• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی جے پی حکومت ہر دفعہ پاکستان دشمنی میں حد سے گزر جاتی ہے! مسلمان دشمنی میں بھی اسکا "کھڑکی اور گیٹ توڑ" دور شروع ہے۔ صرف بی جی پی کے ہی دور میں دہشت گردانہ واقعات کیوں ہوتے ہیں؟عوام کارگل کے لیے بی جے پی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ پٹھان کوٹ، اُڑی، پلوامہ اور پہلگام جیسے واقعات کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیتے ہیں۔ انہیں ادراک ہے کہ حالیہ پہلگام واقعہ "موذی" کی صوبہ بہار کے انتخابات میں شکست کو تبدیل کرنے کی سازش ہے۔ 2024 کے انتخابات میں ہندوستانی عوام نے ہندتوا نظریے کو مسترد کرتے ایسا انتقام لیا کہ "موذی" کے دو تہائی اکثریت اور "اب کی بار 400 پار" کے خواب سب دھڑن تختہ کر دیے۔ موصوف نے بابری مسجد کی جگہ "رام مندر" بنوا کر بطور مذہبی پیشوا اس کا افتتاح بھی کیا لیکن عوام نہ مانی۔ بی جے پی 240 نشستیں لے کر 272 کی سادہ اکثریت سے بھی محروم رہی۔ دوسری پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑا، اسی لیے اب "بہار" کا انتخاب جیتنے کے لیے زور لگا رہی ہے۔اپنے مزموم ارادوں، ناجائز ہتھکنڈوں اور ناپاک مقاصد کے لیے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنا اسے مہنگا پڑے گا۔ "موذی" کی مسلمان دشمنی کسی سے چھپی نہیں، 2024 کے انتخابات میں شرانگیز، نفرت و حقارت آمیز مسلمان دشمن تقاریر پر ہندوستانی الیکشن کمیشن نے اسےسخت تنبیہ کی تھی۔ اب ایسا کھیل رچایا ہے کہ ایک جانب پہلگام فالس فلیگ آپریشن کا الزام پاکستان پر لگا کر دوسری جانب کشمیر کے غیور اور بہادر باسیوں پرسہولت کاری کے الزام میں گھر مسمار کیے جا رہے ہیں۔ خواتین اور بزرگ ریاست بدر کر کے فلسطینی طرز پر کشمیری نقبہ کی بنیاد ڈالی ہے۔ البتہ پاکستان کی جانب سے شملہ معاہدہ معطل کرنا خوش آئند ہے۔ یہی موقعہ ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے استصوابِ رائے کا کیس دوبارہ اقومِ متحدہ میں اٹھائے۔امریکی نائب صدر جے ڈی وینس ہندوستان کو اپنا سسرال قرار دیتے ہیں حالانکہ ان کی بیگم کے والدین 80 کی دہائی میں ترکِ وطن کر کے امریکہ چلے گئے تھے، اوشا امریکہ میں پیدا اور پلی بڑھیں۔ وینس اچانک" موذی سرکار" کی آنکھوں کا تارا بن چکے ہیں۔ وزیراعظم ہندوستان امریکہ دورے پر گئے تو ٹرمپ کے آگے بچھ بچھ گئے حتیٰ کہ ٹرمپ نے زبردستی ہندوستان کے سر مہنگے ایف- 35 طیارے منڈھے تو خاموش رہے۔ چین کے خلاف بطور پراکسی ہندوستانیوں کو لڑنے مرنے اور بندوقوں کا چارہ بنانے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ اب اتنے لاڈلے، ناز و نعم میں پلے، چاکلیٹ کریم سے بنے امریکی فوجی چینیوں سے تو لڑنے سے رہے۔ وہ گرمی برداشت نہیں کر سکتے اور تحفظ، سہولت و آرام کی خاطر ان پر اسقدر فوجی ساز و سامان لادا جاتا ہے کہ وہ سامان ڈھونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ ادھر "موذی سرکار"ہر حالت میں امریکی آشیرباد سے پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے ٹرمپ کے آگے ڈھیر ہوگئی ہے۔ جبکہ امریکہ نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔نائب صدر وینس کا پہلگام واقعہ پر بیان ہندوستانی مؤقف کی تائید اور ان کا مشورہ انتہائی معنی خیز ہے یعنی محدود پیمانے پر حملہ کیا جائے تاکہ "موذی سرکار" کی عزت بھی رہ جائے لیکن تنازع نہ بڑھے۔ پاکستان سے کہا کہ وہ ہندوستان سے تعاون کرے جبکہ خود ہندوستانی دہشت گردی کے شکار پاکستان کے وزیراعظم نےعالمی برادری سے غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ کیا اور دہشت گردی کی مذمت بھی کی۔ ادھر امریکی وزیر دفاع نے ہندوستان کے "دفاع کے حق"کی حمایت کا ایسے وقت اعلان کیا جب ہندوستانی وزیر خارجہ جے شنکر نے ان سے ملاقات میں پاکستان کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ایسے بِلا جواز و ثبوت، اشتعال انگیز رویے اور سازشوں سے ہندوستان اپنے اندرونی مسائل، ہندوؤں اور ہندوتوا کے پیروکاروں کے درمیان بڑھتی خلیج، آزادی کی چھوٹی بڑی 117 تحاریک، سیاسی و معاشی دباؤ اور بہار میں انتخابی نتائج کے پیشِ نظر عوام کی توجہ ہٹا کر پاکستان مخالف بیانیہ بنا کر جنگ پر زور دے رہا ہے۔ لیکن ہندوستانی عوام معاملات کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور کسی صورت پاکستان سے جنگ پر آمادہ نہیں۔ ہندوستانی افواج میں بھی اس بے مقصد جنگ کے حوالے سے بہت بے چینی پائی جا رہی ہے۔ پاکستان سے جنگ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنے اور آپریشنل تیاری نہ ہونے پر ناردرن کمانڈ کے کور کمانڈر اور ایئر فورس کے وائس چیف کو جبری ریٹائر کر دیا گیا ہے۔ یہ جنگ فلحال" موذی سرکار" اور گودی میڈیا تک ہی محدود ہے لیکن حالیہ امریکی مؤقف آنے کےبعد حالات تیزی سے بدل سکتے ہیں۔حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ جنگ کے متمنی نہیں لیکن اگر مسلط کی گئی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا، ایک کے بدلے پانچ گولیاں چلائی جائیں گی۔ مبینہ طور پر حکومتِ وقت، سپہ سالار اور افواجِ پاکستان ہر چند سالوں بعد ہندوستان کی جانب سے نت نئے الزامات سے تنگ آ چکے ہیں اور ان کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ خصوصاً جبکہ "موذی سرکار" کی چالیں ہندوستانی عوام پر ظاہر ہو چکیں، بنگلہ دیش کے راستے پاکستان کی مشرقی سرحد پر فوج لانا ممکن نہیں رہا، مقبوضہ کشمیر کی مزاحمت زور پکڑ رہی ہے، عالمی دنیا ماسوائے امریکہ پر ہندوستانی چالیں عیاں ہو چکیں ہیں جبکہ دنیا جنگوں سے تنگ آ چکی ہے۔ وہ ہندوستان کی صورت میں ایک اور یوکرائن نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا، اسے بھی ادراک ہے کہ "موذی" کی اس جنگ کے پیچھے چھپی پاکستان دشمنی ہے لیکن امریکہ کا مقصد پاکستان کی آڑ میں چین کا شکار کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان بہانہ ہے چین نشانہ ہے!

؎ وہی ہے بندۂ حُر جس کی ضرب ہے کاری

نہ وہ کہ حَرب ہے جس کی تمام عیّاری

تازہ ترین