• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے سینتیسویں سالانہ مشاعرے میں شرکت کیلئے انجینئرنگ یونیورسٹی گیا۔ یادوں کے در وا ہو گئے۔ میں جب باغبان پورہ ہائی اسکول میں پڑھتا تھا تو اسی یونیورسٹی میں رہتا تھا۔ میرے ماموں اس یونیورسٹی میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے بعد میرے بڑے بھائی بھی اسی عہدے پر فائز رہے۔ میرا لڑکپن اسی یونیورسٹی میں گزرا۔ شاید اسی لئے میں نے ہمیشہ اس یونیورسٹی کے حالات و اقعات پر گہری نظر رکھی۔ میرے دو بھتیجوں نے یہاں سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، میرے ماموں زاد بھائی بھی اسی یونیورسٹی میں علم کی شمعیں روشن کرتے رہے۔

اس یونیورسٹی کی بنیاد انیس سو اکیس میں رکھی گئی تھی۔ ماضی قریب تک یہ ایشیا میں انجینئرنگ کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی مگر کچھ عرصہ پہلے جب میں یہاں آیا تو یہ یونیورسٹی مجھے در و دیوار میں گم سم تاریخ محسوس ہوئی، ستونوں پر وقت کی تھکن چھائی ہوئی تھی اور راہداریوں میں مایوسی کے سائے منڈلا رہے تھے۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، اس مقام پر آ پہنچی تھی جہاں اس کے بطن سے نکلنے والے خواب، خود اس کی آنکھوں میں دھندلا گئے تھے۔

مشاعرے میں شریک ہوا۔ مشاعرے کی صدارت فرحت عباس نے کرنا تھی مگر انہوں نے بزرگ شاعر نصرت صدیقی سے درخواست کی کہ وہ صدارت کریں، باقی احمد پوری، احمد ساقی، افضل ساحر، عمیر نجمی، احمد نواز، صائمہ آفتاب، امن شہزادی کی شاعری پسندکی گئی۔ وہاں میانوالی کے مرحوم دوست اور سرائیکی زبان کے معروف شاعر مہر زمان خان کے بیٹے لئیق خان نیازی سے ملاقات ہوئی۔ وہ یہیں انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ ان سے گفتگو کے بعد مجھے ایسا لگا۔ جیسے خزاں کی کوکھ سے اچانک کوئی بادِ نسیم نکل آئی ہو۔ اس نے بتایا کہ ایک شخصیت اُفق پر نمودار ہوئی۔ اس نے جب ادارہ سنبھالا تھا تو اس کی نبض ڈوبتی جا رہی تھی۔ خزانہ خالی، تنخواہیں التوا کا شکار، پنشن کا نظام سسک رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بوڑھا درخت اپنی جڑوں سے کٹ چکا ہو، اور صرف پرانی عظمت کا سایہ باقی ہو مگر اس نے مالی بحران کو صرف ایک عددی مسئلہ نہیں سمجھا۔ اس نے اسے اس ادارے کی روح کا سوال جانا۔ بجٹ کی پرتیں کھولیں، فالتو اخراجات پر تیشہ چلایا، اور ایک نئی معاشی حکمتِ عملی کی بنیاد رکھی اور پھر وہ دروازے جو کبھی مقفل تھے، آہستہ آہستہ کھلنے لگے۔ دو ماہ کی رکی ہوئی تنخواہیں جاری ہوئیں، وہ اضافہ جو صرف کاغذوں میں زندہ تھا، زندگی میں ڈھل گیا۔ یہ اصلاح کا صرف آغاز تھا۔ جو اساتذہ برسوں سے بیرونِ ملک تھے اور غیر حاضری کو ایک عادت بنا چکے تھے، اُنہیں ادارے کے ضابطوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پیڈا ایکٹ کے تحت شوکاز نوٹسز جاری ہوئے، اور ادارے نے ایک پیغام دیا کہ ’’یہاں اب اصول چلیں گے، شخصیات نہیں‘‘۔ جلد وہ دن بھی آیا جب اکیڈمک کونسل نے ایک نئی روشنی کو خوش آمدید کہا۔

