• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی قومی شاہ راہیں، خونی شاہ راہوں میں تبدیل

مُلک کے نصف سے زائد رقبے پر محیط بلوچستان، جہاں مختلف شعبوں میں انتہائی پس ماندہ ہے، وہیں یہاں قومی شاہ راہوں کی زبوں حالی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ موٹر وے جیسی سہولت کا تو یہاں کے لوگ شاید اگلی کئی دہائیوں تک تصوّر بھی نہیں کر سکتے، حالاں کہ دنیا کی پہلی اقتصادی راہ داری، سی پیک میں بلوچستان کو مرکزیت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود قومی شاہ راہوں کی بہتری پر توجّہ نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔

سنگل شاہ راہوں کے باعث نہ صرف حادثات معمول بن چُکے ہیں بلکہ مختلف مکاتبِ فکر کی جانب سے آئے روز احتجاج کے باعث کئی کئی دن تک یہ شاہ راہیں بند رہتی ہیں، جس سے مسافروں کو شدید اذیّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بلوچستان حکومت کے ترجمان، شاہد رند نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں اِس بات کا اعتراف کیا تھا کہ صوبے میں گزشتہ دو ماہ کے دَوران مظاہرین کی جانب سے سڑکیں بند کرنے کے76 واقعات پیش آئے۔ 

قومی شاہ راہوں کی احتجاج کے باعث بندش کے ساتھ رہی سہی کسر صوبے میں جاری بد امنی کی لہر نے پوری کردی۔ مسلّح افراد کسی بھی وقت قومی شاہ راہ پر آ کر کئی گھنٹوں تک ناکے لگا کر چیکنگ کرتے اور شناخت کے بعد مسافروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔

دست یاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برس کے دَوران بلوچستان کو سکھر سے ملانے والی این 65، پنجاب سے ملانے والی این 70، براستہ ڈیرہ اسماعیل خیبر پختون خوا اور پنجاب سے ملانے والی این 50، کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی این25 اور کوئٹہ کو تفتان سے ملانے والی این40 شاہ راہ کی نصف درجن سے زائد بار عسکریت پسندوں کی جانب سے ناکہ بندی کرکے 50 سے زائد مسافروں کو قتل اور درجنوں گاڑیوں کو جلایا گیا،جس کے بعد بلوچستان میں قومی شاہ راہوں پر رات میں سفر سے روک دیا گیا۔ 

سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق، قومی شاہ راہوں پر شام6 سے صبح 6بجے تک سفر کی اجازت نہیں ہوگی۔ حکومت نے شہریوں کو سبّی شاہ راہ، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان شاہ راہ، کوسٹل ہائی وے پر رات کو سفر سے روک دیا ہے، جب کہ کوئٹہ تفتان اور لورالائی، ڈیرہ غازی خان شاہ راہ پر بھی رات کا سفر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ کوئٹہ تفتان، کوئٹہ کراچی شاہ راہ، کوئٹہ لورالائی، ملتان شاہ راہ اور کوئٹہ ڈیرہ اسماعیل خان شاہ راہ پر روزانہ ہزاروں افراد سفر کرتے ہیں، جب کہ مال بردار ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کی آمد و رفت بھی جاری رہتی ہے۔

کوئٹہ، کراچی شاہ راہ کی بات کی جائے، تو یہ سنگل رویہ شاہ راہ، خونی شاہ راہ بن چُکی ہے۔ بلوچستان میں دنیا بَھر کے غیرمعمولی خزانے موجود ہیں، لیکن رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے اِس سب سے بڑے صوبے میں بنیادی انفرا اسٹرکچر ہنوز ایک خواب ہے۔ اگرچہ یہ شاہ راہ، پاکستان کے دو بڑے شہروں کوئٹہ اور کراچی کو باہم ملاتی ہے، لیکن اس کے تقریباً ہر حصّے پر جان لیوا حادثات رونُما ہوچکے ہیں۔ 

کراچی کو کوئٹہ سے ملانے والی813کلومیٹر طویل یہ قومی شاہ راہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راستہ بھی ہے اور ماضی قریب میں اِسی راہ سے نیٹو افواج کی رسد بھی جاری رہی۔ چمن اور کراچی کے درمیان کئی چھوٹے، بڑے علاقے آتے ہیں، جن میں قلعہ عبداللہ، پشین، مستونگ، منگچر، قلّات، سوراب، خضدار، وڈھ، اوتھل، لسبیلہ اور صنعتی شہر حب شامل ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی بڑی گاڑیاں روزانہ کی بنیاد پر اس پر سفر کرتی ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور پیٹرول پمپس اِس شاہ راہ پر واقع ہیں۔

