• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرن نعمان

تیزی سے بدلتے منظر پیچھے کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔ رکشے میں تنہا بیٹھنے کی عادت نہ ہو تو بہت عجیب لگتا ہے۔ گھبراہٹ ہوتی ہے اور کچھ اپنا آپ ہی اجنبی سا لگتا ہے۔ اس وقت میری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی، مگر کیا کریں، مجبوری ہی بن جائے تو پھر سفر تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ پچھلےدو دن سے سیدھے بازو میں ہلکا ہلکا درد تھا۔ کام کرتے تکلیف محسوس ہورہی تھی، لیکن قابلِ برداشت تھی، اسی لیے زیادہ توجّہ نہیں دی، مگر آج درد کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا۔

مَیں دوسرے ہاتھ کو استعمال میں لا رہی تھی، مگر میرا یہ بازو اورہاتھ توایسے ہوگیا، جیسے سارا کام صرف سیدھا ہاتھ ہی جانتا ہو۔ عجیب الجھن اور پریشانی بن گئی۔ پہلی بار احساس ہوا کہ جسم بھی جگہ جگہ سے دُکھ کر توجّہ مانگتا رہتا ہے، لیکن ہم گھریلو عورتیں کہاں اُس کی پکار پر دھیان دھرتی ہیں۔ اب نہ برتن دھونے میں الٹا ہاتھ صحیح طرح چل رہا تھا اور نہ ہی روٹی بیلنےمیں۔ اِس لیے سوچا، کہیں ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی کام سے جاؤں، ڈاکٹرکودِکھا لینا چاہیے۔ مَیں نےبڑےبیٹے سلمان سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس لے چلو، توکہنے لگا۔ ’’امّی! عدنان کےساتھ چلی جائیں۔ 

میری آج ضروری میٹنگ ہے، جلدی آفس پہنچنا ہے۔ ویسے بھی آپ اُس سے کچھ نہیں کہتیں۔ ساری ذمّےداری مجھ پر ہی ڈال دی ہے۔ غیر سرکاری نوکری میں لوگ ہمت کی آخری بوند تک نچوڑ لیتے ہیں اور پھر مَیں نے بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمّے داریاں بھی نبھائی ہیں، مگر یہ کالج کے بعد کوئی خاص کام نہیں کرتا۔‘‘مَیں اُس کی بات سن کر چُپ کی چُپ رہ گئی۔ آج کل اُس میں کچھ چڑچڑا پن سا محسوس ہورہا تھا۔ 

دفتر سے بھی تھکا تھکا آتا، شاید جہاں وہ کام کرتاتھا، وہاں اُس سے سخت محنت کروائی جارہی تھی۔ وہ چلا گیا، تو کچھ ہچکچاتے ہوئے عدنان سے کہا۔ وہ سلمان کے مقابلے میں ذرا اکھڑ اور کھلنڈرا سا ہے۔ مُوڈ ہوتا، تو سُن لیتا، ورنہ ٹکا سا جواب دے دیتا۔ اُس کا یہ انداز مجھے سراسر اپنی بےعزتی کے مترادف لگتا، اِسی لیے مَیں اُس سے گھر کے کام کم کم ہی کہتی۔ اب بھی وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ اُس نے بڑے بھائی کی بات سُن لی تھی اور اب اُسے غصّہ آرہا تھا۔

’’امّی! بھائی کون ہوتے ہیں، میری ذات کو نشانہ بنانے والے۔ اگر اُنھیں آپ کو نہیں لے کرجانا، تو نہ لے کر جائیں، مگر ایسے باتیں بنانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گھر کا سودا سلف تو اب زیادہ تر مَیں ہی لاتا ہوں۔ اُن کی نوکری کیا لگ گئی، ہم پراب اُسی کا رعب جماتے ہیں۔ ہونہہ!‘‘ مَیں اُس کی باتیں سُن کر سخت پریشان ہوگئی۔ بازو کا درد توجانے کہاں گیا، بیٹوں کی باتیں سُن کرالبتہ دل میں درد جاگ اُٹھا۔

دھوپ ڈھلے مَیں نے چُپ چاپ چادر اوڑھی پرس اُٹھایا اور گھرسےباہر نکل آئی۔ اب رکشے میں بیٹھی مسلسل سوچ رہی تھی کہ شوہر کے بغیر گھر کا نظام سنبھالنا کتنا مشکل ہے۔ اِسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے۔ مجھ جیسی گھریلو عورتوں کے لیے تو جوان اولاد کو کنٹرول کرنا جوئے شِیر لانے کے برابر ہے۔ سلمان کےابو کی زندگی میں مجھے کبھی بیٹوں کو سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی، مگر اُن کے جانے کے بعد جوان بچّوں سے کام کروانا نہایت مشکل لگنے لگا تھا۔ 