علم کے نئے دریچے کھولے گئے۔ بی ایس اسلامک اسٹڈیز ان کمپیوٹر ٹیکنالوجی، بی ایس انگلش، ڈیٹا سائنس، کلائمیٹ چینج، بزنس اینالٹکس، اور فزیکل تھراپی جیسے مضامین اُس فضا میں سانس لینے لگے جہاں پہلے صرف انجینئرنگ کی بازگشت تھی۔ یہ صرف نصاب میں اضافہ نہ تھا، بلکہ یہ اس ادارے کی روح میں تنوع کا بیج بونا تھا۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ علم صرف مشینوں تک محدود نہیں، دل، دماغ اور سماج بھی اس کا میدان ہیں۔ پھر وہ روز آ گیا، یہ اکتیسواں کانووکیشن تھا جب پرانی دیواروں نے نئی گونج سنی۔ دو ہزار چھ سو چھہتر چہرے، دو ہزار چھ سو چھہتر خواب اور اُن میں چھیالیس ایسے، جنہیں سونے کے تمغوں کی صورت میں زندگی نے داد دی۔ یہ صرف ڈگریاں نہیں تھیں۔ یہ اُن لمحوں کی مہریں تھیں جو انجینئرنگ یونیورسٹی کے شب و روز نے گوندھے تھے۔ طلبہ کی سوسائٹیز جو برسوں سے خاموش تھیں، اُن میں پھر سرگوشیاں ہونے لگیں۔ ادب، فن، سائنس اور تحقیق کے میدان دوبارہ آباد ہوئے۔ ایلومینائی نیٹ ورک زندہ ہوا، اور سابق طلبہ کی واپسی نے ادارے کی فضاؤں میں اعتماد کا رنگ بھر دیا۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب وزیرِ اعلیٰ اسکیم کے تحت چھبیس سو طلبا کو لیپ ٹاپ ملے۔ یہ صرف ڈیوائسز نہ تھیں، بلکہ وہ پر دیے گئے، جو اپنے دامن میں اڑانیں رکھتے ہیں۔ جن سے ان نوجوانوں نے آگے پرواز کرنی ہے۔ دو ہزار سے زائد طلباء نے ’’ہونہار اسکالر شپ‘‘ حاصل کی۔ گویا علم اب صرف خواب نہیں، حق بن چکا تھا۔

عالمی درجہ بندی میں انجینئرنگ یونیورسٹی کا مقام بلند ہوا۔ پیٹرولیم انجینئرنگ دنیا کی 100بہترین جامعات میں شامل ہوئی۔ الیکٹریکل، کمپیوٹر، کیمیکل، اور میکینکل انجینئرنگ میں بھی قابلِ ذکر مقام پایا۔ یہ اعتراف صرف بیرونی دنیا کا نہ تھا۔ یہ اُس بصیرت کا ثمر تھا جو ایک شخص کے دل میں تھی، اور جس نے ایک تھکی ہوئی درسگاہ کو پھر سے بیدار کیا۔ اب انجینئرنگ کی دیواریں فقط اینٹوں کا بوجھ نہیں اٹھاتیں بلکہ ایک نئے خواب کی چھتیں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسا خواب جو ڈاکٹر شاہد منیر جیسے رہنما کی آنکھوں سے نکلا اور ہزاروں ذہنوں میں روشنی بن کر پھیل گیا۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔ اور ہر نیا دن، ایک نیا باب ہے۔

ممکن ہے لگ رہا ہو کہ میں نے کچھ زیادہ تعریف کر دی ہے۔ اصل میں اس یونیورسٹی سے میرا تعلق بچپن کی محبت جیسا ہے جو کبھی بھولتا نہیں، کبھی ختم نہیں ہوتا۔ علاقے بدل جاتے ہیں گلی کوچے تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن وہ جگہیں جو دل میں گھر لیں، ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ماضی کبھی انسان کو نہیں چھوڑتا، کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں نکل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پرانی کتاب کی خوشبو، دل میں بس جانے والا گانا اور وہ کوچے جہاں دل نے کھلنا سیکھا ہو، وہ آدمی کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ یونیورسٹی میں قیام کے زمانے کی یادیں ضرور تحریر کروں گا، مگر تب جب زندگی کی کہانی لکھنے کی باری آئے گی۔

تازہ ترین