ہم پانچ دوست سیر و سیاحت کی غرض سے گلگت گئے، یہ اگست 1989ءکی بات ہے، ایک ہفتہ قیام رہا،خوب سیر کی، بہت لطف آیا۔ واپسی کی ہوائی ٹکٹیں 24اگست کی تھیں، صبح ہوائی اڈے پہنچے تو خبر ملی کہ اس جہاز پر تین سیٹیں مل سکتی ہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ تین دوست آج ہی چلے جائیں اور دو اگلے دن آ جائیں۔ لہٰذا، شہباز شیخ، عماداللہ شیخ اور برادرِ بزرگ سیّد جنید غزنوی، اُس پرواز پر اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ میں نے اورجاسم سلیم نے اگلے دن کی ٹکٹیں کنفرم کروا لیں۔ اگلے دن صبح 7.36 پر پی کے 404 گلگت سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئی، نو منٹ کے بعد جہاز کا ائر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہو گیا، جہاز کی تلاش شروع کی گئی مگر کچھ سُراغ نہ مل سکا، جہاز ’’غائب‘‘ ہو چکا تھا، کئی دن نانگا پربت کے آس پاس ٹیمیں گمشدہ جہاز کا ملبہ تلاش کرتی رہیں، مگر ہر کوشش بے سُود رہی۔ جہاز گُم ہو چکا تھا، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔
میں اور جاسم سلیم اُس جہاز پر نہیں بیٹھ سکے تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ جب ہم واپس فوجی میس پہنچے تو ہمیں ہمارے میزبان میجر صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ گلگت تو اچھی طرح دیکھ چکے ہیں، آپ ایک دن کیلئے اسکردو کیوں نہیں چلے جاتے، وہیں سے آپ کی اسلام آبادکیلئے ہوائی ٹکٹیں لے لی جائیں گی۔ ہمیںمشورہ پسند آیا اور ہم اسکردو روانہ ہو گئے۔اگلے دن ہم اسکردو سے اسلام آباد پہنچ گئے۔ لگ بھگ اُسی وقت گلگت سے اُڑنے والے بدقسمت جہاز میں ہماری دو ’’کنفرم‘‘ سیٹیںخالی رہ گئی تھیں۔
اسے اتفاق کہیے یا ’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘ کا نام دیجیے،اس طرح کے واقعات بہت سے لوگوں کی زندگی میں ہوتے ہوں گے، مگر جو واقعہ اب آپ کو سنایا جائے گا وہ آپ کو کبھی پیش نہیں آیا ہو گا، وہ تجربہ آٹھ ارب انسانوں میں سے غالباً کسی ایک آدھ شخص کو ہی ہوا ہو گا۔ سنیے۔عید کی چھٹیاں ہونے والی ہیں، ظفر مسعود، ایک بینک کا سربراہ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ عید منانے کی خواہش میں 22مئی 2020 کو لاہور سے کراچی کی صبح گیارہ بجے کی فلائٹ میں نشست محفوظ کرواتا ہے، پھر سوچتا ہے کیوں نہ آرام سے سہ پہر کی فلائٹ لی جائے، اور دوپہر ایک بجے کے جہاز میں سیٹ لے لیتا ہے۔ ہمیشہ بالکل آخری لمحے پر ائرپورٹ پہنچنے والا ظفر مسعود اُس دن پرواز کی روانگی سے کافی پہلے ہوائی اڈے پہنچ جاتا ہے، اور اُس کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ ونڈو سیٹ تبدیل کروا کے آئیل سیٹ (1-C (لے سکے۔ ایک معمول کی پرواز کے بعد جب جہاز کراچی ہوائی اڈے پر اترنے لگتا ہے تو پرواز غیر ہم وار ہو جاتی ہے، جہازہدایات اور اصول کی خلاف ورزی کرتا ہوا بہت تیزی سے نیچے آتا ہے، جہاز کا پیٹ رن وے سے زور سے ٹکراتا ہے، جہاز پھر اُڑ جاتا ہے، جہاز تقریباً دو ہزار فٹ کی بلندی پر چلا جاتا ہے، اور پھر فضا میں معلق، ڈولتے ہوئے جہاز کے انجن بند ہو جاتے ہیں۔ اب جہاز میں صرف آیات کا ورد اور رونے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔یہ وہ لمحہ ہے جب مسافروں اور عملے کو یقین آ جاتا ہے کہ جہاز کریش ہونے والا ہے۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد جہاز کریش ہو جاتا ہے، جہاز میں سوار سب مسافر اور عملہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ مگر ظفر مسعود بچ جاتے ہیں۔ کس طرح بچ جاتے ہیں؟ جہاز کے اُس حصے میں ہواکا دبائو بن جاتا ہے، جو ظفر مسعود کو ان کی سیٹ 1-C سمیت اٹھا کر جہاز کی پھٹی ہوئی جستی چادر سے باہر پھینک دیتا ہے، وہ ایک تین منزلہ مکان کی چھت پر گرتے ہیں، وہاں سے پھسل کر سڑک پر کھڑی ایک گاڑی پر آن گرتے ہیں۔ ظفر مسعود زندہ بچ جاتے ہیں۔ اگر یہ کسی فلم کی کہانی ہو تو ہم اسے بے سروپا قرار دے دیں۔ مگر یہ حقیقت ہے۔ (اس پرواز کا ایک اور مسافر بھی بچ گیا تھا، اس کی کہانی پھر کبھی)
ظفر مسعود صاحب کی کتاب ''Seat 1C" پچھلے ہفتے چھپی ہے، کتاب کا موضوع ہے وہ غور و فکر جو انہوں نے اس ’معجزے‘ کی تفہیم کیلئے کیا،وہ سبق جو انہوں نے بہ طور انسان، مسلمان اور پاکستانی اس ’معجزے‘ سے سیکھے۔ وہ اپنے بچ جانے کی کسی مذہبی اور روحانی توجیہ سے مسلسل کتراتے نظر آتے ہیں،ایک ’معجزے‘ میں بچ جانے والے ظفر مسعود قاری کو مسلسل عمل اور پیہم سعی کی ترغیب دیتے ہیں۔ظفر مذہبی رسوم کی ادائیگی کی آڑ میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے غفلت پر تنقید کرتے ہیں (ٹریفک کنٹرول عملے کی بڑی تعداد حادثے کے دوران بہ یک وقت جمعتہ الوداع ادا کرنے گئی ہوئی تھی)، وہ معاشرے کی شدت پسندی کو بہت سے ملکی مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔ جس طرح حادثے کے بعد سڑک پر اجنبیوں نے بغیر کسی لالچ کے ان کی مدد کی اس سے انسانیت پر ان کا اعتماد مزید پختہ ہوا۔ ظفر مسعود کو نئی زندگی کیوں ملی؟ اس سوال کا جواب انہوں نے کچھ اس طرح دیا ہے کہ جب جہاز گر رہا تھا تو ہوش کے آخری تیس سیکنڈز میں میری زندگی کی ساری فلم میری آنکھوں کے سامنے سے گزری، اس میں کہیں حقوق اللہ کے ضمن میں میری غفلتوں کے منظر نہیں تھے، ساری کی ساری فلم انسانوں کے حقوق اور میری کوتاہیوں پر مبنی تھی۔
ظفر مسعود نے تاریخ اور فلسفہ سے فلم اور ادب تک، بہت سے علوم کی متعلقہ بحثیں اپنے قصے میں سمو دیں ہیں، جس سے کتاب فقط ایک حادثے کی کہانی سے کہیں ارفع ہو گئی ہے۔ یہ غالباً اُن کے گھر کی فضا کا فیضان ہے۔رئیس امروہوی اور جون ایلیا کے بھائی، سید محمد تقی ظفر مسعود کے نانا تھے، اور منور سعید انکے والد ہیں۔’’سیٹ 1C‘‘ ایسی کتاب ہے جو زندگی کے بارے آپ کے نظریات بدل سکتی ہے۔