• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھروں کو بارود سے اڑا کر
انہوں نے سوچا کہ بے گھروں کو
کہیں ٹھکانہ نہ مل سکے گا
وہ بے خبر تھے کہ زندگی کے
کواڑ پھر بھی کھلے رہیں گے
جب ان کے فولاد پنجہ بل ڈوزروں نے
زیتون ونخل کے پیڑاکھاڑ پھینکے
انہیں یہ تسکین تھی کہ اب یہ
زمین بنجر پڑی رہے گی
وہ بے خبر تھے کہ زندگی کے
گلاب پھر بھی کھلے رہیں گے
کسی نہتے ستم رسیدہ کو
گولیوں کا ہدف بنا کر
انہیں خوشی تھی کہ آخر کار
روح کی آگ بجھ چکی ہے
وہ بے خبر تھے کہ زندگی کے
تنور پھر بھی جلے رہیں گے
یہ نظم جدید اردو شاعری میں فیض، راشد، میرا جی اور اختر الایمان کے ہم عصر شاعر ڈاکٹر پروفیسر منیب الرحمن کی ہے ان کی ایک نظم ’’ماتم بغداد‘‘ بھی ہے جو کچھ یوں ہے کہ
کس سے فریاد کروں
کس سے میں شکوہ بیاد کروں
کون موسیقی غم ساز سنے گا میری
کون سا محسن تمہارے لئے ایجاد کروں
میں اگر دل کو تمہارے لئے وا کر سکتا
دیکھتے تم کہ وہاں زخم ستم ہیں کتنے
کاش میں گن کے بتاتا تمہیں غم ہیں کتنے
سوچتا ہوں کہ نہ جانے سر مقتل اب تک
راہی ملک عدم ہیں کتنے
اور میں اپنی دعائوں میں کسے یاد کروں
دل مرا نقش ہے اس شہر کی بربادی کا
ایک پیرا ہن صد چاک ہے فریادی کا
جب یہ برباد ہوا تھا پہلے
اس کو کھونے سے زمانے نے بہت کھویا تھا
آسماں اس کی تباہی پہ بہت رویا تھا
آج حق ہے مجھے میں ماتم بغداد کروں
امریکہ کی اوسیکنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر امریتھس پروفیسر منیب الرحمن اپنی بیوی الزبتھ مور کی موت پر لکھتے ہیں نظم کا ’’اظہار‘‘ عنوان ہے ۔
اب ترے جسم سے اٹھتی ہوئی خوشبو کی لپٹ
میرے احساس پہ آویزاں ہے
گرم ہےکمرےکی خاموش فضا
تیرے عارض پہ پسینے کی نمی
ذہن میں لاتی ہے برسات کی پہلی راتیں
نیم سگرٹ ترے پوروں میں دبی
سرخی لب نے نشاں چھوڑ دیا ہے جس پر
کہہ رہی ہے کہ حقیقت ہے فقط دور رواں
تو بھی خاموش ہے میں بھی چپ ہوں
اور ہم دونوں یہی سوچ رہے ہیں دل میں
کاش منت کش اظہار نہ ہونا پڑتا
ڈاکٹر پروفیسر منیب الرحمن نے فیض اور سجاد ظہیر کی راولپنڈی سازش کے الزام میں گرفتاری پر نظم ’’شہر آشوب جدید ‘‘ لکھی
کبھی دیکھے ہیں اہل علم رسوا
دکھائوں آ تجھے یہ تلخ منظر
اسے کہتے ہیں قدر فضل و دانش
ظہیر و فیض ہیں زنداں کے اندر
پڑا روتا ہے پابستہ تخیل
لگے ہیں آج بھی پہرے زیاں پر
اڑایا جائے گا سر اس ادب کا
نہیں جو حاکموں کا مدح گستر
یہ منصوبے ہیں جلاوطن کے
پڑھے لکھوں پہ ہیں کیا کیا مصائب
نہیں یہ راز تجھ پر آشکارا
ہر اک کو ہے یہاں فکر معیشت
ہزاروں کا نہیں ہوتا گزارا
خوش آں روز سے کہ جب ہنگام مشکل
کوئی یاخدا پر تھا سہارا
پر اب کہتے ہیں ارباب حکومت
خدا تیرا ہے باقی سب ہمارا
عجب رشتے ہیں اس دارالمحسن کے
تازہ ترین