• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ بتاتی ہے کہ دریائے نیل گیارہ ممالک سے ہوتا ہوا، بحیرئہ روم میں گرتا ہے۔ ان گیارہ ممالک میں بھی ممکن ہے پانی کی تقسیم پر کبھی فساد ہوا ہوگا۔ آپس میں ناچاقی ہوئی ہوگی۔ مگر ایسے کبھی سنا اور نہ دیکھا کہ سندھی پورے صوبے میں ہڑتال سے لیکر مظاہرےکررہےہیں، دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے موضوع پر، صوبے بھر میں ہڑتالیں ، مظاہرے اور ہر تعلیمی ادارے سے آواز اٹھ رہی ہے کہ صوبہ سندھ کے پانی کی چوری ہورہی ہے اور یوں سارے ہرے بھرے کھیت اور فصلیں تباہ ہوجائینگی۔ ہر چند پنجاب اور مرکزی حکومت اور ارسا نے ان شبہات کو غلط فہمی پر مبنی قرار دیا ہے مگر دو صوبوں کے درمیان اختلاف کو باہمی خوشگوار موڈ میں نہیں بلکہ لہجہ وہ اختلافی، جس میں ’’میں نہ مانوں‘‘ کی تلخ آوازیں پورے ملک میں گونج رہی ہیں۔ کئی ہفتےگزرنے کے بعد کہا گیا کہ باہمی گفت و شنید کے بعد معاملات حل ہوجائیں گے۔ حالانکہ بلیغ نظری سے دیکھا جائے تو یہ دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ نہیں ہے۔ اسباب پر غور اور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ دوران سیلاب، وافر اور فالتو پانی کو استعمال کے قابل بنانے کی ترکیبوں میں سے ایک ہے۔ جہاں تک سندھو دریا کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ پوری معیشت کی توجہ چاہتا ہے۔ حال ہی میں بلوچستان میں سونے، چاندی، تانبے کے زیر زمیں خزانوں کی بات ہوئی ہے تو بلوچی بھی اسی طرح شور مچا رہے ہیں۔ جبکہ دیکھنے میں یہ آیا کہ ریکوڈک کی طرح، غیرملکی آئینگےاور خزانے لوٹ کے لے جائینگے اور مخلوق سینہ پیٹتی رہ جائیگی۔

یہ سچ ہے کہ اس سال بارش نہ ہونے اور گرمی کے طویل اور بے وقت آنے سے گلیشیرز ساری دنیا میں پگھل رہے ہیں۔ دریائے سندھ کے پانی کی کمی کا رونا، آج کا نہیں بہت پرانا ہے کہ ہم لوگ خیرپور اور حیدرآباد جاکر پلا مچھلی مانگتے تھے۔ تو مقامی دوست بتاتے تھے کہ دریا میں پانی کم ہے جبکہ پلا مچھلی تازہ اور وافر پانی مانگتی ہے، کبھی کبھار ہاتھ آتی ہے۔ ہمارے سارے صوبے، موسم اور گرمی میں اضافہ ہونے کے باعث بے وقت پانی کی کمی کے باعث ہر روز میڈیا پہ سنتے ہیں کہ ڈیم سوکھ رہے ہیں۔ پانی کی کمی کا سب شکوہ کررہے ہیں۔ ہماری وفاقی حکومت ہو کہ صوبائی، سمجھداری اور بردباری سے آپس میں مذاکرات کم اور میڈیا، اخباروں اور سوشل میڈیا پر شور مچانے کیلئے، وہ سیاستدان بھی مل جاتے ہیں جو اگلے الیکشن کیلئے خود کو تیار کررہے ہوتے ہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ گزشتہ 76 سال سے چولستان ایسا ہی صحرائی علاقہ ہے کہ جہاں چنن پیر کا سالانہ میلہ ہوتا ہے۔ صحرائی گاڑیاں چلانے کا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ جہاں کہیں پانی پہنچا ہوا ہے وہاں چھوٹے موٹے کھیت بھی نظر آتے ہیں۔ اگر کسی دماغ میں فیثا غورث کی طرح یہ خیال چمک اٹھا ہے کہ وہ اپنی عقلمندی سے چولستان میں دریائے ستلج کا سیلابی پانی استعمال کرنے کا سوچتا بھی ہے تو یہ بھی یاد رکھیں کہ بجائے سندھو دریا میں پانی کی فراوانی کی کوشش کریں، سندھ میں موجود پانی کی پٹی کو نہ چھیڑیں اور اس خیال کو بھی پس پشت ڈال دیں کہ چولستان کی زمین کو پانی کے استعمال سے قابل کاشت بنائیں۔ اس زمانے میں جبکہ ٹرمپ نے ٹیکس بڑھائے جسکے باعث، چین اور یورپ کیا، آسڑیلیا جیسے ملک بھی اپنی باہمی تجارت و تعلقات کو مخدوش دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت بلوچستان میں سخت خوراک اور ملازمتوں کی کمی علاوہ ایران اور پاکستان کے تجارتی تعلقات بھی خراب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ انڈیا سے تو کسی قسم کی تجارت یا بات چیت نہیں ہورہی جبکہ اسمگلنگ کے ذریعےکروڑوں کا کاروبار جاری ہے۔ اب جبکہ ضعیف سی ہل جل افغانستان کے ساتھ ہوئی ہے تو مذاکرات کو باہمی اور عوامی فلاح کیلئے مثبت بنائیں۔ میں نے بھی دیگر متعلقات میں ڈوبے اساتذہ اور پروفیسروں کو ان ساری تلخیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ سندھ میں نفرتوں کا سبق پہلے ایم کیو ایم نے سکھایا جو اب تک پھیلا ہوا ہے۔ بلوچستان میں پنجابیوں کو شناخت کرکے اور گاڑیوں سے اتار کر گولیاں ماری جارہی ہیں جبکہ نوجوانوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ یونیورسٹیوں اور سارے تنظیمی اداروں میں بلوچ لوگوں ہی کو لگایا جائے جبکہ بلوچستان صوبے کی آبادی میں 44 فی صد لوگ بلوچ ہیں۔ اتنے ہی پشتون اور دیگر علاقائی لوگ آباد ہیں۔ مگر نفرتوں نے وحشی گھاس کی طرح لوگوں کے دلوں میں ایسے سوراخ کیے ہیں کہ بچے تک اس سے محفوظ نہیں۔

یہ سچ ہے ہمارے سیاست دانوں اور عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرتوں کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے تو سبق نہ سیکھنے اور مقدموں پر مقدمے ایک دوسرے پر داغ دینے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ ہم انڈیا سے دریائوں کے مسئلے پر معاملات کیسے طے کرینگے جب ہم اپنے ملک میں جنونی چنگاریوں کو بھڑکاتے رہیںگے۔ کبھی مذہبی فساد ہوگا، نام لینگے غزہ اور فلسطین کا اور آپس کے فسادات کو بڑھائینگے۔ معلوم ہے نہیں کہ تمہارے ملک میں تو بیج اور ٹریکٹر بھی باہر سے آتے ہیں اور تم لوگ کشتیوں کے ذریعہ ان ملکوں میں پہنچنے سے رہ جاتے ہو جو مشینری بنانے میں سب سے آگے ہیں۔ مزید یہ ریستورانوں کو جلانے سے کیا ہماری معیشت اور عزت میں اضافہ ہوگا۔ نوجوانوں کو جلائو، گھیرائو سکھانے سے ہماری جمہوریت کو نقصان ہوگا۔ اب بھی سنبھل جائیں اور غزہ کے نام پر آگ نہ بھڑکائیں۔

تازہ ترین