• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے انتخابی نتائج اور تھائی لینڈ کے حالات پاکستان کے لئے سبق آموز ہیں بشرطیکہ کوئی سنجیدگی سے ان پر توجہ دے اور اس مغالطے کا شکار نہ رہے کہ نریندر مودی بالآخر اٹل بہاری باجپائی کی طرح لاہور آ کر ’’جنگ نہ ہونے دیں گے‘‘ کا گیت گائیں گے اور مارشل لائوں کا موسم لد چکا۔ تھائی لینڈ اور پاکستان کے حالات میں فرق ہے وغیرہ وغیرہ۔
ذات پات، سماجی اونچ نیچ اور موروثی سیاست کے شکنجے میں جکڑا بھارتی معاشرہ اگر ایک چائے فروش کو وزیر اعظم بنانے پر راضی ہوا تو یہ خوش آئند، قابل رشک اور لائق تقلید امر ہے۔ ہماری اس غلامانہ ذہنیت کے منہ پر زوردار تھپڑ جو ایک مسلم معاشرے میں مخصوص خاندانوں اور ان کے نوعمر، ناتجربہ کار اور نالائق بچوں کے حق قیادت و حکمرانی کی وکالت کرتی اور بے ہودہ دلائل تراشتی ہے۔
یہ مسلسل انتخابات کا کرشمہ ہے نہ جمہوری نظم کی پختگی کا مظہر۔ ایک سیاسی جماعت کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل، موروثی اور خاندانی سیاست سے نفرت اور مخلص سیاسی کارکنوں کی حوصلہ افزائی پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے جبکہ ہندوستان کو انگریز کی غلامی سے نجات دلانے والی کانگریس ایک خاندان کی میراث بن گئی اور جواہر لال نہرو کے خاندان سے باہر کے سربرآوردہ رہنما نرسمہا رائو، من موہن سنگھ، اس خاندان کے غلام بے دام حتیٰ کہ راہول اور پریانکا کی قیادت پر راضی۔
ان انتخابی نتائج نے یہ فکری مغالطہ دور کر دیا کہ جمہوری اور انتخابی عمل کا تسلسل بالآخر معاشرے میں روشن خیالی، کشادہ نظری اور سیکولر رجحانات کے فروغ اور سماجی و معاشی قباحتوں، برائیوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتاہے۔ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق ساڑھے پانچ سو کے ایوان میں ایک سو ساٹھ سے زائد منتخب ارکان مستند جرائم پیشہ ہیں، اسّی فیصد کروڑ پتی اور پرلے درجے کے متعصب، تنگ نظر اور ہنددتوا کے علمبردار۔
نریندر مودی کو کارپوریٹ طبقے کی حمایت بھی گجرات ماڈل کی کامیابی کی بنا پر نہیں ملی جیسا کہ پاکستان میں مغالطہ آرائی کی جا رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ گجرات کبھی پسماندہ ریاست نہ تھی۔ گجراتی تاجر، صنعتکار اور سرمایہ دار قیام پاکستان سے قبل دنیا بھر میں اپنی کاروباری صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔ نریندر مودی نے گجراتی سیٹھوں کو جو مذہبی رجحانات کے حامل اور ہند دتوا کے قائل ہیں کرپٹ، منافق اور رکاوٹیں ڈالنے میں ماہر بیورو کریسی کے شر سے نجات دلائی، امن فراہم کیا ، ہندو مسلم کشمکش کے دوران ان کے مذہبی جذبات کے عین مطابق اپنا وزن ہند دتوا کے پلڑے میں ڈالا۔ کسی مسلمان اور عیسائی اقلیت کی پروا کی نہ سیکولرزم کا ڈھونگ رچایا۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ خواہ وہ سول ہو یا فوجی، ابتدا ہی سے انہی رجحانات کی حامل ہے اور پاکستان کو سبق سکھانے کے دعویدار سابق بھارتی آرمی چیف وکرم سنگھ (وی کے سنگھ) بی جے پی میں اسی بنا پر شامل ہوئے، اب رکن پارلیمنٹ ہیں۔ میاں نواز شریف نے نریندر مودی کو سب سے پہلے مبارکباد دی مگر نریندر مودی نے ہر سربراہ حکومت اور ملک کا شکریہ ادا کیا ، پاکستان یا نواز شریف کا نام لینے سے گریز برتا ۔ وہ بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے اور دائود ابراہیم کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے لئے پاکستان میں ایبٹ آباد طرز کی کارروائی کا عندیہ ظاہر کر چکے ہیں اور محض دہلی کے ہندو سیٹھوں اور سرمایہ کاروں کے دبائو پر پاکستان سے بہتر تعلقات پر آمادہ نہیں ہو سکتے۔