گویا اِس راہ سے ہزاروں گھروں کا چولھا جل رہا ہے، لیکن یہی شاہ راہ لاتعداد افراد کی موت کا باعث بھی بنی ہوئی ہے۔ ٹریفک حادثات میں اب تک سیکڑوں گھر اُجڑ چُکے ہیں، ہزاروں بچّے یتیم ہوگئے، کئی مائیں اپنے لختِ جگر سے محروم ہوگئیں، تو کئی بہنیں اپنے بھائیوں کو کھوچُکی ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں بچّے، بوڑھے، خواتین بھی اجل کا شکار ہو چُکے ہیں۔ مقامی میڈیا اور آزاد ذرائع نے صوبے میں10سال کے دَوران پیش آنے والے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 8ہزار کے لگ بھگ بتائی ہے۔

قومی شاہ راہوں پر بڑھتے حادثات کے پیشِ نظر چند برس قبل بروقت طبّی امداد کے لیے حکومتِ بلوچستان صوبہ بَھر میں میڈیکل ایمرجینسی سروسز 1122 کا قیام عمل میں لائی، جس کے تحت تمام قومی شاہ راہوں پر19کے قریب میڈیکل ایمرجینسی سینٹرز قائم کیے گئے۔اِس ضمن میں مختلف مراکز میں خدمات سرانجام دینے والے میڈیکل آفیسر، ڈاکٹر عدیل احمد نے بتایا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں19 کے قریب ریسکیو سینٹرز قائم ہیں اور یہ تمام سینڑز24گھنٹے سروس فراہم کررہے ہیں۔

ان مراکز میں28 ایمبولینسز اور2 درجن کے قریب عملے کے ارکان مختلف شفٹس میں موجود ہوتے ہیں۔ دیگر صوبوں اور بلوچستان کے ریسکیو سینٹرز میں یہ فرق بھی ہے کہ یہاں کے ہر سینٹر میں میڈیکل آفیسر موجود ہوتا ہے، جس کی رہنمائی میں ایمرجینسی کیسز کے ساتھ عام کیسز کو بھی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عدیل احمد کا کہنا ہے کہ’’ایم ای آر سی اور دیگر عام ریسکیو اداروں میں یہ بھی واضح فرق پایا جاتا ہے کہ دیگر عام ایمبولینس سروسز صرف متاثرہ شخص کو اسپتال تک پہنچاتی ہیں، لیکن ایم ای آر سی کی28 ایمبولینسز میں پلس مانیٹر کے ساتھ راستے میں ایمرجینسی طریقۂ علاج کی تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، اس کے ذریعے زخمی شخص کو اسپتال منتقل کرنے کے دَوران گولڈن وقت میں ابتدائی طبّی امداد فراہم کی جاتی ہے، جب کہ ریسکیو کے دَوران ڈاکٹر بھی موجود ہوتا ہے۔‘‘

’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘ کے مصداق کوئٹہ، کراچی شاہ راہ کو دو رویہ کرنے کے منصوبے پر کام کا آغاز ہوا، لیکن شورش کے باعث یہ سُست روی کا شکار ہے۔ چند ہفتے قبل مسلّح افراد نے تعمیراتی مشینری کو آگ لگا دی تھی، جس کے بعد قومی شاہ راہ پر کام روک دیا گیا۔ کوئٹہ، کراچی شاہ راہ کی بندش اور مخدوش صُورتِ حال کے باعث زمینی سفر ناممکن بنتا جا رہا ہے، جب کہ موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایئر لائنز نے کرایہ بے پناہ بڑھا دیا اور کوئٹہ، کراچی کا کرایہ 55سے65ہزار روپے وصول کیا جا رہا ہے۔

کرایوں سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی، جس پر جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس شوکت علی رخشانی نے کوئٹہ سے مُلک کے دیگر شہروں کے لیے پروازوں کی تعداد میں کمی، کرایوں میں اضافے، پرواز کی فریکوینسی میں جان بوجھ کر کمی اور صارفین کے حقوق کی پامالی سے متعلق چیف سیکرٹری حکومتِ بلوچستان کو آئندہ سماعت پر جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

