نیک، ہر دل عزیز انسان تھے۔ (ایم بانو، طارق روڈ، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید