• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس 1885 کو وجود میں آئی۔ برطانوی سول افسر ایلن اوکٹیوین ہیوم، اسکاٹش سول افسر ولیم ویڈبرن اور جسٹس سر جون جارڈین اس کے بانی تھے۔جنہوں نے برطانوی پارلیمانی نظامِ جمہوریت لانے کے لیے 72 اراکین سے اس کی داغ بیل ڈالی جو انگریز سرکار کے معتمدِ خاص اور رئیس گھرانوں کے ہندو تھے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد انگریز سرکار کو اندازہ ہو گیا کہ نو آبادیاتی نظام کے تحت ہندوستان پر بلا واسطہ حکمرانی کرنا بتدریج مشکل ہوتا جائے گا لہٰذا پارلیمانی جمہوریت سے بالواسطہ حکمرانی کا طریقہ اپنایا گیا۔ جمہوریت کے اس عفریت پر ہندوستان کے دروازے وا کرنے کے لئے ایک سیاسی جماعت بنا کر اس کی تربیت کا آغاز کیا گیا جو عوامی نمائندہ جماعت نہ تھی۔ اسکے برعکس آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے لیے سامنے آئی لیکن اس کے وجود، تشکیل اور تربیت میں انگریز کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ انگریزوں نے حکومت چونکہ مسلمانوں سے چھینی تھی لٰہذا ان کا قدرتی جھکاؤ ہندوؤں کی جانب تھا جبکہ ہندو بھی پرانے آقاؤں سے اپنی محکومیت اور مذہبی تضادات کے سبب لّلہی بغض رکھتے تھے۔ یوں انکا نئے آقاؤں کا قرب حاصل کرنے کی ازلی خواہش ،مسلمان مخالف بغض اور مغرب کی جانب جھکاؤ کسی سے چھپا نہیں۔ یہی پسِ پردہ چھپی نفرت و بغض، انگریزوں اور ہندوؤں کے درمیان مسلمان مخالف گٹھ جوڑ کی بنیاد بنی۔ پاکستان دشمنی کے پیچھے آل انڈیا مسلم لیگ کا 1906میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے وجود میں آنا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی معاملہ فہمی، فراست واستقامت سے مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کا قیام تھا جو ان کے دلوں میں کانٹا بن کر چب رہا ہے۔آج تک ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔

برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے کہا تھا کہ برصغیر ِکی تقسیم ایک بدقسمت واقعہ ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ یہ تقسیم جلد ختم ہو جائے گی۔ بعینی ہندو قائدین اپنے پیروکاروں کو بتاتے تھے کہ ہم دوبارہ اکھٹے ہونے کیلئے علیحدہ ہورہے ہیں۔ماونٹ بیٹن تقسیمِ ہند کے بعد نجی محفلوں میں کہتے کہ "میں کبھی ہندوستان تقسیم نہ ہونے دیتا اگر مجھے پتہ ہوتا کہ جناح کو اتنی شدید ٹی بی تھی اور اس کے پاس زیادہ وقت نہ تھا"۔ برطانوی سرکار کے جون 1948 میں تقسیمِ ہند کے اعلان کو بدنیتی سے عجلت میں اگست 1947 میں لایا گیا تاکہ مسلمان تیار نہ ہونے کے سبب اپنا حق یعنی پورا بنگال، آسام، پورا پنجاب نہ لے سکیں ۔ برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے ایک وکیل ریڈ کلف کو اتنے بڑے ہندوستان کی تقسیم کےلئے محض پانچ ہفتے دیے جسے اس کام کا پہلے تجربہ ہی نہ تھا۔ ایک لاکھ 75 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے، 88 کروڑ آبادی کے ملک کی تقسیم کے لیے ایک ایسا شخص لگایا جو علاقے، رسم و رواج، مذہبی رجحانات اور تاریخ سے یکسرناآشنا تھا جس سے برطانوی سرکار کی مکاری عیاں ہوتی ہے۔ ہندو قائدین کی ایماء پر پہلے ہی تقسیمِ ہند کا نقشہ تیار کیا جا چکا تھا جس میں تقسیم کی ایسی لکیریں کھینچی گئیں کہ پاکستان قائم نہ رہ سکےاور ہندوستان میں ضم ہو کر اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو۔ اس لئےمسلم اکثریتی مرشد آباد ہندوستان کو دیا گیا کہ بنگال اور آسام اکٹھے ہو سکیں، ہندوستان کے کشمیر سے زمینی رابطے کیلئے گرداس پور دیا گیا جبکہ پنجاب اور بنگال برطانوی راج کے فیصلے کے برخلاف تقسیم کر کے ہندوستان کو دیےگئے۔ ریڈ کلف کے نقشے،ضروری کاغذات اور یادداشتیں بعد ازاں انگریز سرکار کے حکم سے تلف کر دیے گئے تاکہ بدنیتی کے اس فیصلے کے ثبوت و شواہد نہ رہیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی یادداشتوں کو برطانیہ کی ایک لائبریری میں محفوظ کر دیا گیا جن تک صرف شاہی خاندان کی رسائی ہے۔ماونٹ بیٹن قابلِ اعتماد دوستوں کو کہا کرتے کہ "ہم نے پاکستان کو اس قدر مخدوش اور کٹی پھٹی حالت میں آزاد کیا ہے کہ جیسے وہ دوبارہ اتحاد کے لیے تقسیم ہوا ہو"۔ یہ وطن ہمیں مشیت ایزدی اور قائدا اعظمؒ کی فہم و فراست اور معاملہ فہمی کی بدولت ملا وگرنہ تمام عوامل اس تقسیم کے خلاف تھے۔ دو قومی نظریے پر وجود میں آئے ہوئے اس پاک وطن کے مخالفین جان لیں کہ 77 سال بعد آج دو قومی نظریہ کی پھر سے تصدیق ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی ، ظلم و جبر کیا جارہا ہے۔ انکی مذہبی آزادی ختم کر دی گئی ہے جبکہ مسلمان ہونا بدترین گناہ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں " گھر واپس آؤ مہم" کے ذریعے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ واپس ہندو مذہب اختیار کر لیں۔ بعینی بنگلہ دیش میں بھی دو قومی نظریہ پوری آب و تاب سے روشن ہے اور امسال وہاں قائد اعظمؒ کا یومِ پیدائش بطورِ اظہار تشکر منایا گیا۔

77سال سے ہندوستان نے پاکستان توڑنے اور اسے نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ بغضِ پاکستان میں انگریزوں اور ہندوؤں کا گٹھ جوڑ تو شروع سے تھا لیکن ناجائز صیہونی قابض ریاست اسرائیل کی آشیرباد اور ہندوستان کو اپنی جانب کھیچنے کی کوشش میں ٹرمپ اور ان کی ہندوستانی ٹیم بھی شامل ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا پاکستان اور ہندوستان میں کشیدگی پر یہ بیان کہ دونوں ممالک آپس میں معاملات خود طے کریں دراصل امریکہ کی ہندوستان سے جانبداری ثابت کرتا ہے۔ امریکی عسکری جہاز اسلحہ بھر بھر کر قطر سے ہندوستان پہنچا رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی مقبوضہ کشمیر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان سے جنگ چھیڑ کر مقبوضہ کشمیر میں غزہ کی طرز پر کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے گی اور الزام پاکستان پر لگایا جائے گا۔افسوس کہ اس وقت دنیا تین ابلیسی جنگی جنونیوں کے ہاتھوں میں تماشہ بنی ہوئی ہے۔ ماضی میں ہندوستان نے سمجھوتہ ایکسپریس، پلوامہ، ممبئی حملہ اور ایسے بے تحاشہ فالس فلیگ آپریشن کئے جن کے وہ آج تک کوئی ثبوت وشواہد نہ دے سکا لیکن اس کے باوجود ہندوستان نے جھوٹے دعووں اور شواہد دینے کے خالی خولی وعدوں پر سالہا سال پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھوایا،ہم پر پابندیاں لگوائیں ۔ ہندوستان کی جانب سے حالیہ فالس فلیگ آپریشن اور جنگی جنون کی شدت و بڑھاوا دراصل امریکہ کی ہندوستان کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کے خواہش سے استفادہ کرنے کی کاوش ہے۔ ٹرمپ چین سے ٹیرف جنگ میں منہ کی کھانے کے بعد اب ہندوستان کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈال کر ہمارے دوست چین کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔تاہم ہندوستان کی فضائی قابلیت 36 رافیل اور ایس یو- 30جہازوں کے برتے ہے وگرنہ انکے مگ - 21طیارے اڑتے تابوت اور بیوگی کی علامت قرار دیے جاتے ہیں۔اس لاحاصل جنگی جنون سے ہندوستان کو کوئی فائدہ نہیں ماسوائے دنیا میں پاکستان مخالف بیانہ پھیلانےکے۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت اسکے دفاع کے لیے ہے الماریوں، صندوقوں میں رکھنے کے لیے نہیں۔ پوری قوم، حکومتِ وقت اور افواجِ پاکستان کسی بھی مہم جوئی سے آڑے ہاتھوں نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ قائد اعظم ؒنے آزادی کیلئےکہا تھا کہ" ہم انڈیا تقسیم کروائیں گے وگرنہ تباہ کر دیں گے"۔سو جسے شک ہے وہ میدان میں آئے ۔ہم انہیں آزمائیں وہ ہمیں!

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

تازہ ترین