ٹرین سروس کی بات کی جائے، تو دو دہائی قبل تک یہاں کئی ٹرینیں چلتی تھیں، لیکن اب صرف کوئٹہ کو پنجاب اور خیبر پختون خوا سے ملانے والی جعفر ایکسپریس ہی روزانہ کی بنیاد پر چلتی ہے، جس میں400سے500 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے، جب کہ کوئٹہ سے کراچی جانے والی بولان ایکسپریس ہفتے میں صرف2بار کراچی کی جانب روانہ ہوتی ہے۔اِس ساری صُورتِ حال میں بلوچستان سے مُلک کے دیگر حصّوں میں جانے، آنے کے لیے فضائی سفر ہی کا راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے کہ فضائی کمپنیز نے لُوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

حال ہی میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، بلوچستان نے وفاقی وزیر ہوا بازی کے نام ایک مراسلہ لکھا، جس میں کہا گیا کہ’’بلوچستان میں امن و امان، احتجاج اور سیکیوریٹی خدشات کی وجہ سے آئے روز قومی شاہ راہیں بند رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان پر سفر مشکل ہو گیا ہے۔ کوئٹہ سے پنجاب اور کے پی کے، کے لیے صرف ایک ٹرین اور کراچی کے لیے ہفتے میں2 ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔

کاروباری افراد سمیت دیگر مسافروں کے لیے ہوائی سفر ہی واحد قابلِ عمل آپشن ہے۔ فلائی جناح کو زائد کرایہ وصولی سے روک کر پی آئی اے اور دیگر ایئر لائنز کو کوئٹہ سے پروازوں میں اضافے کا پابند کیا جائے۔ ٹکٹس کی قیمتوں میں اضافہ عوام اور بزنس کمیونٹی کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔‘‘

اُدھر، بلوچستان میں قومی شاہ راہوں کی بندش نے عوام، تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔اِن حالات میں ٹرانسپورٹرز اور کاروباری طبقے کو یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر، محمّد ایوب مریانی کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’شاہ راہوں کی بندش کے باعث تاجروں کو صرف کنٹینرز کے ڈیمریج چارجز کی مد میں روزانہ تین کروڑ36 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ دیگر مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔‘‘

اُنہوں نے بتایا کہ’’این40 شاہ راہ کی بندش سے ایران کی سرحد پر 1200 سے زائد مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں 847 باؤزرز بھی شامل ہیں، جو ایل پی جی اور پیٹرولیم مصنوعات لے کر پاکستان آ رہی تھیں۔ ہر گاڑی پر روزانہ تقریباً100 ڈالر کے کنٹینر ڈیمریج چارجز عائد ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ میں این ایل سی ڈرائی پورٹ پر ایران جانے والی آلو اور چاول سے بھری 200 گاڑیاں بھی کھڑی ہیں، جن میں موجود سامان جَلد خراب ہونے والا ہے۔ ان اشیا کی مقامی مارکیٹ میں فروخت بھی ممکن نہیں، کیوں کہ طلب نہ ہونے کی وجہ سے یہاں قیمتیں بہت کم ہیں۔

شاہ راہوں کی بندش نہ صرف مقامی بلکہ مُلکی اور علاقائی تجارت پر بھی منفی اثرات مرتّب کر رہی ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہو رہا ہے، جب کہ تاجروں کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر راستے کھلوائے اور جاری احتجاج کا پُرامن حل نکالے۔بلوچستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک، حاجی مظفّر علی لہڑی کا کہنا ہے کہ’’بدامنی اور راستوں کی بندش سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے کاروبار شدید متاثر ہے اور دو ہفتوں سے تو مکمل طور پر بند ہے۔‘‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’مستونگ سے گزرنے والا اور کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والا راستہ سب سے مختصر اور اہم ہے۔ یہاں ہماری روزانہ12 سے 15گاڑیاں چلتی تھیں، لیکن اب صرف دو سے تین گاڑیاں سبّی، جیکب آباد، سکھر اور اندرونِ سندھ سے گزرنے والے متبادل راستے سے جا رہی ہیں، جو طویل اور منہگا پڑتا ہے۔اس روٹ پر 200لیٹر اضافی ڈیزل استعمال ہوتا ہے اور کرایہ بھی تقریباً دو ہزار روپے بڑھ گیا ہے، اِس لیے مسافر اِس رُوٹ پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔‘‘

