• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ نے ہندوستان پاکستان جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے۔ جس طرح انہوں نے شہہ دے کر ’’موذی‘‘ کو پاکستان کو سبق سکھانے پر مائل کیا وہ کسی سے چھپا نہیں۔ حالات جنگی نوعیت پر بگڑنے پر موصوف نے یہ کہہ کر دامن چھڑایا لیا کہ دونوں ممالک میں 1500 سال سے اختلافات چلے آرہے ہیں لہٰذا انہیں خود ہی ان کا حل نکالنا ہوگا، پھر نائب صدر وینس کے ہندوستان سے جانبدار رویئے نے بھی انکے ارادے ظاہر کر دیئے۔ ایک جانب امریکہ کا مقصد پاکستان کی آڑ میں چین کا شکار کرنا تھا تو دوسری جانب لاڈلے ہندوستان نے دہشت گردی کے بہانے پاکستان کی ناک رگڑنے کا سہرا اپنے سر باندھنا تھا۔ یوں ہندوستان پاکستان کو بھوٹان، نیپال اور ماضی کے بنگلہ دیش جیسی طفیلی ریاست بنا کر، خود کو خطے کا چودھری منوا کر امریکہ کا دیرینہ خواب پورا کرتا۔ امریکہ جو خطے میں ہندوستان کو اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور چین کو لگام ڈال کر رکھنے کی ذمہ داری سونپنا چاہتا ہے کو ہندوستان پر پاکستان کے جوابی وار نے ششدر کر دیا۔بے بہا مالی وسائل اور انٹیلیجنس ذرائع سےبلوچستان میں انتشار و بدامنی پھیلا کر، آزاد کشمیر میں نیشنلسٹوں کے ذریعے خود مختار کشمیر تحریک کو مالی و سیاسی امداد کی فراہمی، پاکستان میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام پیدا کروا کر، سوشل میڈیا کے ذریعے اندرون و بیرونِ ملک پاک فوج کے خلاف منفی پروپگینڈا مہم چلوا کر، وطن دشمنوں و غداروں کو پناہ اور ہرزہ سرائی کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے والے امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل ہی تھے۔ انہیں یقین تھا کہ پاکستان پر بیرونی حملہ ہونے کی صورت میں عوامی سپورٹ کی عدم موجودگی میں افواجِ پاکستان گھٹنے ٹیک دیں گیں۔ فاتح ہندوستان (خدانخواستہ) ہاری ہوئی قوم سے ، امریکی بغل بچے اسرائیل کی بقاء کو لاحق خطرے یعنی پاکستانی جوہری صلاحیت سے دستبرداری، محدود خود مختاری، سی پیک منصوبہ لپیٹنے اور چین سے دوری جیسی شرائط پر عمل کروا سکے گا۔لیکن ربِ ذوالجلال کو کچھ اور ہی منظور تھا اور امریکہ کو ہندوستان کو بدترین شکست سے بچانے کے لیے ثالثی کی آڑ میں سامنے آنا پڑا۔ مبینہ طور پر پاکستانی سپہ سالار کو پونے دو گھنٹے کی ٹیلی فون گفتگو پر بمشکل راضی کیا گیا جس میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کرنے کی یقین دہانی پر جنگ بندی ہوئی۔ ادھر رافیل اور دیگر لڑاکا طیارے گرائے جانے کے بعد اسرائیلی ڈرون پاکستانی حدود میں داخل ہونے پر چڑیا ،طوطوں کی طرح شکار کئے گئے البتہ چند ڈرون صحیح سلامت اتارے گئے جن کی ٹیکنالوجی سے پاکستان استفادہ کرے گا۔ جبکہ خود اسرائیلی کمانڈوز اور ہندوستانی فوج نے آزاد کشمیر میں داخل ہو کر کہرام مچانا تھا جنہیں ہمارے بہادر فوجیوں نے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا۔ ٹرمپ صرف طاقت و دولت سے مرعوب ہوتے ہیں، وہ پکے کاروباری ہیں جو ہر معاملے میں ڈیل بنانا جانتے ہیں۔ ان کی ٹیم بھی دونوں ہاتھوں سے اپنے لیے مالی مفادات بٹورنے میں لگی ہے، اسی لئے ’’موذی‘‘ کے بزنس پارٹنر اور انتہائی امیر بزنس مین اڈانی و امبانی جیسے لوگ ٹرمپ کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ہندوستان پر فتح نے خطے میں طاقت کا توازن یکسر بدل ڈالا ہے۔ ثابت ہوگیا کہ پاکستانی افواج اور قوم بیرونی خطرات و جنگ میں اپنے وطن اور بقاء کے لیے انتہائی حساس اور جذباتی ہیں،مشکل وقت میں سب اختلافات پسِ پشت ڈال کر متحد ہو جاتے ہیں ، یہی پاکستانی مزاج اور جبلت ہے۔ ٹرمپ جو چین کے خلاف ٹیرف جنگ میں پہلے ہی مات کھا چکے اس ہندوستانی شکست فاش پر اپنی خفت مٹانے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرانے کا احسان جتا رہے ہیں اور ثالثی کروانا چاہتے ہیں۔ 2019ء میں انکی درپردہ ثالثی سے ہمیں مقبوضہ کشمیر کھونا پڑا، نہ جانے اب کیا کھونا پڑے! ویسے امریکہ ہندوستان کو اس کی ایران اور روس دوستی کیلئے فیصلہ کل مرحلے پر لے جانا چاہتا ہے جبکہ یورپ بھی ہندوستان سے اسی بنیاد پر نالاں ہے۔ ادھر اسرائیل نے بھی ’’موذی‘‘ کو الٹی میٹم دیا ہے کہ فیصلہ کروکہ ایران اور روس کے ساتھ ہو یا انکے ۔تاہم ہندوستان سے ٹرمپ کا ’’ہندوستان و پاکستان‘‘ کو ایک جملے میں استعمال کرنا یعنی برابر سمجھنا تک برداشت نہیں ہو رہا چونکہ ہندوستان خود کو صرف چین کے برابر ہی تصور کرتا ہے۔ "موذی" نے بھی بہت جھوٹ بول لیے، بڑکیں مار لیں، مسلمان دشمنی نبھالی، رام مندر بنا کر مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے چرکہ لگا لیا۔" گجرات کے قصائی" اور بین الاقوامی دہشت گرد کا دہشت گردی کے نام پر ایسے شور و غوغا اور ہر بار پاکستان پر الزام تراشی کی انتہا ہو چکی۔ دنیا کے ہندوستان سے کاروباری مفادات ضرور جڑے ہیں لیکن انہی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ خطے میں امن کے خواہاں بھی ہیں۔ ہر چند سالوں بعد طبلِ جنگ بجانا کسی کاروبار کے مفاد میں نہیں۔ اس دفعہ پہلگام شوشہ چھوڑا گیا تو عجلت میں کئی جھول رہ گئے کیونکہ "موذی" خائف تھا کہ کہیں امریکہ اپنا ارادہ نہ بدل دے۔پہلے بھی بے گناہ پاکستان کو پلوامہ کے فالس فلیگ آپریشن کے باعث بِنا ثبوت کئی سال تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھا گیا تھا۔جس سے نکلنے کیلئے پاکستان کے چپے چپے، عدالتوں، تھانوں، سکولوں، مدرسوں اور نہ جانے کہاں کہاں کی ایف اے ٹی ایف ٹیم نے چھان بین کر کے ہمیں کلین چٹ دی۔ ایسے میں دنیا پاکستان میں دہشت گردی کے ٹھکانوں کی موجودگی کو کیسے تسلیم کر سکتی ہے یا عورتوں، بچوں کو مار کر دہشت گرد بتانا کیسے مانا جا سکتا ہے؟ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بننے اور اپنی برتری کے احساس میں غلطاں، ہندوستانی عوام کو پاکستان سے شکست برداشت نہیں ہو رہی۔ ادھر "گودی میڈیا" نے ہندوستانی عوام کو جھوٹ بول بول کر یقین دلا دیا تھا کہ پاکستان پر مکمل قبضہ ہوا چاہتا ہے۔ لاہور، سیالکوٹ، اسلام آباد، کراچی فتح ہو چکے۔ ایسے میں جنگ بندی کا اعلان انہیں اپنی جیتی ہوئی بازی ہرانے کی سازش لگ رہا ہے اسی لئے وہ ٹرمپ کو بے نقط کی سنا رہے ہیں۔ ادھر ٹرمپ بھی ہندوستان کے معاشی مفادات پر ضرب لگانے سے چوک نہیں رہے ، آئی فون کے مالک کو کھلے عام ہندوستان میں سرمایہ کاری سے منع کر کے وہ ہندوستان کو روس اور ایران پر فیصلے کیلئے دبا رہے ہیں۔

بی جے پی اور "موذی" نے مسلمان دشمنی، نفرت، سازش اور بدنیتی کے اس کھیل میں سب سے زیادہ کھویا اور اس کے بعد ہندوستانی میڈیا نے کیونکہ یہ سارے اپنے عوام کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں جبکہ ہندوستانی افواج جن میں بری، بحری اور فضائی شامل ہیں کا مورال انتہائی گر چکا ہے۔ وہاں کی فوجی قیادت نے پاکستان پر حملے کے بارے میں اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا تھا لیکن "موذی" تو تکبر اور غرور کے پہاڑ پر چڑھا، جھوٹے یوگیوں کی پیشن گوئیوں اور امریکی آشیرباد پر پاکستان کو سرنگوں کرنے کے جنون میں مبتلا تھا۔

؎شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ اُفتاد

WhatsApp:0313-8546140 

تازہ ترین