ایک متوازی دنیا۔ یہاں انسانوں کا راج نہیں ہے، جانوروں نے انسانوں کو غلام بنا رکھا ہے، گائیں، بھینسیں، شیر، چیتے، اُن کے بچے، سب انسانوں کے دودھ پر پلتے ہیں۔ ماؤں سے اُن کے بچے جدا کر لیے جاتے ہیں، مائیں روتی پیٹتی رہتی ہیں مگر جانوروں کو اُن کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔ جانوروں کے دماغ میں یہ بات نہیں آتی کہ انسانوں کے بھی جذبات ہو سکتے ہیں اور اُن کی مائیں اپنے بچوں کی جدائی پر اُسی طرح تڑپ سکتی ہیں جیسے کوئی گائے اپنے بچھڑے کے چھِن جانے پر ہوش و حواس کھو دیتی ہے۔ یہ جانور اکثر ویک اینڈ پر اکٹھے ہوتے ہیں جہاں آپس میں بہت مہذب گفتگو کی جاتی ہے اور دانشوروں کی تحسین کی جاتی ہے، اُس کے بعد سب مل کر ڈنر کرتے ہیں۔ ایسی دعوتوں میں عموماً کسی جانور کی مادہ ہی باورچَن ہوتی ہے جو انسانی گوشت کی مختلف ڈِشز بنا کر مہمانوں کو پیش کرتی ہے۔ جانوروں کو انسانوں کی ران اور بازو کا گوشت بہت پسند ہے، بازار میں اِس کی قیمت نسبتاً زیادہ ہے، اگر انسان جوان ہو تو گوشت کو گلا کر پکانا ذرا مشکل ہو جاتا ہے اِسلئے اکثر جانور انسانوں کے بچوں کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں، دس سال کے بچے کی قربانی اُن کے ہاں جائز ہے۔ جانوروں کی اِس دنیا میں ایک دلچسپ رسم یہ بھی ہے کہ جب کسی کا حادثہ ہو جائے یا کوئی اُفتاد آن پڑے تو جانور کسی سیاہ فام بچے کی قربانی دیتے ہیں تاکہ اُنکے سر سے بلا ٹَل جائے۔ مادہ جب تک دودھ دینے کے قابل ہوتی ہے اُس وقت تک اسے فارمز میں ہی کھلایا پلایا جاتا ہے اور مناسب خوراک دی جاتی ہے تاکہ جانوروں کو صحت بخش دودھ ملے، جب اُس کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو ذبح کرکے اُس کا گوشت کھا لیا جاتا ہے۔ جانوروں کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اِس طرح دنیا کا ایکو سسٹم بھی متاثر نہیں ہوتا اور جانوروں کیلئے دودھ اور خوراک کا مستقل ذریعہ بھی بنا رہتا ہے۔ اِس دنیا میں کچھ جانور ایسے بھی ہیں جو اِن تمام باتوں کے خلاف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ کسی انسان کے گلے پر چھُری پھیر کر، اُس کا گوشت کھانا یا اُس کے بچوں کو بے رحمانہ طریقے سے ماؤں سے علیحدہ کر دینا ’جانوریت‘ کی توہین ہے، اِسلئے یہ لوگ انسانوں کا گوشت نہیں کھاتے اور یوں انہیں شاکاہاری کہا جاتا ہے۔ جانوروں کے بعض طبقات اِن کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں، ایسی کوئی دنیا وجود نہیں رکھتی یا کم از کم ہمیں ایسی کسی دنیا کا علم نہیں، لیکن کسی چیز سے لا علم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ وجود ہی نہ رکھتی ہو۔ اگر یہ کائنات لامتناہی ہے، جو کہ ہے، تو پھر ایسی دنیا کا وجود عین ممکن ہے۔ اطالوی ماہر طبیعات کارلو روویلی کے بقول جب ہم کسی چیز کے لامحدود ہونے کا اعتراف کرتے ہیں تو دراصل ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اُس کا شمار ممکن نہیں، مزید یہ کہ اگر یہ کائنات لامحدود ہے تو ایسی لامحدود کائنات میں یقیناً لامحدود دنیائیں بھی ہوں گی، اور اُن دنیاؤں میں ایک دنیا ایسی بھی ہوگی جس میں جانوروں کا راج ہوگا۔ ہم چونکہ اپنی دنیا کے عادی ہیں اِس لیے یہ نہیں سوچ سکتے کہ اِس کائنات میں کوئی متوازی دنیا بھی وجود رکھ سکتی ہے۔ اور صرف یہی نہیں، عین ممکن ہے کوئی دوسری متوازی دنیا بھی ہو جو انصاف، امن اور سچائی پر قائم ہو اور اِس وجہ سے قائم ہو کہ وہاں کا نظم و نسق انسانوں یا جانوروں کے ہاتھ میں ہونے کی بجائے کسی انصاف پسند مخلوق کے پاس ہو! اُس دنیا میں ظلم اور ناانصافی کا کوئی تصور نہ ہو، وہاں اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو تو اُس دنیا کا نظام فوراً حرکت میں آجائے اور ظالم کو اُس کے کیے کی سزا مِل جائے۔ اُس دنیا میں نہ جنگیں ہوتی ہوں اور نہ آبادی کو فاسفورس بم مار کر ملیامیٹ کیا جاتا ہو، اگر کوئی سرپھرا جنگی جنون میں مبتلا ہو جائے تو عالمی نظام فوراً اُس کا محاسبہ کرتا ہو اور اُسے کڑی سزا دی جاتی ہو۔ اِس دنیا میں انسان کمزور جانوروں کا قتل کر کے انہیں اپنی غذا نہ بناتے ہوں اور نہ ہی اُن کی کھال اتار کر پوشاک زیب تن کرتے ہوں۔ اِس دنیا میں بچوں کا ریپ نہ کیا جاتا ہو، بے گناہوں کو بم دھماکوں میں نہ اڑایا جاتا ہو، عورتوں کو قید نہ کیا جاتا ہو، مردوں کا استحصال نہ کیا جاتا ہو اور مذہب، نسل یا قومیت کے نام پر انسانی بستیاں نہ اجاڑی جاتی ہوں۔
اب فرض کریں کہ ایسی کسی متوازی دنیا سے ہمارا گزر ہو جہاں جانوروں کی حکمرانی ہو تو کیا انسانوں سے متعلق اُن کا طرزِ عمل دیکھ کر ہم لرز نہیں اٹھیں گے؟ اور اگر دوسری متوازی دنیا میں ہم کسی انصاف پسند مخلوق کا راج دیکھ لیں تو کیا بطور انسان ہمیں شرم نہیں آئے گی؟ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہ باتیں چونکہ مفروضوں پر مبنی ہیں اِس لیے ہماری سوچ پر اِن کا کچھ خاص اثر نہیں ہوگا، ہماری سوچ اسی دنیا کے تابع رہے گی۔ ہمارے نزدیک حقیقت وہی ہے جو اِس دنیا میں دکھائی دے رہی ہے جہاں انسانوں کو نہیں بلکہ مرغیوں کو دڑبے میں رکھا جاتا ہے اور جہاں انصاف صرف طاقتور کو ملتا ہے، اور مظلوم کے پاس سوائے سینہ کوبی کے کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ تو پھر اِس تمام بحث سے کیا حاصل ہوا؟ حاصل تو اِس جہانِ فانی سے کچھ بھی نہیں ہوگا سوائے اِس کے کہ ہم کوشش کرکے اِس دنیا کو اپنے بچوں کیلئے نسبتاً محفوظ جگہ بنا دیں۔ اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر ہم اپنے سوچنے سمجھنے کا انداز بدل لیں اور اپنے تمام نظریات کو ایک سو اسّی ڈگری کے زاویے سے تبدیل کر کے دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر کسی بے گناہ کا قتل جائز ہے تو اُس شخص کو چاہیے کہ اُس بے گناہ کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچے، کیا وہ کسی مخالف کو اپنے قتل کا اجازت نامہ دے گا؟ ظاہر ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوگا، کیونکہ جس طرح ہم اِس بات کا تصور نہیں کر سکتے کہ گائے کو اپنے بچھڑے سے جدا ہونے پر تکلیف ہوتی ہے اسی طرح کچھ جنونی لوگوں کے دماغ میں یہ چِپ انسٹال کرنی مشکل ہے کہ کسی انسان کو رنگ، نسل، مذہب عقیدے، قومیت یا کسی بھی ایسے تعصب کی بنیاد پر قتل کرنا تو دور کی بات، تضحیک کا نشانہ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ جنونی لوگ ایک تیسری متوازی دنیا میں رہتے ہیں اور اِن کا خیال ہے کہ اُس دنیا کا خدا کوئی نہیں! روزِ قیامت جب ایک اور متوازی دنیا وجود میں آئے گی جہاں انسان کا نہیں، خدا کا راج ہوگا، اُس روز ہی اِن لوگوں کا حساب ہوگا۔