پاکستان اوربھارت تقریباً ایٹمی جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے یہ جنگ کیا تباہی لا سکتی تھی اس کا جواب صرف وہ جاپانی دے سکتے ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں ایٹم بم گرتے دیکھا ہے۔ 1998ء میں جب بھارت نے غالباً 11؍مئی کو پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو جاپان سے ایک وفد نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا ان میں کوئی نوجوان نہیں تھا بلکہ وہ افراد تھے جن کے سامنے لاکھوں افراد مارے گئے۔ اُن میں سے ایک خاتون سے میں نے انٹرویو کیا تو اُس نے صرف اتنا کہا ’’ہم نے صرف دونوں ملکوں کی قیادت اور لوگوں کو خبردار کیا کہ یہ جنگ تباہی لا سکتی ہے میں خود بھی اس سے متاثر ہوئی اور اپنے شہر کو بھی زمین بوس ہوتے دیکھا‘‘۔ بہر کیف اب دونوں ایٹمی طاقت ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن کی کاوشوں سے ’سیز فائر‘ ہوا، نے اپنے بیان میں اس طرف اشارہ کیا کہ یہ جنگ لاکھوں افراد کی ہلاکت کا باعث بن سکتی تھی۔ بات ابھی ٹلی ہے ختم نہیں ہوئی اس لئے بامعنی اور بامقصد مذاکرات جتنی جلدی شروع ہوں اُتنا ہی بہتر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں دنوں اور ہفتوں سے زیادہ نہیں چلیں تاہم تنازعات دہائیوں سے موجود ہیں جس نے صرف اور صرف انتہا پسندی کو فروغ دیا جبکہ دونوں ملکوں کی اکثریت آج تعلیم، صحت، بے روزگاری سے متاثر ہے۔
میرے لیے یہ سوال اب بھی حل طلب ہے کہ پچھلے 20برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی واقعات نے جنگی صورتحال پیدا کی مگر جنگ نہیں ہوئی بلکہ کارگل کے بعد مذاکرات بھی ہوئے اور بات آگے بھی بڑھی۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور بمبئی جیسے واقعات کے بعد بھی بات چیت جاری رہی ’بھارت‘ پاکستان پر الزام لگاتا رہا پاکستان تردید کرتا رہا۔ بہت سے ایسے اقدامات بھی ہوئے جسکی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہمارے 80ہزار سے زائد شہری دو افغان جنگوں کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ کا شکار ہوئے۔ یہاں فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں پر پابندی بھی لگی اور ہم ایسی جنگوں کا حصہ بن گئے جو ہماری تھی ہی نہیں مگر جب ہمارے بچے ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جس کے بعد ایک بڑا آپریشن ہوا، یہ جنگ 2014ءسے تاحال جاری ہے۔
تاہم پہلگام کے واقعہ کے بعد جس کا آج تک بھارت کوئی ثبوت نہ دے سکا دنیا ثبوت مانگتی رہی بھارت انکار کرتا رہا بس پاکستان کو الزام دیتے دیتے ’جنگ‘ چھیڑ دی۔ کیا وزیراعظم نریندر مودی جو خود بھارت میں انتہا پسند کی شہرت رکھتے ہیں سیاسی طور پر کمزور ہوتے جارہے ہیں اور گو کہ ابھی الیکشن میں بڑا وقت ہے مگر خود وہاں بی جے پی کی سیاست پر سنگین سوالات خاص طور پر سیکولرازم کو ختم کرنے کے حوالے سے آ رہے ہیں اُس کیلئے ایک بار پھر ’پاکستان مخالف‘ ماحول بنایا جا رہا ہے اور کسی مودی + پلس کی تلاش کی جارہی ہے۔جنوبی ایشیا میں سیاست اور قیادت کا بحران رہا ہے۔ بات پاکستان کی ہو، بھارت کی یا بنگلہ دیش کی یہاں تک کے سری لنکا بھی دیکھ لیں ’قائدانہ‘ صلاحیت کے حامل رہنما نظر نہیں آ رہے۔ پاک بھارت کی 1947ء کے بعد سے کشیدگی آج تک برقرار ہے جس کی ایک بڑی وجہ ’مسئلہ کشمیر‘ ہے۔ بات تو بہت سادہ تھی اور شاید آج بھی ہے جس کا بنیادی مسئلہ ہے اُس سے پوچھ لیں وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ آخر بھارت ہی مسئلہ کو اقوام متحدہ لے کر گیا تھا تو پھر سلامتی کونسل سے انحراف کیوں۔ کشمیریوں کی سات نسلیں تباہ ہو گئیں ہم نے بھی چار جنگیں لڑلیں یہاں تک کہ ایٹمی طاقت بھی بن گئے۔ پاکستان میں تو سیاسی عدم استحکام کی ایک تاریخ ہے اسلئے بھی شاید حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ قائدانہ صلاحیت رکھنے والا لیڈر نہ مل سکا مگر وہ بھی 1947ء کے بعد پیدا ہونیوالے سیاستدان نہ تھے۔ البتہ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے سیاستدانوں میں ضرور شامل ہیں۔ ان میں بہت سی صلاحیتیں ہیں مگر ایک تو انہیں چلنے نہیں دیا گیا ’پروجیکٹ‘ بنا کر لایا گیا اور تیسرے کو شہید کر دیا گیا لہٰذا آگے جانے کا راستہ اور ’قیادت‘ کا بحران تاحال برقرار ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور بھارت کے مہاتما گاندھی کے حوالے سے دونوں ملکوں میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ بہرکیف یہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل رہنما تو تھے بعد میں آنے والوں میں کسی حد تک نہرو اور اندرا گاندھی کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے۔ تو دوسری طرف حسین شہید سہروردی تو موقع ہی نہیں ملا لیکن ایوب خان کی حکومت میں ’سیاسی جنم‘ کے حوالے سے سب سے بڑا نام بہرحال بھٹو کا ہی آتا ہے۔ جس کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ اختلافات اور الزامات اپنی جگہ مگر 1971ء کے بعد سال بھر میں ہی بھٹو کا تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر شملہ جانا اور شملہ معاہدے کے نتیجے میں 90ہزار قیدیوں کا رہا ہونا اور اپنے علاقوں کا واپس ملنا مثبت اقدام ہی تھا البتہ اگر دونوں’’مسئلہ کشمیر‘ کو آگے آنے والوں پر نہ چھوڑتے تو ایک تاریخ رقم ہوتی۔ حیرت تھی اس بات پر کہ پھر اندرا اس خطے کو ’ایٹمی دیس‘ میں لے گئیں جواب میں پاکستان کو بھی نیو کلیئر پروگرام شروع کرنا پڑا اور پھر 1998ء میں بھی پہل ہندوستان نے کی جواب میں پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ اسلامی دُنیا کا پہلا ملک ہے جس کے پاس’ایٹم بم‘ ہے۔
آج یہ خطہ ’ایٹمی جنگ‘ کے دہانے پر تھا اور شاید اب بھی ہے اور بھارت کی سیاست اور مزاج میں جو تبدیلی پچھلے 20سال میں آئی ہے وہ وہاں کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ ’جمہوریت‘ سیاست میں رواداری لاتی ہے، مزاج میں مثبت تبدیلی لاتی ہے مگر اس سب کے باوجود کہ وہاں جمہوریت کبھی ڈی ریل نہیں ہوئی، کبھی آئین معطل نہیں رہا نہ ہی مارشل لا لگا ماسوائے ایمرجنسی کے، میڈیا آزاد رہا ایسے میں نریندر مودی جیسے انتہا پسند سوچ رکھنے والے کا وزیراعظم بننا خودگاندھی کے فلسفہ کی نفی ہے۔ اب یہ مودی کا بھارت، مودی کا میڈیا یہاں تک کہ مودی کا فلمی اور ثقافتی بیانیہ ہے جہاں جاوید اختر جیسے لوگ بھی ’انتہا پسند‘ بھارت کو پسند کر رہے ہیں۔
اس سب میں ہمارے لئے سبق صرف ایک ہے انتہا پسندی کو ختم کریں، جمہوریت اور آئین کو مضبوط کریں ہم نے کبھی پاکستان میں انتہا پسند جماعت کو برسراقتدار آتے نہیں دیکھا، سیاسی استحکام آئے گا تو ہی معاشی استحکام آئے گا۔
جمہوریت اخلاقیات کا نام ہے کرپشن کو جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکا تو یہ قومی سلامتی کو بھی خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔ سیاست بہتر ہے سیاستدانوں کو کرنے دیں۔ آخر میں پہلے ایک ہفتہ میں ہم ایک متحد قوم نظر آئے۔ اگر حالتِ جنگ میں ہم متحد نظر آ سکتے ہیں تو امن میں کیوں نہیں۔