نریندر مودی کی انتخابی مہم میں آر ایس ایس کے پُرجوش نوجوان کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا اور ہند دتوا کے نعرے کو سیکولرزم پر ترجیح دی۔ گاندھی اور جواہر لال نہرو سے نسبت راہول کے کام نہیں آئی اور موروثی سیاست کی مخالفت نے نریندر مودی کو نوجوانوں کا ہیرو بنا دیا کیونکہ وہ اپنی دھرتی ماتا، اکثریت کے عقیدہ و نظریہ اور مذہبی معتقدات سے جڑے صاف گو لیڈر ہیں اور اقلیتوں کا ووٹ بٹورنے کے لئے سیکولرزم کا لبادہ نہیں اوڑھتے۔
نریندر موجودی کے دامن پر کرپشن کا داغ ہے نہ امریکہ و یورپ کے سیاسی، معاشی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کسی خفیہ ڈیل کا شبہ اور نہ انتخابی دھاندلی و ناقص طرز حکمرانی کا الزام۔ وہ تازہ دم، پُرجوش اور مذہبی جذبے سے سرشار سیاستدان ہے جس نے اپنے نظریات کو کبھی چھپایا نہ امریکہ و برطانیہ کی طرف سے خود پر عائد پابندیوں کو ختم کرانے کے لئے معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کیا۔ پاکستان اور مسلمانوں کے حوالے سے اس کا موقف کسی سے ڈھکا چھپا ہے نہ جوشِ تجارت میں عوامی امنگوں اور خواہشات سے چشم پوشی کا امکان۔ اس لئے خوش فہمیوں کی فصل کاشت کرنے کی ضرورت نہیں۔
تھائی لینڈ میں کئی ماہ کی سیاسی ابتری اور پُرتشدد واقعات کے بعد فوج نے اقتدار سنبھال کر مارشل لا نافذ کر دیا ہے جو اس مغالطے کا شکار سیاستدانوں او رتجزیہ کاروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ مارشل لائوں کا موسم گزر گیا۔ سلطانی جمہور کو فوجی مداخلت کا ڈر نہیں اور امریکہ و یورپ ، آزاد و فعال عالمی میڈیا، مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن کے طفیل کسی جرنیل کو مہم جوئی کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ مصر میں یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا، تھائی لینڈ دوسرا شکار ہے اور بنگلہ دیش کے حالات اسی سمت گامزن ہیں۔
پاکستان میں دو ماہ قبل کون یہ سوچ سکتا تھا کہ حکومت کی عاقبت نااندیشی، ہٹ دھرمی اور تماش بین اُفتاد طبع کے باعث ملک بھر میں فوج مقبول عوامی قوت بن کر اُبھرے گی۔ میڈیا کا اتحاد پارہ پارہ ہو گا اور جو فیصلے الیکشن کمیشن، ٹربیونلز اور پیمرا کے دفتر میں میز پر بیٹھ کر چوبیس اڑتالیس گھنٹوں میں بخیر و خوبی ہو سکتے تھے وہ لٹکا کر سیاسی و مذہبی قوتوں اور کیبل آپریٹروں کے سپرد کر کے حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے گی یا پھر چت بھی اپنا پٹ بھی اپنا کا انتظار۔
انتخابی دھاندلی کا ایشو ایک بار پھر احتجاجی تحریک کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے تنگ عوام ، فیکٹری کارکن اور کھیت مزدور سڑکوں پر آنے کے لئے بے تاب ہیں اور مہنگائی و بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہی عوامل سیاسی جماعتوں کو احتجاجی میلہ سجانے اور حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے پر اُکسا رہے ہیں۔ پرویز مشرف غداری کیس اور طالبان مذاکرات پر حکومت فوج چپقلش میں ایک اور زوردار عنصر کا اضافہ ہو گیا ہے اور بھارت و افغانستان کے انتخابات میں ریڈیکل عناصر کی کامیابی پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
ہمارے فیصلہ سازوں اور حکمرانوں کا خیال ہے کہ ملک میں بدامنی، غربت،مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ ، خود سوزیوں اور سیاسی بے چینی سے سسٹم کو کوئی خطرہ ہے نہ قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار اداروں میں کوئی تشویش۔ ہم سیاہ کریں یا سفید۔ بے عملی، نالائقی اور بے حسی کا ریکارڈ قائم کریں۔ سڑکوں پر زندہ باد مردہ باد کے نعرے گونجیں یا مختلف طبقات باہم دست و گریبان نظر آئیں ہماری بلا سے۔ جمہوریت موروثی قیادت کی سرپرستی میں خوب پروان چڑھ رہی ہے چند خاندان پھل پھول رہے ہیں، ان کے اندرون و بیرون ملک کا روبار میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوامی مقبولیت بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ بھارت او رتھائی لینڈ میں تبدیلیوں سے ہمارا کیا لینا دینا۔
تازہ ترین