’’بلا شبہ میرے دل میں اس خوبصورت شہر کی بہت محبت اور قدر ہے۔ اسلئے نہیں کہ اس سے میرا پرانا تعلق ہے اور نہ اسلئے کہ یہ میری جائے پیدائش ہے بلکہ اس لیے کہ اب یہ پہلی خود مختار اور آزاد مملکت پاکستان کی جائے پیدائش بن گیا ہے اس وجہ سے نہ صرف یہ کہ تمام حریت پسند لوگوں کی نظر میں کراچی خصوصی اہمیت کی علامت بن جائے گا بلکہ تاریخ میں بھی وہ مقام پائے گا جس کی کوئی اور نظیر موجود نہیں‘‘
یہ 25اگست 1947ءہے۔ آزادی سے صرف 11دن بعد قائد اعظم محمد علی جناح کراچی کارپوریشن کی جانب سے پیش کردہ شہریوں کے سپاس نامے کا جواب دے رہے ہیں۔ انہوں نے کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دیا تو ان کے ذہن میں اس شہر کے بارے میں کتنے بلند خیالات تھے اس تقریر کی ایک ایک سطر سے عیاں ہوتا ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی کوئی معمولی شہر نہیں قدرت نے اسے غیر معمولی نعمتیں عطا کی ہیں جو خصوصاً جدید ضروریات اور حالات کیلئے موزوں ہیں وہ یہ بھی احساس دلا رہے ہیں کہ جہاں بڑے شہر بلند و بالا عمارتوں کے ہجوم سے گنجان ہو جاتے ہیں وہاں کراچی میں بڑی بڑی کھلی جگہیں اور عمارتوں کی چھتیں پہاڑی مقامات کی طرز پر ہیں جو آنے والوں کو کھلی فضا اور آسائش کا احساس عطا کرتے ہیں۔ بانی پاکستان یہ توقع بھی کرتے ہیں کراچی اور اس کی بلدیہ کی اہمیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ بلدیہ عظمیٰ خود کو اپنی ذمہ داریوں کا اہل ثابت کرے گی۔
جی چاہتا ہے کہ مزار قائد پر حاضری دوں با آواز بلند عرض کروں کہ بلدیہ عظمیٰ خود کو اپنی ذمہ داریوں کا اہل ثابت کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ جہاں آپ کے بنیادی اصولوں اتحاد تنظیم یقین کو پامال کیا جا رہا ہے وہیں کراچی سے وابستہ آپ کے خواب بھی پارہ پارہ کیے جا رہے ہیں۔
1970 ءکے انتخابات کے بعد کراچی میں پیپلز پارٹی فتح کا جلوس نکال رہی ہے، ملیر سے جلوس کو لیاری تک جانا ہے ہر قدم پر شہید ذوالفقار علی بھٹو شہر سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں ترقی کے وعدے کر رہے ہیں ۔کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی عمارت پر کے ایم سی کے ملازمین جلوس کا استقبال کرتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر ٹرک والوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کے ایم سی کے ملازمین کو یقین دلا رہے ہیں کہ اب کے ایم سی کو سرمایہ داروں کے قبضے میں نہیں جانے دیا جائے گا۔ کے ایم سی کا پہلا کام غریبوں کی خدمت ہوگا ہم کے ایم سی کے ملازمین کا بھی پورا پورا تحفظ کریں گے۔
یہ اس پارٹی کے بانی چیئرمین کے الفاظ ہیں جسکی حکومت سندھ میں گزشتہ 15 سال سے ہے اب پاکستان کے صدر آصف علی زرداری بھی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں سوال یہی ہوتا ہے کہ کراچی پھر بھی ایک لاوارث شہر کیوں بنا ہوا ہے یہ ساحلی شہر ہے اب اس کے کنارے پر ایک بندرگاہ نہیں دو بندرگاہیں ہیں بھٹو صاحب نے بھی کراچی کو ہمیشہ اہمیت دی سب سے مرکزی شاہراہ ڈرگ روڈ کو وسعت دی۔ نئی بستیاں آباد کیں۔ اسٹیل مل دی، پورٹ قاسم کا سنگ بنیاد رکھا ۔
