• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست دانوں، بیوروکریسی کی نااہلی اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلّط محنت کشوں کی زبوں حالی کے بنیادی اسبا ب ہیں
سیاست دانوں، بیوروکریسی کی نااہلی اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلّط محنت کشوں کی زبوں حالی کے بنیادی اسبا ب ہیں

پاکستان سمیت دنیا بَھر میں یکم مئی کا دن اُن عظیم محنت کشوں سے اظہارِ یک جہتی کے طور پر منایا جاتا ہے، جن کی شب و روز کی کاوشیں ترقّی و تعمیر کی بنیاد بنتی ہیں۔ مزدوروں کی جدوجہد کی اِس تاریخ کا درخشاں باب اُس وقت رقم ہوا، جب امریکا کے صنعتی شہر، شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ اُن کے اوقاتِ کار مقرّر کیے جائیں۔ 

اُن کی منظّم ہڑتال نے سرمایہ دار طبقے اور حکومتی مشینری کو پریشان کر دیا۔ شہر بَھر میں پولیس کی بھاری نفری تعیّنات کی گئی، جو جدید اسلحے سے لیس تھی۔ یہ اسلحہ اور دیگر ضروری ساز و سامان مقامی سرمایہ داروں نے فراہم کیا تھا تاکہ مظلوم مزدوروں کی آواز طاقت کے بل پر دبائی جا سکے۔

یکم مئی 1886ء کو ہڑتال کام یاب اور پُرامن رہی، جب کہ دوسرے روز بھی مزدوروں کا عزم و حوصلہ اپنی جگہ قائم تھا، لیکن تیسرے دن ظلم و جبر کی وہ داستان لکھی گئی، جو انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پُرامن اور نہتّے مزدوروں پر بلااشتعال فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار مزدور ہلاک اور متعدّد زخمی ہوگئے۔ 

مزدور قیادت نے4 مئی کو شکاگو کے’’ہے مارکیٹ اسکوائر‘‘میں ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کیا۔ جلسہ پُرامن انداز میں جاری تھا، مگر جب آخری مقرّر اپنا خطاب مکمل کر رہا تھا، پولیس نے اچانک فائرنگ شروع کر دی، جس سے کئی مزدور جاں بحق اور بہت سے زخمی ہو گئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین میں سے کسی نے اُن پر دستی بم پھینکا، جس سے کئی پولیس اہل کاروں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس مبیّنہ حملے کو بنیاد بنا کر پولیس نے گھروں پر چھاپے مارے اور درجنوں رہنماؤں اور مزدور کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ 

بعد ازاں، آٹھ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سُنا دی گئی۔ تاہم، ریاستی جبر اِس تحریک کو دَبانے میں ناکام رہا، بلکہ اس کے نتیجے میں یہ تحریک عالمی سطح پر مزید وسعت اختیار کر گئی۔ بالآخر 1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر پہلی مرتبہ یہ دن یکم مئی 1890ء کو’’یومِ مزدور‘‘ کے طور پر دنیا کے مختلف ممالک میں منایا گیا، جس کی تقریبات غیر معمولی طور پر کام یاب رہیں۔

اگرچہ ابتدا میں امریکا، کینیڈا اور جنوبی افریقا نے اس میں شرکت نہیں کی۔ بعدازاں، جنوبی افریقا میں نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں بھی یہ دن منایا جانے لگا۔ سوویت یونین میں لینن کی قیادت میں اکتوبر انقلاب کے بعد جب مزدوروں اور کسانوں کی حکومت قائم ہوئی، تو محنت کشوں کی یہ عالمی تحریک مزید قوّت کے ساتھ اُبھری۔ جب کہ آنے والے چند عشروں میں مزدور طبقے کے انقلابی پرچم نے دنیا کی نصف سے زائد آبادی پر اپنے اثرات مرتّب کیے۔

پاکستان میں یکم مئی کو یومِ مزدور قومی سطح پر منانے کا باقاعدہ آغاز 1973ء میں اُس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹّو کے دورِ حکومت میں ہوا، جس کا مقصد شکاگو کے محنت کشوں کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا، مزدور طبقے سے اظہارِ یک جہتی کرنا اور اُن کے بنیادی حقوق اجاگر کرنا تھا۔ 

اس دن کی مناسبت سے وطنِ عزیز کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں نہ صرف محنت کشوں کے مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے مستقل اور پائے دار حل کے لیے پالیسی سطح پر اقدامات کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔تاہم، افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان مطالبات اور تقاریب کے باوجود آج تک مزدوروں کے حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکی۔ 

بیوروکریسی کی نااہلی، سرمایہ دارانہ نظام کا تسلّط، سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے نام پر مفادات پر مبنی فیصلے محنت کشوں کی زبوں حالی کا بنیادی سبب ہیں۔ آج مزدور طبقہ منہگائی، غربت، بے روزگاری اور اُجرتوں کی کمی کے ساتھ یوٹیلیٹی بلز میں آئے روز ہونے والے اضافے کے بوجھ تلے دَبا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں مزدوروں کی جان، مال اور عزّت تک محفوظ نہ ہو، وہ معاشرہ دینِ اسلام کی روایات اور ثقافت کا علم بردار نہیں ہو سکتا۔اگر ریاست محنت کشوں کے تحفّظ میں ناکام رہی، تو نہ صرف معاشی نظام کم زور ہوگا بلکہ قومی یک جہتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

مزید برآں، یومِ مزدور کے موقعے پر جب بڑے بڑے ہوٹلز اور پُرتعیش ہالز میں مزدوروں کے حقوق پر تقاریر ہو رہی ہوتی ہیں، تو عین اُسی وقت مزدور کسی فیکٹری، کھیت یا تعمیراتی جگہ پر آٹھ سے سولہ گھنٹے کی مشقّت کر رہے ہوتے ہیں۔ حکومتیں اس دن مزدور کو کم از کم ایک دن کی اُجرت بھی اُس کے گھر کی دہلیز پر نہیں پہنچا پاتیں۔حقیقت یہ ہے کہ مزدور کے حقوق کی حقیقی ضمانت صرف اور صرف اسلام کے عادلانہ نظام میں پنہاں ہے۔ 

اسلام کا معاشی نظام، جو عدل، مساوات اور حقوق کی حفاظت پر مبنی ہے، محنت کشوں کو اُن کا جائز مقام عطا کرتا ہے۔ اسلام کا اصول ہے کہ’’ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کی جائے۔‘‘ اور یہی وہ بنیادی اصول ہے، جو اگر رائج ہو جائے تو مزدور کی محرومیوں کا ازالہ ممکن ہے۔دوسری جانب دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام، سوشلزم، کمیونزم اور دیگر معاشی نظریات ہمیشہ سے محنت کشوں کے استحصال کا سبب بنے ہیں۔ان سب نظریات کی ناکامی دنیا کے سامنے عیاں ہو چُکی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج مغرب کی بڑی یونی ورسٹیز میں اسلام کے معاشی اصولوں پر تحقیق ہو رہی ہے، کیوں کہ دنیا اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ عدل و انصاف اور فلاح کا واحد راستہ اسلامی اصولوں پر مبنی معاشی نظام ہی ہے۔ 

لہٰذا، یکم مئی صرف تقریبات اور تقاریر کا دن نہ ہو، بلکہ یہ عہدِ نو کی بنیاد رکھے کہ ہم اِس استحصالی نظام کو بدلیں گے، مزدور کے چہرے پر مسکراہٹ لائیں گے اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے، جہاں ہر فرد کو عزّت، انصاف اور معاشی تحفّظ حاصل ہو۔

سنڈے میگزین سے مزید