• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُعا عظیمی

اِس سے پہلے کہ مَیں رہوں نہ رہوں، آؤ مجھ سے مل لو…تم جو میری ذات کی اندھیری کٹیا میں جلتے ہوئے چراغ کی لو میں نظر آتے ہو۔ کون کہتا ہے کہ تم نہیں ہو…؟ تم نہ ہوتے تو مَیں اپنا عکس کہاں دیکھتی۔

اِس سے پہلے کہ بند پلکوں کا خواب ٹوٹے اور ہاتھ سے یہ محبّت کا جام چھوٹے، میرے سامنے چلے آؤ…اگر مَیں آنکھیں بند کروں، تو لاکھوں میں تمہیں پہچان لوں۔ تم میرے دل کے بالا خانے کی سب سے اونچی نشست پر جو براجمان ہو۔

میرے ہم زاد!! لڑکیاں جب گڑیوں، پٹولوں سے کھیلتی تھیں، مَیں تمہارے ساتھ کھیلا کرتی تھی، اور جب تم چُھپ جاتے تھے، تو مَیں بہت بے چین ہو جاتی تھی۔ آنکھ کھولتے ہی مَیں نے تمہیں اپنے ساتھ پایا۔ ازل سے، جب سے تم نے زمیں پر قدم رکھا ہے، مَیں آرزو بن کر تمہارے سینے میں مچلتی رہی ہوں۔

تمہیں یاد ہے ناں، باغِ عدن میں بھی ہمارے قدم ایک ساتھ ڈگمگائے۔ آج بھی تمہارے بناء میرا ایک پل نہیں گزرتا۔ تم میرے سب مہرباں، نامہرباں موسموں کے ساتھی ہو۔ تم ہمیشہ سے میرے ساتھ ہو۔

کون کہتا ہے کہ وقت ہمیں جدا کر دے گا۔ شُکر ہے، وقت خوابوں کی سر زمیں پہ قدم نہیں رکھتا۔ مَیں نے محبّت کی لطیف چادر میں تمہیں اپنے دل کے نہاں خانوں میں چُھپا کے رکھا۔ سو، وقت کی دل خراش انگلیاں تمہیں نہیں چُھو سکتیں۔

تم تخیّل نہیں ہو، نہ ہی میرا خواب کہ اگر تم تخیّل ہوتے تو ٹوٹ جاتے۔ خواب ہوتے تو تمہارے اجزائے پریشاں بکھر جاتے۔ میرے پاس تمہارے بِنا جینے کا کوئی بہانہ ہی نہیں ہے۔

میری پلکوں کے موتی چُننے والے میرے ہم نفس! تم ہی ہو، میری سرگوشیوں کو سُننے والے…میرے ویرانوں میں پھول کھلانے والے … مجھ سے محبّت جتانے والے…وگرنہ میرے سرہانے یہ آرزو کے پھول کون رکھ جاتا ہے…؟ کہ اِن ہی کی خوشبو سے تو میری پریشان خیالی مہکتی ہے۔

جب مَیں سارا دن محنت و مشقّت کی چکّی میں پِسی جاتی ہوں، تو وہ کون ہے، جو میرے لیے بھیڑیں چَراتا اور ونجلی بھی بجاتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے ناں کہ جب تم لوٹوگے تو مَیں تمھارے ہی وجود کے سائے میں قرار پاؤں گی۔

اے میرے ہم سفر!! اِک تیرے ہونے سے چاند میں نور، ہوا میں سرور ہے۔ بہاروں میں خمار ہے کہ میرے سنگ میرا یار ہے۔

جب تم خوابوں کی وادی میں اترتے ہو، تو مَیں تمہارے سنگ ہوتی ہوں۔ ہم اکٹھے باتوں کے پھول چُنتے اور خُوب خُوب ہنستے ہیں۔

مہربان وادی اپنی بانہیں ہمارے لیے کُھلی رکھتی ہے۔ وہ ہمیں دُعا دیتی ہے۔ محبّت کرنے والوں کے سر پہ شفا کاہاتھ رکھتی ہے۔

مَیں صدیوں سے تمہارے ساتھ ہوں… مانا کہ اداسیوں کے پل زندگانی کا حصّہ ہیں۔ مگر… مَیں جب بھی ڈال سے ٹوٹی، تم نے مجھے تھاما۔ تم میرے وجود کا حصّہ ہو۔

ہم محبّت کی سنہری کرنوں سے بندھے ہیں۔ حقیقت کے سورج کی تلخ آنکھ میرے خوابوں کونہیں توڑ سکتی۔ یہ اُمید اور یقین کی ڈوری سے بندھے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ تم اِس کائنات کی سب سے حسین مُورت ہو۔ میرا دل جب دھڑکتا ہے، تو تم سانس لیتے ہو۔ میرے دل کی اِک اِک سانس میں تم ہو۔

ہم وہاں ہیں، جہاں نہ ہجر کی کوئی لمبی شام ہے، نہ اداسیوں کے زرد پتّے، نہ روٹھنا نہ منانا… تم میری رُوح میں بس رہے ہو کہ اب میں اپنے ہونے، نہ ہونے سے بھی پرے جا چُکی ہوں۔

مگر… تم جیتے رہو گے، ہر حوّا کے دل میں پوری شان شوکت اور قوّت کے ساتھ۔ اِک آرزو، اُمید، روشنی اور یقین بن کے۔

تم مجھ سے الگ نہیں ہو، تم میرا سایۂ ثانی ہو…تم مجھ میں اب لافانی ہو۔ میرے ہم زاد! میرے ہم راہی!!

سنڈے میگزین سے مزید