77 سال بعد بھی کراچی والے پینے کے صاف پانی کیلئےترستے ہیں گزشتہ آٹھ دس دن تو بہت ہی مشکل گزرے دفتر جانے والے ماں باپ پریشان اسکول جانے والے بچے بھی پیاسے۔ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ’جامعہ کراچی ‘کے رہائشی علاقے میں اور خاص طور پر سائنسی علوم کے اساتذہ کے گھروں میں پینے کا صاف پانی گھس آیا۔ سڑک دریا بن گئی۔جب ایک طرف جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہوں تو پانی فراہم کرنے والی پائپ لائنیں تو بہت حساس ہو جاتی ہیں ان کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ عظیم مملکت پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا سب سے بڑا تجارتی مرکز سب سے زیادہ کارخانے رکھنے والا سب سے زیادہ ٹیکس مرکز اور صوبے کو دینے والا شہر مسائل کا جنگل بنا ہوا ہے، پاکستان جن کی قیادت میں ہم نے حاصل کیا ،وہ بھی اسی شہر میں دفن ہیں انہیں کراچی سے والہانہ محبت تھی پھر 1971ءمیں نیا پاکستان بنانیوالا بھی اسی شہر سے لگن رکھتا تھا یہی وہ شہر ہے جس نے ہندوستان کے کئی سو شہروں سے اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والے امیروں اور غریبوں کو آغوش میں لیا جو پاکستان کے ہر صوبے کے نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر ہے سندھ کا تو یہ دارالحکومت ہے اسلئے ہر سندھی کا اس پر حق ہے پھر یہاں بلوچستان والے بھی روزگار کی تلاش میں آتے ہیں کے پی کے نوجوانوں نے بھی کراچی کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا ہے آزاد کشمیر کے محنت کش تاجر گلگت بلتستان کے جواں عزم پاکستانی اور پنجاب کے مختلف علاقوں کے نوجوان یہ ایک گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ کا تازہ مہکتا پھول گندھا ہوا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو اور خاص طور پر میر مرتضیٰ وہاب کو تو فخر ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ڈھائی سے تین کروڑ مختلف زبانیں بولنے والے پاکستانیوں کی خدمت کا موقع دیا ہے یہ منصب انکسار کا تقاضا کرتا ہے رعونت کا نہیں۔ لوگوں کے دل جیتیں کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے یہاں کے امیر رئیس محنت کش طالب علم اساتذہ دکاندار فوجی سویلین اہلکار بچے مائیں بہنیں سب محترم ہیں اردو بولنے والے سندھی پشتو سرائیکی بلوچی براہوی گلگتی کشمیری پنجابی بولنے والے سب سندھ کے دارالحکومت کی خدمت کر رہے ہیں ان سب کے اپنے اپنے حقوق ہیں اور آئین کے مطابق انہیں وہ سہولتیں اور اختیارات فراہم ہونی چاہئیں بانیان پاکستان قائد اعظم، قائد ملت، قائد عوام سب کی روحیں مضطرب ہیں۔ شہر میں ڈمپر خاندانوں کو کچل رہے ہیں۔
قائد اعظم نے جس درخشندہ کراچی کی توقع کی تھی اگر ہم ایسا نہیں کر سکے ہیں تو تاریخ یہی کہہ رہی ہے کہ ہم اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اسی لیے وقت آگیا ہے کہ ہمارے حکمران اور خاص طور پر میئر کراچی اس شہر کو قائد اعظم قائد عوام اور یہاں کے رہنے والے لاکھوں لوگوں کے خوابوں کی تعبیر کا اہتمام کریں تو تاریخ ہم پر رشک کرے گی اور لکھے گی کہ پاکستانی حکمران شہری چیلنج کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ میئر کراچی جناب مرتضیٰ وہاب ان سب قائدین اور پاکستانیوں کی مختلف نسلوں کو سرخرو کرنا آپ کے ہاتھوں میں ہے۔