سچ کہوں تو سلمان غلط نہیں۔ اُس کی طبیعت میں عاجزی ہے۔ وہ بات بھی مان لیتا ہے۔ والد کی وفات کے بعد اُس نےخُود کوبڑاسمجھتے ہوئے ساری ذمّےداریاں بحسن و خوبی سنبھال لیں، لیکن شاید اب وہ تھک رہا ہے یا پھر عدنان کا لاپروا رویہ اُسے اندر سے بغاوت پر اُکساتا ہے۔ عدنان اُس سے پانچ سال چھوٹا ہےاورچھوٹا ہونے کی وجہ سے خاصا لاڈلا بھی۔ گھر کے کاموں میں اُس کی زیادہ دل چسپی نہیں ہے۔ 

مَیں بھی شاید سلمان کی عاجزی سے مطمئن ہوں، اِس لیے عدنان پر کسی کام کے لیے زیادہ زور بھی نہیں دیتی یا پھر اُس کی اکھڑطبیعت سےخوف زدہ سی رہتی ہوں۔ ڈر لگتا ہے،کہیں یہ بڑے بھائی سے الجھ پڑا تومجھ ناتواں میں کہاں سکت ہے، اِن دونوں کو سنبھالنے کی۔ 

سلمان کے ابو زندہ ہوتے، تو مجھے کبھی یہ صعوبتیں اُٹھانی نہ پڑتیں۔ لیکن اب جوان بچّوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے، تو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے مَیں تو ان کی رعیّت میں آگئی ہوں۔ یہی سوچتے سوچتے سفر تمام ہوا اور کلینک آگیا۔ 

مَیں رکشے والے کو کرایہ دے کر اندر آگئی۔ صد شکر کہ نمبر بھی فوری مل گیا۔ مَیں نےڈاکٹرکو چیک اَپ کرواتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آج مجھے اپنا دوسرا بازو بالکل اجنبی لگ رہا ہے۔‘‘ وہ مُسکراتے ہوئے بولے۔’’ورزش کیا کریں۔ اس سے انسانی اعضاء قابو میں رہتے ہیں اور دماغ ہر جسمانی حصّے سے ایک جتنی مشقت لیتا ہے۔‘‘ 

مَیں نے جواب دیا۔ ’’اب اِس عُمر میں یہ اچھل کُود کہاں ہوگی مجھ سے؟؟‘‘ اُنھوں نے ایک تاسف بھری نگاہ مجھ پرڈالی۔ ’’دیکھیے،ہمارےاعضاء بھی ہماری توجّہ اورانصاف مانگتے ہیں۔ جب نادانستہ طور پر ہم جسم کے کسی ایک حصّے پر بوجھ ڈالتے جائیں گے، تو بہت جلد وہ درد کی صورت کراہ اُٹھے گا اور مزید کام سےانکار کردے گا۔

ایسی صُورت میں جب آپ دوسرے اعضاء سے کام لینا چاہیں گی، تووہ اُس طرح کام نہیں کرسکیں گے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تبھی ہوش میں آتے ہیں، جب درد حد سے سوا ہو جاتا ہے۔‘‘ مَیں نے قائل ہوتے ہوئےاثبات میں سر ہلایا اور اُن کا شکریہ ادا کرکے کیبن سےباہر نکل آئی۔ میڈیکل اسٹور سے دوا لے کر پلٹی، تو دل خُوشی سے نہال ہوگیا۔ عدنان بائیک لیے میرے انتظار میں کھڑا تھا۔ یک گونہ اطمینان میری رُوح میں سرایت کرنے لگا۔ یعنی حالات ابھی اُس نہج پر نہیں پہنچے تھے، جہاں بہتری کی گنجائش نہ ہو۔

گھر پہنچے تو سلمان آفس سے واپس آچکا تھا۔ دونوں بھائی ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھنے لگے۔ ساتھ ساتھ باؤلنگ، بیٹنگ پر تبصرہ بھی کرتے جاتے۔ دونوں کے بیچ صُبح والی تلخی موجود نہیں تھی۔ مَیں نے بھی آتے ہی کچن کا رُخ کیا اور آہستہ آہستہ اپنے نامکمل کام پورے کرنے لگی، لیکن اب مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ دوسرا ہاتھ پہلے کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح چل رہا تھا۔ مَیں نے اپنے سیدھے بازو کو بوسہ دیا اور دونوں بازوؤں پر محبت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے خُود سے کہا۔ اللہ کا شُکر ہے کہ تم دونوں میرے وجود کے ساتھ جُڑے ہوئے ہو۔ اب میں تم دونوں میں سے کسی پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالوں گی۔‘‘