میرے منہ میں خاک، خدا کرے میری بدشگونی غلط ہو مگر جنگوں کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔ تاریخ میں آج تک کسی بھی جنگ کا خوشگوار نتیجہ نہیں نکلا خدشہ ہے کہ کچھ بڑا اور برا نہ ہو جائے ۔بات تو کھیل کھیل میں شروع ہوئی ہے ایک طرف ہندوتوا کا مہاویر مودی ہے جو اپنے اندھے عقیدتمندوں کے سامنے ہندوبالا دستی کا جھنڈا گاڑنا چاہتا ہے اور دوسری طرف ہم بھی بہادروں کی قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم مودی کی گیدڑ بھبکیوں کو منٹوں میں ہوا میں اڑانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گویا دونوں طرف سے گھوڑے اور ہاتھی تیار ہیں۔ آج کے دور کی بات کرلیں تو جنگی جہازوں سے لیکر ایٹمی میزائل تک چلانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ دنیا کو اس صورتحال پر تشویش ہے مگر بھارتی جنگ باز اور ہمارے جانباز مسلسل میدان جنگ کو گرمانے کی تیاری میں ہیں۔ کوئی دلیل، کوئی عقل و منطق کی بات، کوئی امن کا مشورہ کام نہیں آ رہا نتیجہ لازمی طور پر برا اور بڑا ہو گا تب پچھتائے کیا ہوت!!
مجھے اعتراف ہے کہ میں انتہائی بزدل ہوں مگر میرے ارد گرد کے سارے لوگ بہت بہادر اور دلیر ہیں ۔دوسری طرف ہمارا دشمن بھی کینہ پرور اور ظالم ہے ،دونوں طرف طبل جنگ بجایا جا رہا ہے گویا اس خطے کو خود سے جلانے، خود کو تباہ کرنے اور خود اپنے ہی ہاتھوں مرنے کی تیاری اس دھوم دھام سے کی جا رہی ہے کہ ایسا لگتا ہے یہ خیال خام درست ہے کہ اس خطے کے لوگوں کے ڈی این اے میں عقل کی نمایاں کمی ہے ۔یہاں اسی لئے کبھی افغان اور کبھی انگریز آکر کامیابی سے حکومت کرتے رہے کہ اِنہیں مل بیٹھنا نہیں، آتا یہ گھروں میں لڑتے ہیں، محلوں میں لڑتے ہیں، شہر شہر سے لڑتے ہیں، صوبے صوبوں سے لڑتے ہیں اور ملک ملکوں سے لڑتے ہیں۔ اِنہیں سندھ طاس معاہدہ کرنا ہو تو ورلڈ بینک کے پاس جانا پڑتا ہے خود صرف ایک شملہ معاہدہ کرسکے ہیں، باقی تقسیم ہند ہو یا آپس کی جنگیں انہیں امریکہ یاروس نے ہی بند کروایا ہے وگرنہ یہ ہمیشہ دست وگریبان ہی رہتے ۔
مودی جی اس خطے کے بڑے ملک کے پردھان ہیں ۔کچھ بڑا یا برا ہوا تو تاریخ میں سب سے بڑے مجرم وہی ہونگے، تاریخ مودی جی سے سوال کرئے گی کہ جنرل باجوہ کے زمانے سے پاکستان نے بھارت کے خلاف تمام آپریشن بند کر رکھے تھے، جہادی تنظیموں کو غیر موثر کر رکھا تھا لیکن مودی جی نے اس فاختائی اشارے پر توجہ ہی نہ دی ۔جنرل باجوہ مائل بہ کرم تھے وہ بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں تھے لیکن مودی جی نے گہری سرد مہری جاری رکھی۔ عمران، زرداری اور شہباز شریف کسی سے انہوں نے راستہ نہیں کھولا۔ اسی طرح جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ اور اب جنرل عاصم منیر کے دور میں نہ صرف ان کا معاندانہ رویہ برقرار رہا بلکہ انہوں نے طالبان اور بی ایل اے کے ذریعے ہمارے خلاف ایک مسلسل جنگ جاری رکھی ، ہمارا جتنا جانی نقصان ان بھارت کی مدد سے کی جانے والی خفیہ جنگوں میں ہوا ہے اتنا توعلانیہ جنگوں میں بھی نہیں ہوا۔ اسی پر بس نہیں بھارت کے تخریب کاروں نے پاکستان کے اندر 21 کے قریب نمایاںجہادیوں کو بھی قتل کیا ہے، حافظ سعید کے گھر پر حملہ اس کے سوا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے واقعے میں بھارت کا ہاتھ ہونا اگر ثابت ہے تو پھر تو حالیہ بحران کے سب سے بڑے ذمہ دار مودی جی خود ہیں لیکن بہرحال تالی دو ہاتھوں سے ہی بجتی ہے جنگ ہوئی تو دوسرے فریق ہم ہونگے اور تاریخ ہمیں بھی اس ذمہ داری سے مبرا قرار نہیں دے گی ۔ظالم ہو یا مظلوم، جاپان کے ہیرو شیما میں دونوں کی ذمہ داری سے تاریخ کا سب سے بڑا انسانی المیہ رونما ہوا تھا۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جنگ اپنے زخم چھوڑے بغیر رخصت نہیں ہوتی، ہر جنگ کے نفسیاتی،سیاسی اور معاشی اثرات ہوتے ہیں۔1965ء کی پاک بھارت جنگ نے بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا بستہ گول کر دیا اور وہ شکست کے خوف سے تاشقند میں ہی وفات پا گئے۔ پاکستان کے معاشی زوال کا سفر 1965ء کی جنگ سے شروع ہوا اس جنگ سے پہلے پاکستان دنیا میں معاشی ترقی کا ماڈل تھا۔ 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان کو ذلت سے اقتدار سے رخصت ہونا پڑا، کارگل کی لڑائی پر اختلافات کے نتیجے میں نواز شریف کو گھر جانا پڑا اور کارگل بوائے جنرل مشرف برسراقتدار آگئے ۔مودی جی آج ہندوتواکے نعرے پر برسراقتدار ہیں اگر جنگ میں ان سے کوئی چوک ہو گئی( جس کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ) تو ان کی انتہا پسندانہ مقبولیت ان کے گلے میں پڑ جائے گی اوران کا اقتدار میں رہنا مشکل ہو جائے گا پاکستان کو بھی اس حوالےسیاسی ،معاشی اور نفسیاتی جھٹکے لگیں گے۔
کاش کچھ بڑا اور برا نہ ہو، کاش دونوں ملک ہوش کے ناخن لیکر یورپ کی طرح جنوبی ایشیا کو تجارت کا مرکز بنائیں۔ بھارت اور پاکستان ماضی سے سبق سیکھیں برصغیر میں جب بھی لڑائیاں ہوئیں انارکی اور معاشی بدحالی پھیلی، جب بھی خطے میں امن ہوا یہاں معاشی ترقی اور خوش حالی آ گئی ۔مودی آج تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں امن کی تالی بجائیں تو تاریخ کا رخ بدل دیں گے بدلہ لینےپر آئیں گے تو کشت وخون کو جنم دیں گے اور شائد یہ لڑائی اتنی بڑھ جائے کہ کہیں مہابھارت جیسی داستان نہ بن جائے ،برصغیر کے لوگ پرامن ہیں پانی پت میں لڑائی کرکے وہیں ختم کر دیتے تھے آپ بھی سرحدوں پرشوشا کرلیں ،برصغیر کے مزاج کے خلاف بڑی جنگ میں پڑے تو پھر اسکی کوئی حد نہیں ہو گی۔