وفاقی حکومت کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان موبائل فون ٹیکسوں میں مجموعی طور پر33فیصد شرح کے لحاظ سے خطے اور ہم پلہ9ملکوں میں سرفہرست ہے ،جبکہ نیپال26، سری لنکا 23، بھارت 18، فلپائن 12انڈونیشیا11،سنگاپور9،تھائی لینڈ7،اور ملائیشیا میں اسکے ٹیکسوں کی شرح 6فیصد ہے۔رپورٹ میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کیلئے حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ ایڈوانس ٹیکس اور جی ایس ٹی،دونوں کم کیے جائیں۔ متذکرہ شرح میں 18فیصد سیلز ٹیکس اور ری چارجنگ پر 15 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس شامل ہیں۔یہ صورتحال موبائل فون کے استعمال کو لگژری لائف کے طور پر ظاہر کررہی ہے،جبکہ ملک کی24کروڑ آبادی میں موبائل فون صارفین کی تعداد 19کروڑ20لاکھ سے زیادہ ہے۔ان میں کم از کم 50فیصد غریب ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی اکثریت موبائل فون محض تفریح اور وقت گزاری کیلئے استعمال کرتی ہے۔ٹیکسوں کی بلند ترین شرح اس کےبے جا استعمال میں کمی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی،البتہ زمینی حقائق کے مطابق آج کے زمانے میں موبائل فون انسان کے طرز زندگی کا جزولاینفک بن چکا ہےاور کسی بھی طبقے کیلئے اس کی ضرورت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔جس کے پیش نظر حکومتی محصولات کم سے کم کیے جانے چاہئیں۔اس کیساتھ ساتھ موبائل فون سروسز ری چارجنگ کے نرخوں میں مسلسل اضافے کا جورجحان غالب ہے،اسے روکتے ہوئے سالانہ کی بنیاد پر اس کا تعین حکومتی رضامندی سے ہونا چاہئے۔موبائل فون کے جہاں بے شمار فائدے ہیں،وہیں کئی ایک نقصان بھی ہیں ،جس سےقوم کے پیسے کاضیاع ہورہا ہے۔بیشترطالب علموںمیں اس کا استعمال تعلیمی ضروریات سے ہٹ کر غیر تعلیمی سرگرمیوں کے طور پر بڑھ گیا ہے۔یہ صورتحال نئی نسل کو میرٹ سے دور لے جارہی ہے،جس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