آل کوئٹہ تفتان بس یونین کے صدر، حاجی ملک شاہ جمالدینی نے بتایا کہ کوئٹہ سے نوشکی، دالبندین، نوکنڈی، تفتان، ماشکیل اور خاران کے لیے روزانہ100سے زائد بسز اور ویگنز چلتی تھیں، جو گزشتہ 10 دنوں سے کھڑی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’بیش تر بس مالکان نے قرض لے کر تین سے ساڑھے تین کروڑ روپے کی بس خریدی اور اُنہیں ماہانہ پانچ سے آٹھ لاکھ روپے تک کی قسطیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ 

اس کے علاوہ بس اڈّوں کے کرایے، گاڑیوں کی مرمّت اور عملے کی تن خواہیں بھی اب ٹرانسپورٹرز پر بوجھ بن گئی ہیں۔ہم جس رُوٹ پر ٹرانسپورٹ چلاتے ہیں، وہ دُور دراز علاقے ہیں، جہاں سے لوگ علاج معالجے، تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات کے لیے کوئٹہ آتے ہیں، لیکن گزشتہ کئی دنوں سے مریض بھی سفر نہیں کر پا رہے، جس سے عام مسافر سخت مشکلات کا شکار ہیں۔‘‘

مقامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو جدید مواصلاتی نظام سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہاں جدید یا موٹر ویز طرز کی شاہ راہوں کا کوئی تصوّر نہیں۔ کوئٹہ تا کراچی، کوئٹہ تا تفتان، کوئٹہ تا چمن، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ تا جیکب آباد، کوئٹہ تا تُربت شاہ راہوں پر گاڑیاں چلتی ہیں، جن میں روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرتے ہیں، جب کہ مال بردار گاڑیاں اس کے علاوہ ہیں۔ 

بلوچستان سے لوگوں کی بڑی تعداد کاروبار، علاج معالجے اور دیگر امور کی غرض سے مُلک کے بڑے شہروں کراچی، ملتان، لاہور، اسلام آباد جاتی ہیں، لیکن جب تک یہ مسافر اور گاڑی مالکان بلوچستان کی حدود میں ہوں، تو انتہائی خوف میں سفر کرتے ہیں، کیوں کہ بلوچستان کی تمام قومی شاہ راہیں سنگل رویہ ہیں۔ صوبائی حکومت کے لاتعداد وعدوں کے باوجود سڑکوں کو بہتر بنانے میں پیش رفت انتہائی سُست روی کا شکار ہے۔ 

شاہ راہوں کی بروقت تعمیر کو یقینی بنانے کے لیے قانونی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن بڑے حصّے اب بھی نامکمل ہیں۔ حکومت کی عدم دل چسپی اور اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے بلوچستان کی شاہ راہیں ایسے خطرناک علاقوں میں تبدیل ہوچُکی ہیں، جہاں مسافروں، ٹرانسپورٹرز اور سیکیوریٹی اہل کاروں کو جانوں کے خطرات لاحق ہیں۔ 

عسکریت پسندوں، ڈاکوؤں اور بار بار ہونے والے مظاہروں سے سفر میں شدید خلل پڑتا ہے، جب کہ صوبے کا ٹرانسپورٹ سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ چُکا ہے۔اِس سارے معاملے میں بہتر حفاظتی اقدامات، بنیادی انفرا اسٹرکچر کی بہتری اور حکومتی مداخلت کی اشد ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جاتا، بلوچستان کی سڑکوں پر گزرنے والوں کے لیے یہ موت کا سفر جاری رہے گا۔

وفاقی حکومت کو اپنے وسائل اور توجّہ سے بڑھ کر صوبے میں ترقیاتی عمل اور مواصلاتی نظام کی بہتری کے لیے آگے آنا ہوگا۔ مسلم لیگ نون کی مرکزی حکومت کا سڑکوں کی تعمیر و مرمّت کے حوالے سے دیگر حکومتوں کی نسبت ٹریک ریکارڈ بہت اچھا ہے، اُمید کی جانی چاہیے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف، بلوچستان میں قومی شاہ راہوں کی بہتری، توسیع اور موٹر ویز کا جال بچھانے کے لیے خصوصی دل چسپی لیں گے، کیوں کہ وفاقی حکومت کی خصوصی دل چسپی ہی سے صوبے میں ترقّی کا عمل بہتر بنایا جا سکتا ہے، بلکہ یہاں کے عوام کے ذہنوں میں وفاق سے متعلق جو تحفّظات ہیں، وہ بھی دُور کیے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا، صوبے میں بلاتاخیر سڑکوں کا جال بچھانے کے اقدامات کا آغاز کیا جائے۔

سنڈے میگزین سے مزید